۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 361006
18 جون 2020 - 16:16
ایس ایم شاہ

حوزہ/انسانی شخصیت کی عکاس،چابی اور اس کا ترجمان زبان ہے۔ علم و دانش، عقیدہ و اخلاق کی کلید زبان ہے، زبان کی اصلاح کے ذریعے عقائد و اخلاق کی اصلاح ممکن ہے۔ زبان دل کا ترجمان، عقل کا نمائندہ اور روح انسانی کا اہم ترین دریچہ ہے۔ یہ نہ تھک جاتی ہے، ہر ایک کی دسترس میں ہے اس میں کوئی ملال نہیں۔ انسانی جسم کے دوسرے اعضاء کی مانند یہ بھی ایک اہم الہی نعمت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|انسانی شخصیت کی عکاس،چابی اور اس کا ترجمان زبان ہے۔ علم و دانش، عقیدہ و اخلاق کی کلید زبان ہے، زبان کی اصلاح کے ذریعے عقائد و اخلاق کی اصلاح ممکن ہے۔ زبان دل کا ترجمان، عقل کا نمائندہ اور روح انسانی کا اہم ترین دریچہ ہے۔ یہ نہ تھک جاتی ہے، ہر ایک کی دسترس میں ہے  اس میں کوئی ملال نہیں۔ انسانی جسم کے دوسرے اعضاء کی مانند یہ بھی ایک اہم الہی نعمت ہے۔ اس نعمت کے شکر بجا لانے کا بہترین طریقہ اس کا درست استعمال ہے۔ زبان انسانی افکار کو الفاظ کا روپ دہار کر دوسروں تک منتقل کرنے کا بہترین وسیلہ ہے۔ بولنے کی صلاحیت کا حامل ہونا انسان کی وہ بارز خصوصیت ہے جو اسے دوسرے تمام حیوانوں سے ممتاز بناتی ہے۔ علم و دانش کو دوسروں تک منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ زبان ہے۔ زبان ہی کے ذریعے ایک قوم اپنی معلومات دوسری قوم تک اور ایک نسل اپنی معلومات کو دوسری نسلوں تک منتقل کرتی ہے۔ اگر کمیونیکیشن کا یہ وسیلہ نہ ہوتا تو نہ انسان  علم و دانش اور تہذیب و تمدن کے میدان میں اتنی ترقی کر پاتے اور نہ ہی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں پیشرفت کرپاتے۔ بڑی بڑی عبادتیں جیسے نماز، تلاوت قرآن و اذکار، مراسم حج،  امر بہ معروف و نہی از منکر زبان ہی کی وساطت سے انجام پاتی ہیں۔ تعلیم و تربیت کا دل زبان ہے۔  غافل کو حق کی طرف رہنمائی زبان ہی کے ذریعے کی جاتی ہے۔زبان کی اہمیت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی انسان کو  عدم سے  وجود میں لانے  کا تذکرہ کرنے کے فورا بعد ہی اسے بیان کی صلاحیت دینے کا تذکرہ کرتا ہے۔زبان لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ فکری  رابطہ برقرار کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ زبان انسانی شخصیت کو پرکھنے کا بہترین پیمانہ  اور اس کی عقل کو تولنے کا بہترین ترازو ہے۔

آیت اللہ محسن قرائتی کے بقول زبان ایک ایسے گوشت کا ٹکڑا ہے جس کی پہلی خصوصیت اس کا نرم ہونا ہے، دوسری خصوصیت اس کے استعمال کے لیے کچھ خرچ کرنا نہیں پڑتا، استعمال میں دشواری پیش نہیں آتی، اس کے لئے گیئرتبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی جبکہ  کسی گاڑی کے گیئر کو اگر تبدیل کرنا ہو تو بہت زحمت اٹھانی پڑتی ہے، جہاں یہ نرم ہے وہیں جس طرف  بھی اسے موڑا جائے  تو اس   کے فوائد ہی فوائد  ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا: زبان کو اچھائی کے علاوہ استعمال میں مت لاؤ! اس کے ذریعے بلاشبہ تم شیطان پر غلبہ پاؤگے۔انسان کے ایمان میں اس وقت تک  پختگی نہیں آتی  جب تک اس کے دل میں استحکام نہ آئے اور انسان کا دل اس وقت تک مضبوط نہیں ہوسکتا جب تک اس کی زبان میں استحکام اور پائیداری  نہ آجائے۔ آپؐ ہی سے  منقول ہے کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے  اے آدم کی اولاد!اگر تمہاری زبان تجھے گناہ کے لیے ورغلائے تو  اسے کنٹرول کرنے کے لیے میں نے تجھے دو لب عطا کیے ہیں تو ایسی حالت میں ان دونوں کو بند رکھو۔

 حضرت علیؑ نے ارشاد فرمایا:اگر زبان نہ ہوتی تو انسان کیا ہوتا؟ یا تو ایک مجسمہ ہوتا یا بیابانوں میں چرنے والا حیوان ہوتا۔انسان کی خوبصورتی اس کی زبان میں ہے اور اس کا کمال اس کی عقل میں ہے۔ آپؑ ہی سے منقول ہے کہ انسان کے اندر دس ایسی خصلتیں پائی جاتی ہیں کہ جن کو  زبان ظاہر کرتی ہے: زبان ایک ایسا گواہ ہے کہ جو  (انسان کے)باطن کی خبر دیتی ہے، یہ ایک ایسا جج ہے جو حق و باطل کے درمیان جدائی ڈالتی ہے،  یہ ایک ایسا ترجمان ہے جو سوالوں کا جواب دیتی ہے، یہ ایک ایساسفارشی ہے جو لوگوں کی حاجتوں کو روا کرتی ہے، یہ ایسا تعارف کرانے والی ہے جو اشیاء کی شناسائی کراتی ہے، یہ ایسا واعظ ہے جو برائیوں سے روکتی ہے، یہ ایسا تسلی دینے والا ہے جو غموں کو  فراموش کرا دیتی ہے، یہ ایسا تعریف کرنے والا ہے جو دلوں سے کینے کے زنگ کو صاف کردیتی ہے، یہ ایسا فنکار ہے کہ جس کے  ذریعے کان لذت محسوس کرتی ہے۔ انسان اس کی زبان کے پیچھے چھپا ہوا ہے، جس نے اپنی زبان کو کنٹرول  میں رکھا اس نے اپنی عزت نفس کو محفوظ بنا لیا،  زبان کی محافت کرنے والے کے عیبوں کو  اللہ تعالی چھپا لیتا ہے۔ امام صادقؑ: انسان کی نجات اس کی زبان کی محافظت میں مضمر ہے۔ امام رضا ؑ: تم اپنی زبان کو سنبھال کے رکھو تو عزت پاؤ گے۔

علمائے اخلاق و عرفان کے نزدیک سیر و سلوک کی پہلی سیڑھی زبان کا درست استعمال اور اسے کنٹرول میں رکھنا ہے۔ زبان کا درست استعمال فرد اور معاشرے کے پیچیدہ مسائل کو حل، نفرت، کدورت، دشمنی کو محبت، صلح و صفائی اور دوستی میں بدل سکتا ہے۔ آپ کی زبان سے ادا ہونے والا ایک معرفت بھرا اور فکرانگیز جملہ ایک گمراہ اور لاپرواہ شخص کی اصلاح کرکے اسے ایک سنجیدہ فرد بنا کر گھر ، معاشرہ اور ملک کے لیے ایک مفید انسان بنا سکتا ہے اور اسے صراط مستقیم پر واپس لانے کا سبب قرار پاسکتا ہے۔ لہذا زبان کی چابی جذبات اور خواہشات نفسانی کے پاس رکھنے کے بجائے اسے ہمیشہ عقل کے پاس رکھنے کی عادت ڈالئے تاکہ زبان بھرپور انداز سے آپ کی شخصیت کی کماحقہ ترجمانی کرسکے۔  

تحریر: ایس ایم شاہ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .