۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
حرم  معصومہ قم سلام اللہ علیہا

حوزہ/آپ کا نام فاطمہ اور مشہور لقب "معصومہ" ہے۔ آپ کے والد محترم ساتویں امام حضرت موسی بن جعفر (ع) اور والدہ محترمہ حضرت نجمہ خاتون ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی | 

حضرت معصومہ(س) کے مختصر حالات زندگی

آپ کا نام فاطمہ اور مشہور لقب "معصومہ" ہے۔ آپ کے والد محترم ساتویں امام حضرت موسی بن جعفر (ع) اور والدہ محترمہ حضرت نجمہ خاتون ہیں۔

جناب معصومہ کی ولادت پہلی ذیقعدہ ۱۷۳ ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ بچپنے میں ہی امام موسیٰ ابن جعفر(ع) کی بغداد میں شہادت واقع ہو گئی اور آپ آٹھویں امام علی ابن موسی الرضا(ع) کی کفالت میں قرار پائیں۔ سنہ۲۰۰ ہجری میں امام رضا علیہ السلام کو مامون نے شدید اصرار کر کے خراسان بلوا لیا۔ امام تمام اعضاء اور اقرباء کو مدینہ چھوڑ کر خراسان تشریف لے گئے۔ امام کی ہجرت کےایک سال بعد جناب فاطمہ معصومہ اپنے بھائی سے ملاقات کے شوق میں اور سیرت حضرت زینب کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اپنے کچھ بھائیوں اور بھتیجوں کے ساتھ خراسان کی طرف چل پڑیں۔ اس سفر کے دوران ہر مقام پر اپنے بھائی کی مظلومیت کا پیغام دنیا والوں تک پہنچاتی ہوئی ایران کے ایک شہر ساوہ میں پہنچیں۔ ساوہ کے رہنے والوں نے کہ جو دشمنان اہلبیت (ع) تھے عباسی حکومت کی طرف سے ماموریت  کی بنا پر اس کاروان کا راستہ روک لیا۔ اور حضرت معصومہ کے ساتھ تشریف لائے ہوئے بنی ہاشم کے ساتھ جنگ کرنے پر اتر آئے۔ اور نتیجہ میں تمام جوان شہید ہو گئے حتی ایک روایت کی بنا پر حضرت معصومہ کو بھی زہر دے دیا گیا۔

بہر حال زہر کی وجہ سے یا شدت غم اور اندوہ کی وجہ سے آپ شدید مریض ہو گئیں۔ اب چونکہ خراسان کی طرف جانا ممکن نہیں رہا لہٰذا قم کا ارادہ کیا ۔ شہر قم کا راستہ معلوم کیا اور فرمایا: مجھے قم لے چلو۔ اس لیے کہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے قم کا شہر شیعیوں کا مرکز ہے۔ جب قم کے لوگوں کو خبر لگی خوشی اور مسرت کے ساتھ آپ کے استقبال کے لیے دوڑ پڑے۔آخر کار جناب معصومہ ۲۳ ربیع الاول سنہ ۲۰۱ ھجری کو قم پہنچیں۔ صرف ۱۷ دن اس شہر میں زندگی گذاری۔اور اس دوران اپنے پروردگار سے مسلسل راز و نیاز میں مشغول رہیں۔آپ کا محل عبادت "بیت النور" کے نام سے آج بھی مشہور ہے۔

آخر کار ۱۰ ربیع الثانی سنہ ۲۰۱ ھجری بغیر اسکے کہ اپنے بھائی سے ملاقات کر پائیں بارگاہ رب العزت کی طرف سفر کر گئیں۔ قم کے لوگوں نے آپ کے جسد اقدس کو سرزمین قم میں جہاں آج آپ کا روضہ ہے تشییع جنازہ کیا اورنماز جنازہ پڑھنا  چاہتے تھے کہ دو روپوش آدمی قبلہ کی طرف سے نمودار ہوئے نماز جنازہ پڑھا کے ایک قبر میں داخل ہوا دوسرے آدمی نے جنازہ قبر میں اتارا اور دفن کر کے غائب ہو گئے۔

بعض علماء کہ بقول وہ دو آدمی امام رضا(ع) اور امام جواد(ع) تھے۔ دفن کے بعد موسی ابن خزرج سایبانی نے ایک کپڑا قبر کے اوپر بطور علامت ڈال دیا یہاں تک کہ ۲۵۶ ھجری میں حضرت زینب امام جواد کی بیٹی نے سب سے پہلی بار اپنی پھوپھی کی قبر شریف پر گنبد تعمیر کروایا   اس کے بعد یہ روضہ عالم اسلام مخصوصا اہلبیت کے چاہنے والوں کی عقیدتوں کا مرکز بن گیا۔ اورآج تمام دنیا سے آپ کے چاہنے والے آپ کے روضہ کی زیارت کرنے تشریف لاتے ہیں۔

حضرت معصومہ کی زیارت کی فضیلت

حضرت معصومہ علیہا السلام کے سلسلہ میں یہ بات قابل غور ہے کہ چودہ معصومین علیہم السلام کی زیارت کے بعد جتنی ترغیب آپ کی زیارت کے سلسلہ میں دلائی گئی ہے اتنی ترغیب کسی بھی نبی یا اولیا ء خدا کے سلسلے میں نہیں ملتی ۔ تین معصوم شخصیت نے آپ کی زیارت کی تشویق دلائی ہے۔ جن روایات میں آپ کی زیارت کی ترغیب دلائی گئی ہے ان میں سے بعض آپ کی ولادت سے قبل معصوم سے صادر ہوئی تھیں ، بعض روایات میں تو اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ اس وقت آپ کے پدر بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی بھی ولادت نہیں ہوئی تھی۔

تین معصومین (ع)کا ارشاد ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکی زیارت کے ثواب میں جنت نصیب ہوگی ۔ معصومین(ع)کی زبان سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکی زیارت کی فضیلت کے سلسلہ میں چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں:

شیخ صدوق نے صحیح سند کے ساتھ حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ :"من زارہا فلہ الجنة" جو ان کی زیارت کرے گا اسے جنت نصیب ہوگی ۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا ارشاد ہے:"من زارعمتی بقم فلہ الجنة "جس شخص نے بھی قم میں میری پھوپھی کی زیارت کی وہ جنتی ہے ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے : "ان زیارتہا تعادل الجنة"زیارت معصومہ جنت کے برابر ہے ۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے :یا سعد ! من زارہا فلہ الجنة او ہو من اہل الجنة "اے سعد جو شخص بھی ان کی زیارت کرے گا اسے جنت نصیب ہوگی یا وہ اہل بہشت سے ہے ۔

علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں امام رضا علیہ السلام کے اصحاب کی کتابوں سے روایت کی ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے سعد بن سعد اشعری کو مخاطب کر کے فرمایا :اے سعد تمھارے یہاں ہم میں سے ایک کی قبر ہے '' سعد نے کہا میں نے عرض کیا : میں قربان ! وہ دختر امام موسی کاظم علیہ السلام حضرت فاطمہ (ع)کی قبر ہے ؟ فرمایا ": نعم من زارہا عارفا بحقہا فلہ الجنة ، فاذا اتیت القبر فقم عند راسہا مستقبل القبلة کبر اربعا و ثلاثین تکبیرة و سبح ثلاثا و ثلاثین تسبیحة و احمد اللہ ثلاثا و ثلاثین تحمیدة ثم قل : السلام علی آدم صفوة اللہ .... الخ

ہاں جس شخص نے ان کے حق کی معرفت کے ساتھ ان کی زیارت کی وہ جنتی ہے ۔ جب تم قبر مطہر کے پاس جاؤ تو سر اقدس کے پاس قبلہ رخ کھڑے ہوکر ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ اور ٣٣ مرتبہ الحمد للہ پڑھو اس کے بعد اس طرح زیارت پڑھو :السلام علی آدم صفوة اللہ۔۔۔۔الخ 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .