۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 362612
13 ستمبر 2020 - 04:15
تقویم حوزہ: ۲۴ محرم الحرام ۱۴۴۲

حوزہ/تقویم حوزہ: ۲۴ محرم الحرام ۱۴۴۲

حوزہ نیوز ایجنسیl
 تقویم حوزہ:
آج:
عیسوی: Sunday - 13 September 2020
قمری: الأحد،(یکشنبہ،اتوار) 24 محرم 1442

آج کا دن منسوب ہے:
مولی الموحدین امیر المومنین حضرت علی بن ابیطالب علیهما السّلام
(عصمة الله الكبري حضرت فاطمة زهرا سلام الله عليها)

آج کے اذکار:
- یا ذَالْجَلالِ وَالْاِكْرام (100 مرتبه)
- ایاک نعبد و ایاک نستعین (1000 مرتبه)
- یا فتاح (489 مرتبه) فتح و نصرت کے لیے

اہم واقعات:
........

➖➖➖➖➖
چوبیسویں مجلس -- یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ بِـاِمَامِھِمْ

اس دن کو یا د رکھو جس دن ہم تمام لوگوں کو امام ؑکے ساتھ بلائیں گے۔۔ اس جگہ اللہ نے دوچیزوں کا خصوصی تذکرہ فرمایا ہے قیامت اور امامت، یعنی قیامت کو نہ بھولو اور امامت کو معمولی نہ سمجھو۔۔۔۔ کیونکہ ہر تاریخ کو انسان بھلا سکتا ہے لیکن پیشی کی تاریخ نہیں بھلائی جا سکتی؟ پس قیامت کو اس لیے یاد رکھو کہ تمہاری پیشی کا دن ہے اور امامت کو اس لیے نظر انداز نہ کرو کہ اس دن پیشی کا انجام اچھا نہ ہوگا اگر امام اچھا نہ ہوگا۔۔ پس نیک بخت ہے وہ انسان جس کا امام ؑکامیاب اور بدنصیب ہے وہ انسان جس کا امام ؑناکام ہے۔
دیکھئے۔۔ جو بھی دنیا میں آیا اس نے یہاں سے جانا ضروری ہے نہ آنا اختیاری ہے اور نہ جانا اپنی مرضی کا ہے، جب جس کو جہاں جس خاندان میں جس شکل وصورت میں وہ بھیجے اسے آنا پڑتا ہے نہ مجالِ عذر ہے اور نہ مجال انکا ر اور جب جسے جہاں جس حالت میں گھر میں یا سفر میں۔۔ بچپنے میں۔۔ جوانی میں۔۔ بڑھاپے میں۔۔ بیمار کرکے یا تندرستی کی حالت میں وہ بلالے اُسے بلا عذر جانا پڑتا ہے نہ آنے والا آج یا کل کی مہلت مانگ سکتا ہے اور نہ مرنے والا کل یا پرسوں تک کی چھٹی لے سکتا ہے۔۔۔ پیدا ہونے اور مارنے میں مجبور ہے لیکن درمیان میں با اختیارہے کوئی مجبوری نہیں خواہ نیک ہو کر زندگی گزارے یا بد ہو کر رہے لا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن
مرنے کے بعد پھر وہ اٹھائے گا اور وہ بھی انسان کی مرضی سے نہیں بلکہ میری مرضی سے، جس طرح پیدا ہونا اختیاری ہے اور مرنا مجبوری کا اسی طرح وہ جب اُٹھائے گا تو اٹھنا بھی مجبوری کا ہوگا۔۔۔ پس اس دن حساب لے گا کہ اس عطا شدہ زندگی کو تو نے کہاں خرچ کیا ؟ کیونکہ یہ تیرے اختیارمیں تھا پس جن امور میں تو بے اختیارہے وہ نہ پوچھے گا لیکن جہاں اس نے اختیار دیا ہے اس کے متعلق سوال کرے گا۔۔ پس انسان کو زندگی کا ہر لمحہ سو چ سمجھ کر گزارنا چاہیے اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے۔
اس لیے احمق ہے وہ انسان جو پُل کو گھر سمجھے کیونکہ پل ٹھہرنے کے لیے نہیں بلکہ گزرنے کے لیے ہوتی ہے اور یہ دنیا قیام گاہ نہیں ہے عبوری گزرگاہ ہے، پہلے کافی لوگ گزرگئے آج ہم گزر رہے ہیں ہمارے بعد اور آئیں گے اور یہاںسے گزریں گے۔۔۔ پس کسی کو گرتے دیکھ کر خوش نہ ہونا بلکہ اپنے قدم درست رکھو اور ارشاد ہے نالائق ہے وہ انسان جو کمرۂ امتحان کو تفریح گاہ سمجھے اور ہنس کھیل کر وقت ضائع کر دے، یہ دنیا ایک کمرہ امتحان ہے اس میں سو چ سمجھ کر اپنے اوپر عائد شدہ سوالات کا جواب تیار کرو اگر انسان نیکی کا ارادہ کرے تو ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور جب عمل کرے تو دس نیکیاں اور دوسری طرف برائی کا ارادہ کرے تو کچھ نہ لکھا جائے گا اور برائی کرے تو سات گھنٹے یا سات دن تک نہیں لکھا جائے گا کہ شاید توبہ کرلے اور اگر لکھی بھی جائے گی تو صرف ایک لکھی جائے گی۔
دیکھئے۔۔۔ کمرۂ امتحان میں انسان کا قلم آزاد ہے جو چاہے لکھے اگرغلط لکھے تو اس کو کاٹنے کابھی اختیار ہے نہ قانون روکتا ہے اور نہ نگران اس کے ہاتھ کو پکڑ سکتا ہے اگر خود اپنے ہاتھ سے غلطی کو کاٹے گا تو اس کے نمبر نہ کٹیں گے لیکن اگر غلطی کو قلم زد خود نہ کر ے تو پرچہ دیکھنے والا غلطی نہ کاٹے گا اس کے نمبر کاٹے گا اور غلطی کو وہی کاٹ سکتا ہے جو اپنے سابق لکھے ہوئے کو دوبارہ پڑھے۔۔۔ انسان بھی اس زندگی کے دوران جن جن غلطیوں کو کاٹنا چاہے بخوبی توبہ کی قلم سے اسے کاٹ سکتا ہے اور یہ تب ہو سکتا ہے کہ اپنی گزشتہ زندگی پر نظر ثانی کرلے۔۔ اور قاعدہ یہ ہے کہ پرچہ کو پڑھ کر آسان سوالات کا حل پہلے کر لینا چاہیے تا کہ اگر وقت ختم ہوجائے تو پاس ہونے کے نمبر تو مل جائیں گے ایسا نہ ہو کہ شروع سے ہی مشکل سوالات میں اُلجھ جائے اور وقت گزر جائے۔
دنیاوی امتحانات میں اگرکوئی کسی کی نقل کرے تو خلافِ قانون ہے لیکن زندگی کے امتحان میں نقل کرنا بھی ثواب ہے لیکن نقل اس کی کرے جس کے کامیاب ہونے کا یقین ہو۔۔ ایسے کی نقل نہ کرے جس کے ناکام ہونے کا یقین ہو پس اگر حیدری ہے تو نقل ابوذر کی کرے اور حسینی ہے تو نقل حر ّکی کرے۔۔ ایسا نہ ہو کہ حیدری کہلاتے ہوئے امیر شام کے کردار کی نقل کرے یا حسینی کہلا کر یزیدی افعال کی نقل کرے؟
دیکھئے۔۔۔۔۔کربلا میں شرکائے امتحان ۷۲ تھے۔۔ کئی وہ تھے جنہوں نے شروع سے ہی اس امتحانی پرچہ کوصحیح حل کیا اور حر ّوہ ہے جس نے پرچہ غلط حل کیا اور کمرہ امتحان بند ہونے سے پہلے غفلت کی نیند سے بیدار ہو کر اس نے تمام غلطیوں پر توبہ کا قلم پھیر دیا اور حبیب بن مظاہر کی طرح کامیابی کی سند لے لی۔
انسان کا دامن نجس ہو اور سامنے دریا بہہ رہا ہوتو اس کو فکر کی کیا ضرورت؟ اس کاکام ہے دامن کو دریا میں غوطہ دینا اور دریا کا کام ہے اسے پاک کرنا، یہ دامن کو دریا میں ڈالنے سے بخل نہ کرے تو دریا اس کو پاک کرنے میں بخل نہ کرے گا۔
اے مومن! تیرا وسیلہ حسین ؑ ہے اور بخشش خدا کا سمندر تیرے سامنے موجزن ہے اپنے گنہگار دامن کو توبہ کے ذریعے اور حسین ؑ کے وسیلہ سے دریائے مغفرتِ پروردگار میں داخل کرنے سے بخل نہ کر  وہ بخشنے سے بخل نہ کرے گا۔
اللہ چاہتا ہے کہ میں نے کرامت کا تاج تیرے سر پر رکھا ہے تو میری بارگاہ میں اسی تاج کے ساتھ حاضر ہو اس کو پائو ں میں روندنے کی کوشش نہ کر۔
خداوندکریم نے انسان کی حَسین تخلیق پر خود ناز کیا ہے۔۔۔ چنانچہ سورہ والتین میں  التین۔۔ الزیتون۔۔ طورسینین اور بلد امین کی قسَم کھا کر فرمایا ہم نے انسان کو بہت اچھی وضع و شکل سے خلق کیا ہے، ایک اور مقام پر انسان کی تخلیق کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا تَبَارَکَ اللّٰہُ أحْسَنُ الْخَالِقِیْناسی طرح ایک مقام پر حضرت امیر المومنین ؑ نے فرمایا  مَا لِبَنِیْ اٰدَمَ وَالْفَخْرَ اَوَّلُـہُ نُطْفَۃٌ وَاٰخِرُہُ جِیْفَۃٌ  انسان بنی آدم کا فخر سے کیا واسطہ؟ جس کی ابتدأ نطفہ ہے اور انتہا مردہ ہے؟ پس اے انسان اپنی موجودہ حالت پر ناز نہ کر۔۔ خدا وند کے کرم پر ناز کر اور اپنی جوانی پر گھمنڈ نہ کر بلکہ اس کی مہربانی کا شکر ادا کر جس نے ایک گندے پانی کی حیثیت سے نکال کر تجھے اشرف المخلوقات کی خلعت عطا فرمائی۔
نجس قطرہ کو مناسب ماحول میں اپنے ید قدرت سے اس کی تربیت فرمائی قطرہ سے خون بستہ پھر گوشت کا لوتھڑا پھر اس میں ہڈیوں پٹھوں رگوں اور خون کی نالیوںکا جال بچھایا، پھر تمام اعضا ٔ اپنی اپنی جگہ پر فٹ کئے اور ہر ایک عضو کا دوسرے سے کنکشن درست کیا اور اوپر چمڑے کا غلاف چڑھا دیا تا کہ ساری مشینری محفوظ رہے اور چار ماہ تک پوری فٹنگ کے بعد جب تک روح کا کنکشن آن نہ کیا نہ ماں کو خبر تھی کہ کیا ہے اور نہ باپ کو پتہ تھا کہ کیا ہے ؟ جب روح کا کنکشن آن ہوا توماں سمجھی کہ خدائی دستر خوان پر آنے والا مہمانِ خصوصی عنقریب میری گود کی بھی زینت بنے گا، پس خوشیوں کی لہر دوڑگئی۔۔ ابھی تک اس مہمان کی شکل کسی نے نہیں دیکھی، نہ نریا مادّہ کا پتہ ہے۔۔ نہ یہ خبر ہے کہ وفادار ہو گا یا بے وفا؟ مومن ہو گا یا کافر؟ نیک ہو گا یا بد؟ خوبصورت ہے یا بدصورت ؟ لیکن تمام احباب اس کی آمد کے منتظر اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کوئی جھولا تیار کررہا ہے کوئی پوشاک بنا رہا ہے غرضیکہ اے انسان تیری آمد سے پہلے یہ استقبالیہ پارٹی تیری خوش آمدید کیلئے چشم براہ ہے۔۔ دیکھے اور آزمائے بغیر ان کے دلوں میں تیری محبت ڈالنے والا کون ہے؟
اے انسان!  تیرے جسم کے اعضا ٔ کو جس مستحسن ترتیب سے میں نے جوڑا ہے کوئی ہے دنیا کا دانشمند جو میر ی اس فٹنگ میں عیب نکال سکے؟ اگر پائو ں میں کانٹا چبھے تو زبان سے ہائے نکلتا ہے آنکھ سے آنسو نکلتا ہے اور ہاتھ فوراً مقام حادثہ پر پہنچتا ہے۔۔ بتائو تکلیف تو وہاں تھی ان اعضا ٔ کو کیسے پتہ چلا؟ معلوم ہوتا ہے کہ ہر عضو سے دوسرے عضو تک لطیف ساکنکشن ہے کہ ایک عضو کی تکلیف تمام اعضا ٔ کو بے چین کردیتی ہے۔
غالباً اسی نسبت سے معصوم ؑنے فرمایا کہ تم تما م مومنین جسم واحد کی طرح ہو جائو کہ جس طرح جسم کے ایک عضو کی تکلیف سب اعضا ٔ کو متاثر کرتی ہے اسی طرح دنیا کے کسی حصہ میں مومنوں کو کوئی تکلیف پہنچے تو دنیا کے تمام مومنوں کو تڑپ جانا چائیے۔
اے انسان!  شکم مادرمیں تیری غذا ماں کا خون تھا جب ماں کی گود کی زینت بنا تو تیری غذا کا وہ راستہ بند کر دیا گیا اور منہ کو تیری غذا کا راستہ بنایا او ماں کا سینہ تیری غذا کا خزینہ بن گیا۔۔۔ شکم مادر میں منہ کے ذریعے غذا نہیں دی گئی کیونکہ وہ غذا زبان سے مس ہونے کے قابل نہ تھی، پس جب تک تو خدائی دستر خوان پر تھا تو تیری زبان کو اس نے نجس نہ ہونے دیا بلکہ غذا کا راستہ بدل دیا اب دنیا میں اس زبان کو نجس نہ کرنا کیونکہ یہ زبان ذکر خدا اور ذکر محمد ؐ و آل محمد علیہم السلام کے لیے ہے۔
اسی لیے حدیث میں کہا گیا ہے کہ شیعہ کوے کی طرح لالچی نہیں ہوتا اور کتے کی طرح بھونکتا نہیں۔۔۔ یعنی منشا ٔخدا و رسول و آئمہ کے خلاف زبان کو استعمال کرنا بولنا نہیں بلکہ بھونکنے کے مشابہ ہے۔
شکم مادر میںتو بیمار تھا تو اللہ نے علاج کیا۔۔بھوکا تھا تو اللہ نے رزق پہنچایا اور تیرے تمام ضروریات کا کفیل وہی رہا۔۔۔اب تیرے جوان و طاقتور ہونے کے بعداس کی قدرت سے تو بعید نہیں ہے کیونکہ روح کا وہ کنکشن جس کے آن ہونے سے تجھے زندگی ملی اب بھی اُس کے ہاتھ میں ہے اگر چاہے توآن رہنے دے اور چاہے تو آف کردے، بچپنے میں۔۔ جوانی میں۔۔ بڑھاپے میں۔۔ سفر میں۔۔ گھر میں۔۔ بیمار کرکے یا تندرستی کی حالت میں جب چاہے وہ اس زندگی کے بٹن کو آف کر سکتا ہے لہذا اس کا شکر ادا کرو اور اس کی گرفت سے ڈرو۔   
یہ انسان کس قدر جفا کار ہے؟ ہر ایک کا خوشی سے سلام کرتا ہے، سپاہی کا سلام۔۔ افسر کا سلام۔۔دوست کا سلام۔۔ بزرگ کا سلام۔۔ ساتھی کا سلام۔۔ بلکہ ہر ایک کا سلام لیکن اگر سلام نہیں کرتا تو اس مہربان خالق کا جس نے سب کچھ مفت عطا فرمایا؟ سجدہ میں جاکر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأعْلٰی وَ بِحَمْدِہ کہہ دینے سے اس کا حق عبودیت تو پورا نہیں ہوتا یہ تو صرف سلام اور اقرار ہے کہ میں تیرا عبد ہوں اور تو معبود برحق ہے۔
ہمارے عباد ت کرنے سے اللہ کی شان میں اضافہ نہیں ہوتا اس کو ملائکہ کا سجدہ بڑھاتا نہیں اور ابلیس کا انکار گھٹاتا نہیں ۔۔۔ حضرت ابراہیم ؑ کا سجدہ فائدہ نہیں دیتا اور نمرود و فرعون کی سرکشی نقصان نہیں پہنچاتی۔۔۔ وہ عبادت سے بڑھتا نہیں اور نافرمانی سے گھٹتا نہیں، کیونکہ جو گھٹے یا بڑھے وہ خدا نہیں۔
  دیکھئے۔۔ جو بیٹا اپنے باپ کو والد نہ کہے تو اس میں باپ کو کوئی نقصان نہیں بلکہ نقصان اسی بیٹے کا ہے جو باپ کو والد نہیں کہتا کیونکہ دنیا اس کوحرامی کہے گی، اسی طرح اللہ چاہتا ہے کہ میرے بندے دنیا میںمجھے یاد کر کے میرے بندے کہلائیں اور نافرمانی کر کے اور میرے حکم کے سامنے سرتابی کر کے شیطان کے نہ کہلائیں۔
ایک ہوٹل کے سامنے سے انسان گزر رہا ہو تو ہوٹل والا کتنی لجاجت اور خوشامد سے مدعو کرتا ہے؟ پھر ہوٹل کے ملازمین میز۔۔ کرسی۔۔ جگ۔۔ گلاس۔۔ بجلی کا پنکھا وغیرہ سب طرح کی خاطر تواضع کرکے چائے کا پیالہ پیش کرتے ہیں جس سے مالک کو صرف ایک روپیہ وصول ہوتا ہے اور اگر وہ ایک روپیہ بھی معاف کردے تو دل میں خوشی پیدا ہوتی ہے لیکن یادرکھو!  اس نے ایک روپیہ معاف کرکے اگر یہ شخص باضمیر ہے تو اس کے ضمیر کو خرید لیا ہے۔۔۔ اب جب بھی یہاں سے گذرے گا تو خود بھی اس کا پکا گاہک بن جائے گا اور دوست و احباب کو بھی اس ہوٹل سے شناسا کرائے گا اور آتے جاتے ہوٹل کے مالک کا سلام بھی کرے گا۔۔۔۔۔ تو اگر اللہ کہے ! اے مرے بندے جس نے تجھے صرف ایک روپیہ معاف کیا ہے اس کا تو آتے جاتے سلام کرتا ہے۔۔ میں اللہ جس نے تجھے ہر شئے معاف کی ہے کبھی تو پیشانی زمین پر رکھ کر کہہ دیا کر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأعْلٰی وَ بِحَمْدِہ؟
دیکھئے۔۔ کراچی کا ٹکٹ جیب میں ہو اور اسٹیشن پر دو گاڑیاں بیک وقت تیار ہوں ایک کا رُخ کراچی کی طرف اوردوسری پشاور جانے والی ہو تو یہ نہ کہو کہ جس گاڑی پر سوار ہوں گا وہی کراچی لے جائے گی؟ بلکہ اسی گاڑی پر بیٹھنا ہو گا جو کراچی کی طرف جارہی ہو۔۔ ورنہ اگر اسی ٹکٹ کے سہارے پشاور والی گاڑی پر بیٹھے  حالانکہ اس کو اسٹیشن کا عملہ چیکر اور سواریاں سب کہتے رہیںکہ غلطی کر رہے ہو لیکن اپنی ضد پر اَڑا ہے کہ ٹکٹ بھی حکومت کی جاری کردہ اور گاڑی بھی حکومت کی لہذا جس گاڑی پر بیٹھ جائوں کراچی پہنچائے گی تو یہ اس کی حماقت ہو گی، کیونکہ اس گاڑی پر سوار ہو گیا جو پشاور جا رہی ہے اور راستہ میں چیکنگ ہو گئی تو جرمانہ بھی پڑے گا ہتک عزت بھی ہوگی۔۔ پہلا ٹکٹ بھی ضائع اور کراچی جانے کے لیے گاڑی پھر وہی لینی پڑے گی جو کراچی جارہی ہو گی پس وقت بھی ضائع اور مقصد پر بھی لیٹ پہنچے گا۔
یہاں دنیا کے پلیٹ فام سے بیک وقت دونوں گاڑیاں روانہ ہیں ایک کا رُخ جنت کی طرف اور دوسری کا رُخ جہنم کی طر ف۔۔ جنت کی گاڑی کے ذمہ دار امام حسین ؑ اور جہنم کی گاڑی کا ٹھیکدار یزید۔۔۔ اب اگر ٹکٹ علی ؑولی اللہ کا ہے تو پہچان کر امام حسین ؑ والی گاڑی میں سوار ہونے کی کوشش کرو یہ نہ کہو ٹکٹ علی ؑولی اللہ کا ہے پس جس گاڑی میں بیٹھیں گے وہی جنت پہنچائے گی۔
بہر کیف قیامت کے دن اپنے امام کے ساتھ اُٹھنا ہو گا۔۔۔ ہر کمزور کو سہارے کی ضرورت ہوا کرتی ہے لیکن عقل کا تقاضا ہے کہ سہارا ایسا مضبوط ہو جو سہارا لینے والے کا بوجھ برداشت کرسکے، اگر آدمی کا سہارا ہے تو وہ آدمی خود بیمار نہ ہو۔۔ اگر دیوار کا سہارا ہے تو وہ گرنے والی نہ ہو۔۔ اگر لکڑی عصا کا سہارا ہے تو وہ بوسیدہ نہ ہو اگر سہارا کمزور ہو گا تو سہارا لینے والے کو بھی وہ لے ڈوبے گا۔
قیامت کے دن کے لیے امامت بھی وہ سہارا ہے جس میں کمزورری نہیں، یہ صرف گنہگاروں کا سہارا نہیںبلکہ معصومین کا بھی سہارا ہے۔۔ اُمتیوں کا سہارا نہیں بلکہ نبیوں کا بھی سہارا ہے، چنانچہ فرمان پیغمبر ؐ ہے یَاعَلِی! مِنْ اٰدَمَ اِلٰی عِیْسٰی تَحْتَ لِوَائِیْ وَ أنْتَ حَامِلُ لِوَائِیْ حضرت آدم ؑسے حضرت عیسیٰؑ تک تمام نبیوں کو میرے جھنڈ ے کے نیچے آنا پڑے گا اور تو میرے جھنڈے کو اُٹھانے والا ہو گا۔
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا جس شخص کے کانوں پر حضرت علی ؑکا نام آئے اور اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہو تو اپنی ماں کا شکریہ ادا کرے کہ اس نے اس کے باپ کے حق میں خیانت نہیںکی؟
حضرت علی ؑکا نام بہت سے کانو ں پر آتا ہے لیکن کلیجہ قسمت والوں کا ٹھنڈا ہوتا ہے۔۔ اور حضرت علی ؑکا نام شیعوں کی مخصوص علامت ہے، کیونکہ دوسرے جب مولا علی ؑکا نام لیں تو وہ ڈر ڈر کر اور شیعہ امام علی ؑکا نام لے گا ہنس ہنس کر، اسی طرح دوسر اآدمی حضرت علی ؑکا نام لے گا تو تاوان سمجھ کر اور شیعہ علی ؑعلی ؑکرے گا ایمان سمجھ کر۔
حضرت علی ؑوہ امام ہیں جن پر امامت کو ناز ہے۔۔ مولا علی ؑوہ خلیفہ ہیں جن پر خلافت کو ناز ہے۔۔ امام علی ؑوہ ولی ہیں جن پر ولایت کو ناز ہے۔۔ حضرت علی ؑوہ متدین ہیں جن پر دیانت کو ناز ہے۔۔ مولا علی ؑوہ امین ہیں جن پر مانت کو ناز ہے۔۔ امام علی ؑوہ ہمدم نبی ہیں جن پر نبوت کو ناز ہے۔۔ حضرت علی ؑوہ معاونِ رسول ہیں جن پر رسالت کو ناز ہے۔۔ مولا علی ؑوہ سخی ہیں جن پر سخاوت کو ناز ہے۔۔ امام علی ؑوہ بہادر ہیں جن پر شجاعت کو ناز ہے۔۔ حضرت علی ؑوہ عارف ہیں جن پر معرفت کو ناز ہے۔۔ مولا علی ؑوہ عابد ہیں جن پر عبادت کو ناز ہے۔۔ امام علی ؑوہ موحد ہیں جن پر وحدت کو ناز ہے۔۔ حضرت علی ؑوہ جنتی ہیں جن پر جنت کو ناز ہے۔
 تم بھی وہ شیعہ بنو جس پر شیعیت کو ناز ہو؟ لیکن یاد رکھو!  سردار جس قدر عظیم ہو غلام کو اسی کی حیثیت سے رہنا پڑے گا۔۔ معمولی اور بلند سردار کانوکر ہو تو اسی سردارکی حیثیت کے مطابق وضع رکھے گا تاکہ اس کا سردار جس بزم میں جائے یہ نوکر اس کے لیے شرم کا موجب نہ بنے۔
شیعو!  تم مولا علی ؑکی غلامی کا دعویٰ کرتے ہو توپہلے سوچو کہ امام علی ؑوہ سردار ہیں جو بزمِ اولیا ٔ کی زنیت ہے۔۔ مولا علی ؑوہ سردار ہیں جو بزم ملکوت کی زینت۔۔ امام علی ؑ وہ سردار ہیں جو بزم انبیا ٔ کی زینت ہیں، جن کے پیچھے حضرت شیث ؑسے امام مہدی ؑتک تمام اولیا ٔ ہوں اور جن کے تابع حضرت آدم ؑسے لے کر حضرت عیسیٰؑ تک تمام انبیا ٔ ہوں تم اگر غلام ہو تو کم از کم اس قدر اپنی وضع بنائوکہ حضرت آدم ؑو حضرت نوحؑ کے دوش بدوش کھڑا ہونا پڑے تو تمہیں جگہ مل سکے۔۔۔۔۔ امام علی ؑکا شیعہ ہو اور بے نما ز ہو اس کا کوئی جوڑ نہیں۔۔۔ حضرت علی ؑ کا شیعہ ہو اور خمس و زکواۃ کا پابند نہ ہو یہ کوئی جوڑ نہیں۔
آئیے۔۔۔ مولا علی ؑکی نماز اور امام حسین ؑکی نماز سے درس لیجئے کہ آخری وقت میں ابو ثمامہ صیداو ی نے خواہش کی کہ آپ کے پیچھے نماز پڑھ لیں؟ تو آپ نے اُسے دعا دی کہ خدا تجھے نمازیوں میں کرکے اُٹھائے۔
امام علی ؑ نے بھی نماز ادا کی اور امام حسین ؑ نے بھی نماز پڑھی لیکن بہت فرق ہے؟ میں کہا کرتا ہوں کہ مطمئن ماحول میں خضوع و خشوع ممکن اور آسان ہے لیکن ہر اعتبار سے ناساز اور غیر مطمئن ماحول میں خضوع و خشوع ناممکن اور مشکل ہے، ایک تکلیف بھی ہو تب بھی خضوع و خشوع ختم ہو جاتا ہے؟
امام حسین ؑ پر جتنی مشکلات۔۔ تکالیف۔۔ دکھ۔۔ درد وغیرہ کا تصور ہو سکتا ہے سب آئے، تکالیف ہر قسم کی آئیں من جملہ روحانی تکالیف۔۔ جسمانی تکالیف۔۔ احباب کی تکالیف۔۔ اصحاب کی تکالیف۔۔ وہ کونسی تکلیف ہے جو مولا پر نہ آئی؟
ہر قسم کی گرمی۔۔ ملک کی گرمی۔۔ سورج کی گرمی۔۔ پیاس کی گرمی۔۔ بلکہ یوں کہوں کہ قاسم کی پائمالی کی گرمی۔۔ اکبر کی برچھی کی گرمی۔۔ زینب کے بین کی گرمی۔۔ اصغر کے تیر کی گرمی۔۔ عباس کے بازوئوں کی گرمی۔۔ سکینہ کی یتیمی کی گرمی، یہ سب صحرائے کربلا میں ریگ کربلا پر اکٹھی تھیں تب بھی تپتی ہوئی تربت کربلا پر ہاتھ ما رکر تیمم کر کے فرماتے ہیں اللہ اکبر؟
اب بہتّر شہدا ٔ کے درمیان کھڑے ہو کر نماز کیلئے اللہ اکبر کہنا یہ امام حسین ؑ کا کام تھا، اور اتنی پرکیف۔۔ پرسکون۔۔ پرفیض اور اطمینان خاطر نماز پڑھی کہ سجدہ ریز ہو کر فرماتے ہیں:
تَرَکْتُ الْخَلْقَ طُرًّا فِیْ ھَوَاکَ
وَ أیْتَمْتُ الْعَیَالَ لِکَیْ أرَاکَ
امام مظلوم ؑبہتّر شہدا ٔ کی لاشوں کے درمیان اور برستے ہوئے تیروں کے درمیان۔۔ بہنوں۔۔ بھتیجیوں۔۔ بیٹیوں اور مخد ّرات عصمت کے اجتماع میں کھڑے ہو کر فرماتے ہیں کہ اے پروردگار اور اے معبود حقیقی!  میں ان تمام کو چھوڑ سکتا ہوں ان کی اسارت کو سہہ سکتا ہوں مگر تیرے دین کو یزید کے حوالے نہیں کر سکتا؟
یہ امام حسین ؑ کا وہ مقام ہے کہ جس نے سب مخلوقات کو بحرِ تعجب میں غوطہ لگوایا اور انگشت بدندان ہو کر صف ِ انبیا ٔ آدمؑ تا عیسیٰؑ یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ حسین ؑ جو کچھ تو نے انجام دیا یہ کسی کے بس کی بات نہیں۔۔ تو نے انبیا ٔ کی محنت کو پائمالی سے بچایا، نانا کی شریعت کو پائمال نہ ہونے دیا۔
اب شاہِ شہیداں کی تکلیف ایک نہیں۔۔ درد ایک نہیں بلکہ کئی تکالیف اور دردوں میں گھرے ہوئے ہیں اور پہلے عرض کر چکا ہوں کہ خضوع و خشوع تب ہوتا ہے جب درد و تکلیف نہ ہو لیکن امام مظلوم ؑ ہر درد کے باوجود خضوع و خشوع کی وہ نماز پڑھ رہے ہیں کہ اگر شاہِ نجف بھی کربلا آئیں تو انہیں بھی کہنا پڑے گا کہ  اَشْہَدُ أنَّکَ قَدْ أقَمْتَ الصَّلٰواۃَ  یہ زیارت مطلقہ کے الفاظ ہیں مطلب یہ کہ حسین ؑ میں نجف سے گواہی دینے آیا ہوں کہ نماز تو نے پڑھی۔
امام علی ؑ نے بھی زکواۃ میں انگوٹھی دی اور امام حسین ؑ نے بھی زکواۃ میں انگوٹھی دی۔۔ لیکن زکواۃ دینے کے ماحول میں بھی بڑا فرق تھا۔
امام علی ؑ نے زکواۃ دی مسجد میں اور امام حسین ؑ نے زکواۃ دی میدان میں۔
امام علی ؑ نے زکواۃ دی سائے میں اور امام حسین ؑ نے زکواۃ دی دھوپ میں۔
امام علی ؑ نے زکواۃ دی انگلی بچ گئی اور امام حسین ؑ نے زکواۃ دی انگلی کٹ گئی۔
اسی لئے جب بہن مقتل میں آئی اور شاہِ شہیداں کے لاشے کو خاکِ کربلا پر دیکھا تو پوچھا کہ اے مہر رسالت کے شہسوار!  یہ بتا کہ تیرے ایک ہاتھ کہ انگلیاں پانچ ہیں اور دوسرے کی چار؟ یہ پانچویں انگلی کدھر گئی؟
اب ذرا مولا علی ؑ اور امام حسین ؑ کی زندگانی کا موازنہ تو نہیں بلکہ ایک تخیل پیش کرتا ہوں؟
حضرت علی ؑ سے شجاعت میں کوئی نہیں بڑھ سکتا لیکن شجاعت کیلئے سازگار ماحول چاہیے منجملہ یہ کہ تندرستی ہو۔۔ وہ بہادر کیسے جنگ کرے گا جس کا جسم تندرست نہ ہو گا؟
دیکھئے مولا علی ؑ جنگ خیبر میں گئے لیکن جب تک ان کی آنکھ میں تکلیف رہی حضور اکرمؐ نے انہیں میدان جنگ میں جانے ہی نہیں دیا اسلئے کہ جس غازی یا مجاہد کے جسم میں کسی قسم کی تکلیف ہو اسے میدان جنگ میں نہیں بھیجا جاتا؟
جب آخری دن کہ اسلام کے بدنام ہونے کا خطرہ تھا اسی دن مولا علی ؑ کو رسالتمآبؐ نے بلایا اور آنکھ کی تکلیف کے لئے چشمِ علی ؑ میں لعابِ وحی سے دست ِ نبی نے سرمہ ڈالا ۔۔ آنکھ کی تکلیف دور ہوئی تب میدان میں جانے کی اجازت ملی، اب مولا جنگ خیبر میں گئے ایسے حال میں کہ ہر اعتبار سے مطمئن تھے۔۔ مولا علی ؑ نے سواری مانگی تو رسول اکرم ؐ نے گھوڑا پیش کیا۔
امام حسین ؑ نے جب سواری طلب کرنے کا ارادہ کیا تو بہن درِ خیمہ پر کھڑی دیکھ رہی تھی، کس سے مانگتے؟ کون باقی بچا؟
امام علی ؑ نے جب گھوڑا مانگا تو انہیں خود بنفس نفیس رسالتمآبؐ نے سوار کیا۔
امام حسین ؑ سوار ہونا چاہتے ہیں لیکن کوئی سوار کرانے والابچا نہیں۔
پس امام حسین ؑ نے دائیں اور بائیں دیکھا  نَظَرَ یَمِیْنًا وَّ شِمَالًا  پھر فرمایا  یَا فُرْسَانَ الْہَیْجَاء مَا لِیْ اُنَادِیْکُمْ فَلا تُجِیْبُوْنِیْ  اے میرے شہسوارو!  میں تمہیں بلا رہا ہوں اور تم میرے بلانے پر نہیں آتے؟
امام علی ؑ نے تلوار مانگی تو پیغمبرا کرمؐ نے پیش کی۔
امام حسین ؑ نے تلوار مانگی تو زینب عالیہ درِ خیمہ پر آئی۔
امام علی ؑ جب میدان میں گئے دائیں جبریل بائیں میکائیل آگے عزرائیل پیچھے اسرافیل اور سر پر رحمت خدا ساتھ محمد مصطفی کی دعا۔
جب امام حسین ؑ میدان میں گئے ایک طرف علی اکبر ؑ کا لاشہ۔۔ کہیں قاسم ؑکا لاشہ۔۔ کہیں عباس با وفا کا لاشہ۔۔ ہر طرف سے لاشوں میں گھر کر میدان میں گئے؟
امام علی ؑ نے درِ خیبر میں ہاتھ ڈالا اور درِ خیبر کو اٹھا کر پھینکا۔
میں عرض کروں گا یاعلی ؑ! خیبر کے دروازے میں ہاتھ ڈال کر درِ خیبر کو پھینکنا قوۃِ یداللہی کے سامنے مشکل نہیں ہاں البتہ علی اکبر ؑ جیسے نورِ نظر۔۔ لخت ِجگر۔۔ ہمشکل پیغمبر کے سینے میں لگی ہوئی برچھی میں ہاتھ ڈالنا بڑا مشکل ہے؟
امام مظلوم ؑآخری وقت جبکہ زخموں سے چور تھے اور بدن پر تیروں کے بے حد زخم تھے دشت ِ کربلا میں اشقیا ٔ کے سامنے جا کر استغاثہ کرنے لگے۔۔ چنانچہ:
پہلا استغاثہ کیا:  ھَلْ مِنْ نَّاصِرٍ یَّنْصُرُنَا  تو ایک تیرنے پیشانی کو بوسہ دیا!
دوسرا استغاثہ کیا: ھَلْ مِنْ مُّغِیْثٍ یُّغِیْثُنَاتو ایک تیر نے لب مبارک کو زخمی کیا!
تیسرا استغاثہ کیا: ھَلْ مِنْ مُّعِیْنٍ یُّعِیْنُنَا  تو تیر جفا گلو ئے نازنین پر لگا!
آخری استغاثہ کیا: ھَلْ مِنْ ذَابٍ یَذُبُّ عَنْ حَرَمِ رَسُوْلِ اللّٰہ  تو سہ شعبہ تیر سینے پر لگا اور اس کی نوکیں مڑی ہوئی تھیں وہ سامنے سے نہ کھینچا جا سکا پس پیچھے ہاتھ لے گئے اور اسے کھینچا۔۔ موقعہ پا کر ایک ظالم نے پہلو میں نیزہ مارا کہ آپ زین ذوالجناح سے زمین کربلا پر گر پڑے۔
 بیشک اس موقعہ پر حضرت زہراؑ کی روح نے بڑھ کر گود میں لیا ہو گا۔۔۔ تیروں پر کافی دیر تک رہے پس زمین پر پہنچے تو آخری وداع کیلئے خیام کی طرف روانہ ہوئے فَجَعَلَ یَنُوْئُُ وَ یَنْکَبّ یعنی بمشکل اٹھتے تھے اور گر پڑتے تھے خدا معلوم خیمہ کے دَر پر کیسے پہنچے؟
پھر پچھلی طرف پلٹ گئے اور بقولے آواز دی  یَا اُخْتَاہُ  اے بہن زینبؑ! چنانچہ بہن آئی تو بھائی سامنے نظر نہ آیا۔۔۔ پس واپس گئی دوبارہ نحیف آواز سے فرمایا  یَا اُخْتَاہُ  تو دوبارہ در خیمہ پر آئی لیکن بھائی نظر نہ آیا۔۔۔ اب جو تیسری بار امام حسین ؑ نے صدا دی تو برقعہ پہنا اور خیمہ سے باہر آئی اور خیمہ کی پچھلی جانب آکر دیکھا تو خدا کسی بہن کو بھائی کی یہ حالت نہ دکھائے جو حضرت زینب ؑ نے امام ؑ کی دیکھی۔
ایک ہاتھ کمر پر ہے اور دوسرا ہاتھ چوبِ قنات پر ہے۔۔ گردن جھکائے ہوئے ہیں، ہر زخم سے خون بہہ رہا ہے اور کہہ رہے ہیں زینب ؑ تیسری دفعہ آواز دے رہا ہوں لیکن جواب نہیں دیتی؟ پس رو کر بہن نے عرض کیا میں تو حاضر ہو ں کیا حسین ؑ تو ہے؟ جو سر سے پائوں تک خون میں گلگون ہے؟ فرمایا ہاں نانا کی امت نے یہ حال بنا دیا پھر فرمایا اے بہن! اگر کوئی کپڑا ہے تو میری پیشانی والے زخم پر پٹی باندھ دو، شاید خون روک کر سکینہ ؑ اور باقی سادانیوں سے وداع کرنا چاہتے ہوں گے؟     بی بی نے روکر عرض کیا ہوگا حسین ؑ بھیا!  تیرے کس کس زخم پر پٹی باندھوں؟ جب کہ سر تاپا کوئی جگہ زخموں سے خالی نہیں ہے۔
بقولے۔۔۔ جب حضرت علی ؑکے سر پر امام حسین ؑ نے اپنے عمامہ سے پٹی باندھی تھی تو حضرت علی ؑنے فرمایا تھا بیٹا حسین ؑ تو خوش نصیب ہے تیرا بابا زخمی ہے او ر تو پٹی باندھ رہا ہے لیکن جب تو زخمی ہو گا تیرا بیٹا تجھے پٹی نہ باندھ سکے گا؟
بقولے۔۔۔  بی بی نے عرض کیا بھیا! مجھے ماں کی وصیت پوری کرنے دیجئے گردن جھکا ئیے تاکہ میں گردن کا بوسہ لوں؟ جب بی بی نے بھائی کی گردن کو بوسہ دیا تو امام حسین ؑ نے فرمایا بہن! مجھے بھی اجازت دیجئے کہ تیرے سر کے بالوں کو بوسہ دے دوں؟ چنانچہ انہوں نے سر سے چادر کا دامن ہٹایا اور امام ؑ نے بوسہ دیا۔
آخر میں امام حسین ؑ نے فرمایا بہن زینب ؑ!  لا تُنْسِیْنِیْ فِیْ صَلٰوۃِ اللَّیْل مجھے نماز تہجد میں نہ بھولنا۔۔ پس بی بی نے ہر منزل پر نماز تہجد کو جاری رکھا۔۔ خواہ کس قدر ہی مشکل سفر تھا اور زندانِ شام میں بیٹھ کر نماز ادا کرتی رہیں۔
چنانچہ امام سجاد ؑ نے پھوپھی زینب ؑ سے وجہ پوچھی تو فرمایا قیدیوں کے لیے کھانا اتنا مختصر آتا ہے کہ اگر ہم خود اپنا حصہ پورا لیں تو یتیم بچے بھوکے رہ جاتے ہیں؟ پس جب سے شام میں آئی ہوں پانی سے گزارہ کر رہی ہوں۔۔ لہذا جسم میں کھڑے ہو کر نماز کی طاقت نہیں رہی؟
لہذا شیعو! نماز کو ہرگز قضا نہ کیا کرو۔۔ ورنہ کیا جواب دو گے ؟
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ  یَّنْقَلِبُوْن

ترتیب و تنظیم: سیدلیاقت علی

تبصرہ ارسال

You are replying to: .