۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
ارشاد حسین ناصر

حوزه/دنیا بھر میں واقعات ہوتے ہیں، دہشت گردی بھی اب صرف پاکستان یا مسلم ممالک تک محدود نہیں رہی، داعش اور القاعدہ جسے خود اہل مغرب نے امت مسلمہ پر مسلط کرنے کیلئے وجود بخشا، نے اپنے بانیوں اور سرپرستوں کو بھی اس آگ میں جلایا، جو انہوں نے دوسروں کیلئے لگائی تھی.

حوزہ نیوز ایجنسی|دنیا بھر میں واقعات ہوتے ہیں، دہشت گردی بھی اب صرف پاکستان یا مسلم ممالک تک محدود نہیں رہی، داعش اور القاعدہ جسے خود اہل مغرب نے امت مسلمہ پر مسلط کرنے کیلئے وجود بخشا، نے اپنے بانیوں اور سرپرستوں کو بھی اس آگ میں جلایا، جو انہوں نے دوسروں کیلئے لگائی تھی، پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے، جہاں دہشت گردی نے اپنی آخری حدود کو چھوا۔ ہاں مگر ایک فرق دیگر ممالک اور ہمارے دیس میں ضرور ہے کہ یہاں ہونے والے قتل عام میں ہمیشہ قاتل نامعلوم ہی رہے، سازشوں کے تانے بانے اتنے باریک اور گہرے تھے کہ سازش گروں اور استعمال ہونے والوں کی اصلیت کو ہمیشہ چھپایا گیا۔ ایک عرصہ تک ہمارے حکمران یہ دہائی دیتے رہے کہ یہاں داعش کا وجود نہیں اور نہ ہی ہم اس کا منحوس سایہ اپنے پیارے ملک پر پڑنے دینگے، مگر یہ سب نے دیکھا کہ داعش نے کئی ایک کارروائیاں کیں اور اسے اپنے نام سے تسلیم کیا۔ ہم جو ان سب کے ڈسے ہوئے تھے، ہم چیختے رہے کہ یہ مت کہو کہ داعش کا وجود یہاں پر نہیں، داعش اور طالبان ایک ہی سوچ و فکر ہے، داعش و القاعدہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، داعش اور لشکر ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔ ان کی فکر، ان کی سوچ، ان کا انداز، ان کی سفاکیت، ان کی وحشت، ان کا اسلام ایک ہی ہے، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور ہم بطور پاکستانی اس کا شکار ہوتے رہے۔

ہمارے گلے کٹتے رہے، ہم خون میں نہاتے رہے، ہمارے گھر برباد ہوتے رہے، ہماری مائوں بہنوں کے سہاگ اجڑتے رہے، ہمارے سر سے سائے چھنتے رہے۔ ہمارے ملک کے سپاہی، افواج و افسران جانوں پر کھیلتے رہے، ہم بے آسرا و بے خانماں برباد ہوتے رہے، خون کی ندیاں بہتی رہیں، دہشت گرد دندناتے رہے، وحشت کا راج اور سفاکیت کی گھن گرج ہر سو سنائی دیتی رہی۔ عالمی طاقتوں نے اپنوں کی مہربانیوں سے ہمارے بہت ہی پیارے اور قابل ترین افراد اور شخصیات کو ہم سے چھین لیا۔ بے نظیر بھٹو کا قتل بھی انہی سازشوں کا نتیجہ تھا، جنھیں ایک عالمی سازش کا شکار بنایا گیا، مقصد فقط یہ تھا کہ پاکستان اہل اور ویژنری قیادت سے محروم ہو جائے، جو آج ہم سب کے سامنے ہے، آج ہماری ملکی سطح پر کوئی ایسی لیڈر شپ نہیں، جسے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہو، سب کے سب بونے ہیں، جن کا قد کاٹھ اتنا بھی نہیں کہ ایک سے دوسرے صوبے والے انہیں اپنا قائد یا رہنماء ماننے کو تیار ہوں۔

کتنے پیارے لوگ تھے، جو ہم سے چھین لئے گئے، کیسے کیسے مسیحا تھے، جن کو سرعام گولیوں سے بھون دیا گیا، کتنے ملک و عوام کے خدمت گار تھے، جن کا وجود اس دھرتی کیلئے سراپا رحمت اور باعث خوشبختی تھا، ان کو ہم سے چھین لیا گیا۔ کون محفوظ رہا، معصوم بچے جو اے پی ایس سمیت کئی ایک اسکولز میں چیتھڑوں میں بدل گئے، جن کی مائیں ان کا انتظار کرتے کرتے پاگلوں کی طرح آج بھی اے پی ایس کے گیٹ تک پہنچ جاتی ہیں۔علماء کرام جنہیں نمازیوں سمیت مساجد کی صفوں پر ان کے اپنے خون سے رنگین کر دیا گیا۔ ڈاکٹرز جو انسانیت کیلئے وقف ہوتے ہیں، ان کو دوران مسیحائی گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ شعراء جو کسی بھی ملک کے ادب و ثقافت اور روایات کے امیں ہوتے ہیں، ان کو شاہراہوں پہ خون میں لت پت کیا گیا۔ مزارات جن پہ لوگ اپنے ذہنی سکون اور روحانی پیاس بجھانے جاتے ہیں، وہاں خودکش حملوں سے ہزاروں بے گناہوں کا لہو کیا گیا۔

کون سا طبقہ رہ گیا، کون سے شعبہ کو بخشا گیا، شائد کوئی بھی نہیں، مگر اس کے باوجود اس ملک کے آئین و قانون اور عدالت و حکومت نے دہشت گردوں کو چوکوں میں نہیں لٹکایا۔ کسی جج نے آج تک کسی بڑے سے بڑے دہشت گرد کے خلاف فیصلہ نہیں دیا کہ اسے سرعام چوک میں پھانسی پر لٹکایا جائے اور نہ ہی کسی نے یہ جراءت کی کہ کسی نامی گرامی دہشت گرد کے خلاف اس کے تسلیم کردہ جرائم کی بنیاد پر قانون کے مطابق سزا دے بلکہ دہشت گردوں سے منہ چھپائے جاتے رہے۔ عدالتیں جیلوں کے اندر لگا کر بھی ججز اپنے منہ چھپا کر دہشت گردوں کے سامنے آتے رہے اور تو اور اس ملک میں سپیشل کورٹس کے ساتھ فوجی عدالتیں قائم کی گئیں، تاکہ عدلیہ کی کمزوریوں اور انتظامیہ کی قانونی پیچیدگیوں و باریکیوں سے بچ کر دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے، مگر اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

کتنے دہشت گرد ان فوجی عدالتوں سے سزا پا کر اپنے انجام کو پہنچے، باقیوں کا تو پتہ نہیں، مگر ایک بہت بڑا دہشت گرد جس نے اے پی ایس سمیت کئی بم دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات کو برملا تسلیم کیا، اسے گرفتار کرکے رکھا گیا ہے اور وہ اب تک سرکاری مہمان کے طور پر ہمارے تحفظ کے ضامن اداروں کے پاس موجود ہے۔ کیا احسان اللہ احسان اور مسلم خان سوات والے سے بڑھ کر بھی کوئی دہشت گرد اس ملک میں موجود تھا، جو دہشت گردی کی ہر واردات کو بر سرعام میڈیا میں بیان جاری کرکے تسلیم کرتے تھے اور دہشت گردوں کی ترجمانی اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔ کیا ان کو ایک عبرتناک مثال نہیں بنانا چاہیئے تھا؟ کیا ایسے لوگوں سے خیر کی کوئی توقع رکھی گئی ہے کہ اب تک سرکاری مہمان بنا رکھا ہے۔

ان مائوں کے بچوں اور احسان اللہ احسان جیسے دہشت گردوں میں کوئی فرق تو ہونا چاہیئے، جنہیں بے قصور، ناجائز اور غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے۔ کتنے مائوں کا لال ہیں، جن کا کوئی اتا پتہ نہیں، کئی ماہ اور بعض کو تو کئی کئی سال گزر گئے ہیں۔ انتظار کی گھڑیاں گنتے ان کے پیارے، ان کے بچے، ان کی بیویاں، ان کی بیٹیاں، ان کی مائیں ہر شب دروازہ بند کرتے ہوئے اس سوچ اور مایوسی میں بستر پر جاتی ہیں کہ ایک اور دن نہ جانے کیسے گزارا ہوگا، ان کے پیارے، راج دلارے نے اور پھر بستر پہ لیٹے لیٹے جب نیند کوسوں دور چلی جاتی ہوگی تو سوچوں کے دائرے بنتے کسی دائرے میں یہ سوچ آجاتی ہوگی کہ شائد کل کا سورج ان کے پیارے کی بازیابی کا پیغام لے کر طلوع ہوگا۔

بس یہی فرق ہے ہمارے ملک اور دوسرے ممالک میں کہ واقعات و حادثات ہر جگہ ہوتے ہیں، دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے، جس کا شکار زیادہ تر امت مسلمہ ہی ہے، مگر اہل مغرب بھی اس سے محفوظ نہیں، واقعات اور دہشت گردی کو وقت سے پہلے ناکام بنانا یقیناً بہت بڑا کام ہے، مگر دہشت گردی ہو جائے تو اس کے زمہ داران کو پکڑ کر عدالتی کٹہرے میں لانا اور ان کے منطقی انجام تک پہنچانا اصل کام ہے، ایسے عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو نشان عبرت بنانا اصل کام ہے، سازشیں کرنا یا سازشوں میں شریک ہونا نہیں بلکہ سازشیوں کو بے نقاب کرنا اصل کام ہے، اگر کوئی ملک کیساتھ مخلص ہونے کا دعویدار ہے، چاہے وہ ادارہ ہے یا فرد، حکومت ہے یا اپوزیشن، مذہبی رہنماء ہے یا سیاست باز تو اسے کسی بھی سطح پر دہشت گردوں، ملک دشمنوں اور تخریبی عناصر کیساتھ اپنے تعلق کو توڑ کر ملک سے وفاداری کا حلف پورا کرنا ہوگا، ورنہ تو ہم یونہی قتل ہوتے رہیں گے اور پھر یہی صدا سنائی دے گی۔
ہر لحظہ ہے قتل عام یہاں اور کہتے ہیں کہ قاتل کوئی نہیں

تحریر: ارشاد حسین ناصر

نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .