۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
اربعین حسینی

حوزہ/ عدد اربعین سے مربوط آیات و روایات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام میں اس عدد کو خاص حکمت و مصلحت کے تحت رکھاگیاہے اور اس عدد کے ذریعہ بہت سے آثار و برکات کو بیان کیا گیاہے۔

تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری،  مدیر شعور ولایت فاونڈیشن 

حوزہ نیوز ایجنسی | خونیں کفن شہید حضرت امام حسین علیہ السلام کی اربعین کے سلسلے میں عام طور سے ایک سوال ہوتاہے کہ اربعین میں کیا خصوصیت ہے ، اسے اسلامی فرہنگ و ثقافت میں اتنی اہمیت کیوں ہے ؟
اگر اس بات سے چشم پوشی بھی کرلی جائے کہ اربعین حسینی مکتب اہل بیتؑ میں بے پناہ اہمیت کا حامل ہے ، اس کے بے شمار فوائد و آثار ہیں جنہیں اربعین حسینی کے موقع پر بچشم خود ملاحظہ کیاجاسکتاہے ؛ اس کے باوجود خود لفظ "اربعین "بھی اسلامی اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ، قرآن مجید میں ایسی آیتیں موجود ہیں جن میں خاص طور سے اس عدد کو موضوعیت دی گئی ہے ، روایات میں بھی اس عدد کو استعمال کرکے اس کی اہمیت کو اجاگر کیاگیاہے ، عدد اربعین سے مربوط آیات و روایات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام میں اس عدد کو خاص حکمت و مصلحت کے تحت رکھاگیاہے اور اس عدد کے ذریعہ بہت سے آثار و برکات کو بیان کیا گیاہے ؛ آئیےان آیات و روایات کاسرسری جائزہ لیاجائے ۔

اربعین ؛ قرآن کے تناظر میں

قرآن مجید کی بعض آیات میں خاص طور سے لفظ"اربعین "کی تصریح کی گئی ہے اور اس کے ذریعہ انتہائی اہم مقصدو ہدف کی جانب اشارہ کیاگیاہے ؛ چنانچہ ایک آیت میں جناب موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے خداوندعالم فرماتاہے :
((وَ إِذْ واعَدْنا مُوسى‏ أَرْبَعينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَ أَنْتُمْ ظالِمُون))
"اور ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ لیا تو تم نے ان کے بعد گوسالہ تیار کرلیا کہ تم بڑے ظالم ہو"۔(1)
اسی واقعہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے خداوندعالم ایک دوسری آیت میں فرماتاہے :
((وَ واعَدْنا مُوسى‏ ثَلاثينَ لَيْلَةً وَ أَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ ميقاتُ رَبِّهِ أَرْبَعينَ لَيْلَة))
"اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام سے تیس راتوں کا وعدہ لیا اور اسے دس مزید راتوں سے مکمل کردیا کہ اس طرح ان کے رب کا وعدہ چالیس راتوں کا وعدہ ہوگیا"۔(2)
آیۂ کریمہ کے زمان نزول اور اس سے مربوط واقعہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ چالیس دن قوم بنی اسرائیل کی آزمائش کا ذریعہ تھے ، اس کے ذریعہ خداوندعالم نے قوم کے ایمان و ایقان کا امتحان لیاہے ؛ اس لئے کہ پہلے سے جو مدت معین تھی وہ تیس دن تھے ، پھر خداوندعالم نے کتاب توریت دینے کے لئے دس دن کا اضافہ کیا تاکہ موسیٰ کو توریت دی جاسکے اور اسی بہانے قوم بنی اسرائیل کا امتحان بھی لیاجاسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب جناب موسیٰ کوہ طور سے واپس آئے تو دیکھا کہ قوم گمراہ اور گوسالہ پرست ہوچکی ہے اور جانشین کے ہوتے ہوئے حقیقی دین سے منحرف ہوچکی ہے۔ظاہر ہے خداوندعالم دس دن بڑھا کر چالیس دن مکمل نہ کرتا تو قوم بنی اسرائیل کی اندرونی کیفیت آشکار نہ ہوپاتی ۔
ایک دوسری آیت میں خداوندعالم نے اسی واقعہ کے ذیل میں بنی اسرائیل کی نافرمانی اور الٰہی دستورات کی مخالفت کے ذیل میں چالیس کی عدد استعمال فرمائی ہے اور اس ذیل میں جناب موسیٰ کو قوم کی حالت زار پر افسوس کرنے سے منع فرمایاہے:
((قالَ فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعينَ سَنَةً يَتيهُونَ فِي الْأَرْضِ فَلا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفاسِقين))
"ارشاد ہوا کہ اب ان پرچالیس سال حرام کردئیے گئے کہ یہ زمین میں چکر لگاتے رہیں گے لہذا تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ کرو"۔(3)
ایک صحرا میں چالیس سال کی قید و بند کی زندگی در اصل بنی اسرائیل کے لئے سزا تھی ، انہوں نے دستورات الٰہی کی مخالفت اور نافرمانی کی تھی اور خدائی احکام کے سلسلے میں بے ادبی اور بے شرمی کا مظاہرہ کیاتھا اسی لئے خدانے سزا اور عذاب کے طور پر چالیس سال تک ایک ہی صحرا میں زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ۔
ظاہر ہے یہاں چالیس سال کا تذکرہ خاص حکمت و مصلحت کی وجہ ہے ، جس کی جانب بعض مفسرین نے اشارہ بھی کیاہے ؛عام طور سے کسی قوم کو تبدیل ہونے میں تقریباً چالیس سال کا زمانہ لگتا ہے ، اس مدت میں ایک نسل ختم ہوجاتی ہے اور دوسری نسل جوان ہوکر منظر عام پر آجاتی ہے ۔ بنی اسرائیل بھی صحرا میں چالیس سال تک ٹھوکریں کھاتے رہے اور اپنی بے ایمانی کی سزا برداشت کرتے رہے ۔(4)
ایک آیت میں خداوندعالم نے اس بات کی تاکید فرمائی ہے کہ جب انسان چالیس سال کا ہوجاتاہے تو اس کی عقل کامل ہوجاتی ہے :
((حَتَّى إِذا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَ بَلَغَ أَرْبَعينَ سَنَةً قالَ رَبِّ أَوْزِعْني‏ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتي‏ أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَ عَلى‏ والِدَيَّ وَ أَنْ أَعْمَلَ صالِحاً تَرْضاهُ وَ أَصْلِحْ لي‏ في‏ ذُرِّيَّتي‏ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَ إِنِّي مِنَ الْمُسْلِمين))
"یہاں تک کہ جب وہ توانائی کو پہنچ گیا اور چالیس برس کا ہوگیا تو اس نے دعا کی کہ خدایا !مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کروں جو تونے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہے اور ایسا نیک عمل کروں کہ تو راضی ہوجائے اور میری ذریت میں بھی صلاح و تقویٰ قرار دے کہ میں تیری ہی طرف متوجہ ہوں اور تیرے فرمانبردار بندوں میں ہوں"۔(5)
قرآن مجید کی یہ تعبیر اس بات کی وضاحت کررہی ہے کہ باایمان افرادجب چالیس سال کے ہوجاتے ہیں تو خداوندعالم کی بزرگ و برتر نعمتوں سے پوری طرح آگاہ بھی ہوجاتے ہیں اور وہ زحمتیں اور خدمتیں بھی ان پر آشکار ہوجاتی ہیں جو ماں اور باپ حمل ، وضع حمل ، دودھ بڑھائی اور تعلیم و تربیت کے وقت ان پر رواں رکھتے ہیں، اس لئے کہ عام طور سے اس مرحلہ ٔزندگی میں وہ خود بھی باپ بن جاتے ہیں اور طاقت فرسا زحمتوں اور بے مثال فداکاریوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اور بے اختیار والدین کی زحمتوں کو یاد کرکے خداوندعالم کی بارگاہ میں قدردانی اور شکرگزاری کا احساس انگیز کرتے ہیں ۔
زیر نظر آیۂ مبارکہ کے پیام کو بہت سی احادیث میں بھی بیان کیاگیاہے اور اس با ت کی تاکید کی گئی ہے کہ انسان چالیس سال کے بعد فکر ی رشد و کمال تک پہنچ جاتاہے ؛ ایک حدیث میں رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں :
اذا بلغ الرجل اربعین سنۃ و لم یغلب خیرہ شرہ قبل الشیطان بین عینیہ وقال : ھذا عجہ لایفلح " جب انسان چالیس سال کا ہوجاتاہے اور اس کے نیک اعمال ، برے اعمال سے زیادہ نہیں ہوتے تو شیطان اس کی پیشانی کا بوسہ لے کر کہتا ہے : یہ ایسا چہرہ ہے جو کبھی سعادت و کامرانی تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا"۔(مشکاۃ الانوارص 29)
متذکرہ تمام آیتوں میں ایک خاص ہدف و مقصد کو بیان کرنے کے لئے چالیس کی عدد رکھی گئی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ قرآنی فرہنگ و ثقافت میں اس عدد کو کتنی اہمیت حاصل ہے ۔

اربعین ؛ روایات و احادیث کی روشنی میں

بہت سی روایتوں میں چالیس کی عدد کو ایک مقصد کے بیان کے لئے استعمال کیاگیاہے اور کہیں کہیں اس کے خصوصی آثار و برکات کا تذکرہ کیاگیاہے ؛ یہاں ان میں سے بعض احادیث و روایات کی جانب اشارہ کیا جارہاہے :

1۔ بندۂ مومن کی موت اور زمین کا گریہ
رسول خداؐ نے جناب ابوذر غفاری کو جو سفارشیں کی ہیں ان میں سے ایک بندۂ مومن کی اہمیت و عظمت سے بھی مربوط ہے ، آپ نے فرمایا:
یا اباذر ! ان الارض لتبکی علی المومن اذا مات اربعین صباحا"اے ابوذر! جب ایک مومن اس دنیا سے رخصت ہوتاہے تو زمین چالیس دنوں تک اس کے فقدان پر گریہ و زاری کرتی ہے "۔(6)
ممکن ہے مومنین کی اموات پر چالیسویں کی مجالس منعقد کرنے کی وجہ اور ایک معیار یہی روایت ہو۔

2۔چالیس دنوں تک حضرت داؤد کا استغاثہ
امیر المومنین حضرت علی ؑفرماتے ہیں : خداوندعالم نے حضرت داؤد پر وحی نازل کی :
انک نعم العبد لو لا انک تاکل من بیت المال و لا تعمل بیدک شیئا" اے داؤد ! اگر تم بیت المال سے غذا آمادہ نہیں کرتے اور اپنے دست مشقت سے روزی روٹی کا انتظام کرتے تو کتنے اچھے بندے ہوتے "۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے چالیس دنوں تک علی الصباح گریہ و زاری کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں استغاثہ کیا اور خدا سے درخواست کی کہ ان کی مشکل کو حل کردے ۔ خداوندعالم نے بھی انہیں لوہے کو موم بنانے کا ہنر عطا فرمایا ، جس کی وجہ سے حضرت داؤد (س)نے زرہ بنانے کا کام شروع کیا ، وہ ہر روز زرہ بناتے اور ہزار درہم میں فروخت کردیتے تھے ؛ اس طرح انہوں نے تین سو ساٹھ زرہ تیار کیا اور انہیں تین سو ساٹھ ہزار درہم میں فروخت کیا تو وہ بیت المال سے مستغنی ہوگئے ۔(7)

3۔ چالیس مومنین کی گواہی
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
اذا مات المومن فحضر جنازتہ اربعون رجلا من المومنین و قالوا : اللھم انا لا نعلم منہ الا خیرا و انت اعلم بہ منا ، قال اللہ تبارک و تعالی : قد اجزت شھاداتکم لہ ما علمت مما لا تعلمون"جب ایک بندۂ مومن موت سے ہمکنار ہوتاہے اور چالیس مومنین ان کے جنازے میں شریک ہوکر گواہی دیتے ہیں کہ خدایا! ہم نے اس شخص سے صرف نیکی اور خیر ہی دیکھی ہے اور تو ہم سے زیادہ دانا اور جاننے والا ہے ؛تو خداوندعالم ان کے جواب میں فرماتاہے : میں نے تمہاری گواہی قبول کی اور( اس کے گناہوں اور برائیوں )میں سے جو کچھ مجھے معلوم تھا ان سب کو بخش دیا "۔(8)

4۔ چالیس مومنین کے لئے دعا
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
من قدم اربعین من المومنین ثم دعا استجیب لہ" جو شخص چالیس مومنین کو اپنے بارے میں دعا کرنے پر مقدم کرتاہے اور پھر اپنی حاجتیں طلب کرتاہے تو خداوندعالم اس کی دعا کو مستجاب کردیتاہے "۔(9)
اسی طرح نماز وتر میں چالیس مومنین کے لئے دعا کرنے کی تاکید کی گئی ہے ، اگر کوئی شخص نماز وتر میں چالیس مومنین کے لئے دعا کرنے کے بعد اپنے لئے دعا کرتا ہے تو خداوندعالم اس کی دعا کو بہت جلدی پوری کردیتاہے ۔(10)

5۔ چالیس افراد کی دعا
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
"اگر چالیس افراد جمع ہوکر خدا وندعالم کی بارگاہ میں دعا کریں تو خدا ان کی دعا کو مستجاب فرماتا ہے ، اگر چالیس افراد ایک ساتھ جمع نہ ہوپائیں تو چار افراددس مرتبہ خداوندعالم کی بارگاہ میں دعا کریں تو اس کا اثر بھی چالیس افراد کی دعا کی طرح ظاہر ہوگا ۔ نیز اگر صرف ایک آدمی ہو تو اسے چالیس مرتبہ خدا کی بارگاہ میں دعا کرنا چاہئے تاکہ خدائے عزیز اس کی دعا کو مستجاب کردے"۔(11)

6۔ چالیس گناہوں کی مغفرت
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
من حمل جنازۃ من اربع جوانبھا غفر اللہ لہ اربعین کبیرۃ " جو شخص ایک جنازے کو چاروں طرف سے اٹھائے تو خداوندعالم اس کے چالیس گناہان کبیرہ کی مغفرت فرمادیتاہے "۔(12)

7۔ چالیس دنوں تک اخلاص کے فوائد
امام رضا علیہ السلام نے رسول گرامی ؐکی حدیث کو اس طرح نقل فرمایاہے :
ما اخلص عبداللہ عزوجل اربعین صباحا الا جرت ینابیع الحکمۃ من قلبہ علی السانہ "جب بھی کوئی بندہ چالیس دنوں تک اپنے اعمال کو صرف خداوندعالم کے لئے انجام دیتاہے تو خداوندعالم اس کے دل سے زبان کے ذریعہ حکمت کے چشمے جاری فرما دیتاہے"۔(13)

8۔حضرت مہدی (عج)کےاصحاب کی خصوصیت
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں :
اذا قام قائمنا اذھب اللہ عزوجل عن شیعتنا العاھۃ و جعل قلوبھم کزبر الحدید و جعل قوۃ الرجل منھم قوۃ اربعین رجلا"جب ہماراقائم قیام کرے گا تو خداوندعالم ہمارے شیعوں سے آفت و مصیبت اور سستی کو دور کردے گا اور ان کے قلوب کو لوہے کی طرح مضبوط اور محکم کردے گا اور ان میں سے ہر ایک کی طاقت کو چالیس مردوں کے برابر کردے گا"۔(14)

9۔ چالیس احادیث کو یاد کرنا
رسول خداؐ فرماتے ہیں :
من حفظ من امتی اربعین حدیثا مما یحتاجون الیہ من امر دینھم بعثہ اللہ یوم القیامۃ فقیھا عالما"میری امت میں سے جو بھی معاشرے کی ضرورت سے مربوط چالیس دینی احادیث کو یاد کرے گا تو خداوندعالم قیامت کے دن اسے عالم و فقیہ محشور فرمائے گا "۔(15)

10۔ چالیس دنوں تک گناہوں کے اثرات
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
لا تقبل صلاۃ شارب الخمر اربعین یوما الا ان یتوب " چالیس دنوں تک شراب پینے والے کی نماز قبول نہیں ہوتی مگر یہ کہ وہ توبہ کر لے "۔(16)

11۔ غذا اور چالیس دن
رسول خداؐ فرماتے ہیں :
من ترک اللحم اربعین صباحا ساء خلقہ " جو شخص چالیس دنوں تک گوشت نہیں کھاتا اس کا اخلاق قبیح ہوجاتاہے "۔(17)

12۔چالیس مجاہدین کی ضرورت
جب امام حسن علیہ السلام کے ساتھیوں نے حضرت سے ظلم و ستم کے خلاف قیام کرنے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا:
لی اسوۃ بجدی رسول اللہ حین عبداللہ سرا و ھو یومئذ فی تسعۃ و ثلاثین رجلا فلما اکمل اللہ لہ الاربعین صاروا فی عدۃ و اظھروا امر اللہ فلو کان معی عدتھم جاھدت فی اللہ حق جھادہ "امت کی رہبری کے سلسلے میں میرے اسوہ اور نمونۂ عمل میرے جد رسول خداؐ ہیں ،جب تک آنحضرت کے ساتھیوں کی تعداد انتالیس تھی آپ مخفیانہ طور پر خدا کی عبادت کرتے تھے (اور انہوں نے اعلانیہ تبلیغ نہیں فرمائی) لیکن جب خدانے مسلمانوں کی تعداد چالیس تک پہنچا دی تو انہوں نے آشکارا طور پر دین خدا کی تبلیغ شروع کردی ، اگر میرے ساتھی بھی ان کی تعداد کے برابر ہو جائیں تو خدا کی راہ میں ایسی جنگ کروں گا کہ لوگ دیکھتے رہ جائیں گے "۔(18)
حضرت علی علیہ السلام نے بھی اسی حسرت و یاس کا اظہار فرمایاہے :
لو کنت وجدت یوم بویع (اخوتیم)اربعین رجلا مطیعین لجاھدتھم "اگر بیعت کے دن میرے پاس چالیس اطاعت گزار ساتھی ہوتے تو میں ان لوگوں(دشمنوں) سے ضرور جنگ کرتا"۔(19)

13۔ چالیس پڑوسی
رسول اکرم ؐ نے فرمایا :
کل اربعین دارا جیران من بین یدیہ و من خلفہ و عن یمینہ و عن شمالہ"آگے پیچھے ، دائیں اور بائیں چاروں طرف سے چالیس گھر ، ایک مسلمان کے پڑوسی شمار ہوتے ہیں"۔(20)

14۔چالیس سال کی عمر میں خصوصی توجہ
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں :
اذا بلغ الرجل اربعین سنۃ نادی مناد من السماء دنا الرجل فاعد زادا و لقد کان فیما مضی اذا آتت علی الرجل اربعون سنۃ حاسب نفسہ"جب ایک شخص چالیس سال کا ہوجاتاہے تو ایک فرشتہ خدا کی جانب سے آواز دیتاہے کہ سفر کا وقت نزدیک ہے ، وسائل سفر تیار کرو ۔ گزشتہ زمانے میں جب انسان چالیس سال کا ہوجاتاتھا تو اپنے نفس کا محاسبہ کرتاتھا"۔(21)
ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ خداوندعالم نے ایک فرشتہ کو اس بات پر مامور فرمایاہے کہ وہ ہر رات یہ آواز بلند کرے: اے زندگی کی چالیس بہاریں دیکھنے والو! تم نے اپنے پروردگار سے ملاقات کرنے کے لئے کیا چیزیں آمادہ کی ہیں ۔(22)

15۔چالیس سال کی عمر میں انبیاء کی بعثت
ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
رسول خداؐنے 10 ہجری کے اواخر میں ترسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی ، آنحضرت جب چالیس سال کے ہوئے تو مبعوث بہ رسالت ہوئے ، 13/ سال مکہ میں رہے پھر 53سال کے ہوئے تو مدینہ کی جانب ہجرت فرمائی اور دس سال مدینہ میں رہنے کے بعد دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کرگئے۔(23)
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اکثر انبیائے کرام چالیس سال کی عمر میں مبعوث بہ رسالت ہوئے ہیں ۔(24)
اس کے علاوہ بھی متعدد حدیثوں میں چالیس کی عدد کو ایک حاص مقصد و ہدف کے تحت بیان کیاگیاہے ، جس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلامی فرہنگ و ثقافت میں اس عدد کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

حوالہ جات
1۔ بقرہ/51
2۔ اعراف /142
3۔ مائدہ/26
4۔ ترجمہ و تفسیر قرآن علامہ جوادی ص 256
5۔ احقاف / 15
6۔ مکارم اخلاق ص 465
7۔وسائل الشیعہ ج17 ص 37
8۔ من لایحضرہ الفقیہ ج1 ص 472
9۔ اصول کافی ج2 ص 509
10۔ کاشف الغطاء ج1 ص 246
11۔ اصول الکافی ج2 ص 478
12۔ اصول الکافی ج3 ص 174
13۔ عیون اخبار الرضا ج1 ص 74
14۔ الخصال شیخ صدوق ج2 ص 541
15۔ الخصال شیخ صدوق ج2 ص 541
16۔ مستدرک الوسائل ج17 ص 57
17۔ مستدرک الوسائل ج11 ص 77
18۔ مستدرک الوسائل ج11 ص 77
19۔ مستدرک الوسائل ج11 ص 74
20۔ وسائل الشیعہ ج12 ص 132
21۔ مستدرک الوسائل ج12 ص 156
22۔مستدرک الوسائل 157
23۔ کشف الغمہ ج1 ص 14
24۔ بحار الانوار ج13 ص 50

تبصرہ ارسال

You are replying to: .