۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
حجۃ الاسلام علی اصغر عرفانی

حوزہ/ امام حسن عسکری (ع)، عباسی حکومت کی طرف سے سختیوں، پریشانیوں نظارتوں، پُرآشوب اور گھٹن کے ماحول کے باوجود کچھ سیاسی، اجتماعی اور علمی سرگرمیاں انجام دیا کرتے تھے جو اسلام کی حفاظت اور اسلام کے مخالف افکار سے مقابلہ کے لئے انجام پایا کرتی تھیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، دفتر قائد ملت جعفریہ کے سابقہ مسئول امور طلاب حالیہ مسئول شعبہ تبلیغات مدیر و مسئول مدرسہ امام رضا علیہ السلام طلاب پاکستان حجۃ الاسلام مولانا علی اصغر عرفانی نے شب ولادت با سعادت حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے ایک جشن میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی پر سرسری نگاہ ڈالیں تو چھ لازوال خدمات میں سمیٹ سکتے ہیں البتہ یہ وہ نکات ہیں جو بندہ حقیر کی نظر سے گذرے ہیں زندگانی امام حسن عسکری علیه السلام ان میں ھرگز منحصر نہیں ہے بلکہ ان میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے

علمی سرگرمیاں اور کوششیں :

اگرچہ امام حسن عسکری (ع) نامساعد حالات و شرائط نیز عباسی حکومت کی طرف سے سخت محدویت ہونے کی بناپر علوم و معارف کو پورے سماج و معاشره میں کماحقّہ نشر نہ کرسکے لیکن اس کے باوجود تمام سختیوں، پرآشوب اور گھٹن کے ماحول کے ہوتے ہوئے لائق شاگردوں کی تربیت کی، جن میں سے ہر ایک نے علوم و معارف اسلامی کی نشر و اشاعت اور دشمنانِ اسلام کے شکوک و شبہات کو برطرف کرنے میں اپنی توانائی کے مطابق بڑا اہم اور مؤثر کردار ادا کیا ہے.

شیعوں سے رابطہ کا ذریعہ :

امام  حسن عسکری (ع) کے زمانے میں شیعہ مختلف علاقوں، متعدد شہروں میں پھیلے ہوئے تھے اور انہوں نے بہت سی جگہوں کو اپنا مرکز بنالیا تھا، ان شہروں و علاقوں میں کوفہ و بغداد، نيشابور، قم، آبہ (آوه)، مدائن، خراسان، يمن، رے، آذربائيجان، سامرہ، جرجان اور بصره شیعوں کے مراکز شمار کئے جاتے تھے ۔ ان علاقوں میں کچھ اسباب و دلائل کی بناپر سامره، کوفہ، بغداد، قم اور نیشاپور بڑی اهمیت کے حامل تھے. 
شیعوں کی کثرت اور ان کے مختلف جگہوں میں پھیلے ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ ایک باضابطہ تنظیم بنائی جائے جو ایک طرف سے مرکز امامت سے وابستہ رہیں اور دوسری طرف سے ان میں ایک دوسرے سے رابطے و تعلّقات قائم یوں، لہذا اس طریقہ سے ان کی دینی و مذہبی اور سیاسی رہنمائی و نشاندہی کریں۔

خطوط اور قاصدین :

وکالت کے رابطہ کے علاوه بھی امام (ع) نے قاصدوں کو بھیج کر اپنے شیعوں اور چاہنے والوں سے رابطہ قائم رکھا کرتے تھے، اس طریقہ سے ان کی مشکلوں کو برطرف کرتے تھے، اس سلسلہ میں نمونہ کے طور پر (ابو الادیان) کی سرگرمیوں کو بیان کیا جاسکتا ہے جو امام (ع) کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے. یہ امام (ع) کے خطوط اور پیغامات کو حضرت (ع) کے ماننے والوں تک پہنچاتے تھے اور اسی کے ساتھ ساتھ شیعوں کے خطوط ،سوالات، مشکلوں، خمس اور دوسری وجوہات کو دریافت کرکے شہر سامره میں امام حسن عسکری (ع) کے محضر مبارک میں پہنچاتے تھے ۔
قاصدوں کے علاوہ امام (ع) مکاتبہ کے ذریعہ اپنے شیعوں سے رابطہ قائم کرتے تھے اس طریقہ سے انہیں اپنی ھدایت و رھنمائی کے زیر سایہ قرار دیا کرتے تھے ۔

شیعوں کی مالی امداد اور حمایت :

امام حسن عسکری (ع) کی ایک روش اور شیوہ یہ تھا کہ اپنے قریبی، مخصوص دوستوں و اصحاب اور شیعوں کی مالی امداد و حمایت کیا کرتے تھے، حضرت (ع) کی حیات طیّبہ کا مطالعہ کرنے سے یہ مطلب بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ بعض اوقات حضرت (ع) کے کچھ دوست اپنی مالی پریشانیوں کی شکایت امام (ع) کے محضرِ مبارک میں کیا کرتے تھے اور آپ (ع) ان کی مالی امداد کرکے مشکلوں کو برطرف کردیا کرتے تھے ۔ امام (ع) کا یہ اقدام اور عمل باعث ہوا کرتا تھا کہ چاہنے والے مالی مشکلوں میں نہ پھنسیں اور عباسی حکومت کی طرف ان کا رجحان نہ ہونے پائے 

شیعہ اہم شخصیتوں کی سیاسی پشت پناہی اور رہنمائی :

امام حسن عسکری (ع) کی بہترین سرگرمیوں میں سے شیعوں کی اہم اور سیاسی شخصیتوں کی پشت پناھی اور تقویت رہی ہے تاکہ سیاسی مقابلوں میں مشکلوں اور سختیوں کو برداشت کرکے مکتب تشیع کے بلند و بالا ارمان کی حمایت کرسکیں ۔ چونکہ شیعہ بزرگ شخصتیں زیاده سختیوں میں رهتی تھیں اس لئے امام (ع) ہر ایک کی ان کے لحاظ سے رہنمائی کرتے تھے اور انہیں سرگرم رکھا کرتے تھے اور ان کے حوصلوں کو بڑھایا کرتے تھے تاکہ ان کے اندر مشکلوں، سختیوں، فقر اور تنگدستی سے مقابلہ کی قوت پیدا ہو نیز صبر و تحمّل، استقامت اور علم و آگہی میں اضافہ ہوتا رہے اور اپنے سماجی، سیاسی  اور دینی وظائف جیسی اہم اور بڑی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے سکیں۔

زمانہ غیبت کے لئے شیعوں کو آماده کرنا :

چونکہ ہر سماج و معاشره کے لئے امام اور پیشوا کا غائب ہونا ایک غیر فطری اور نامانوس مسئلہ ہے اور اس پر یقین و عقیده رکھنا نیز اس کی بناپر جو مشکلیں اور سختیاں وجود میں آتی ہیں ان کا برداشت کرنا عام لوگوں کے لئے بڑا دشوار کام ہے اسی لئے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ و سلم اور پہلے کے ائمہ علیہم السلام وقتاً فوقتاً اور موقع بہ موقع اس موضوع سے لوگوں کو آگاه کیا کرتے تھے اور ان کی فکروں کو اس مسئلہ کو قبول کرنے کے لئے تیار کیا کرتے تھے ۔
یہ سعی و کوشش امام علی نقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع) کے زمانے میں جو زمانہ غیبت سے قریب ہوتا جارہا تھا بڑے محسوس طریقہ سے نظر آتی ہے چنانچہ امام علی نقی(ع) اپنے اقدامات کو عام طور سے نمائندوں کے ذریعہ انجام دیا کرتے تھے اور بہت کم ایسا ہوا کرتا تھا کہ خود بطور مستقیم لوگوں سے اقدامات کے متعلق رابطہ رکھتے ہوں ۔
یہ مطلب امام حسن عسکری (ع) کے زمانے میں کچھ زیاده ہی جلوه نمائی کرتا ہے اس لئے کہ امام حسن عسکری (ع) ایک طرف سے حضرت امام زمانہ (ع) کی ولادت پر تاکید کرتے اور انہیں صرف مخصوص شیعوں اور بہت قریبی لوگوں کو دکھاتے تھے اور دوسری طرف سے شیعوں کا ڈائرکت اور مستقیم رابطہ روز بروز محدود تر ہوتا جارہا تھا، اس قدر محدود تھا کہ شہر سامره میں بھی شیعوں کے مسائل و مشکلات کا حل اور جواب خطوط یا اپنے نمائندوں کے ذریعہ دیتے تھے اس طرح انہیں زمانہ غیبت کے اوضاع و شرائط، مشکلات اور تکالیف کو تحمّل کرنے نیز امام (ع) سے غیر مستقیم رابطہ کے لئے آماده کر رہے تھے۔

خدا ہمیں سیرت ائمہ کرام پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آخر میں دعاءِ امام زمانہ عج کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .