۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
صدرالملۃ مولانا سید محمد مجتبیٰ صاحب نوگانوی

حوزه/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی، کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزه نیوز ایجنسی | مولانا سید محمدمجتبیٰ صاحب 4  رجب المرجب 1323ھ میں نوگانواں سادات ضلع مرادآبادمیں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد  محترم، "صاحب تذکرہ بے بہاء" علامہ  سید محمد حسین صاحب  سے حاصل کی ۔ 

ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ منصبیہ میرٹھ کے لئے عازم سفر ہوئے اور مختلف اساتذہ سے کسب فیض کیا۔  صدرالملت  نے مدرسہ منصبیہ کو ترک کر کے مدرسہ عالیہ   رامپور  کا رخ کیا اور وہاں رہ کر  عالم با عمل مولانا تاثیر حسین صاحب پھندیڑوی  اور مولانا  سید محمد داؤد  کی خدمت میں زانوے ادب تہہ  کئے۔ 

مولانا مجتبیٰ صاحب کچھ مدت بعد رامپور  کو ترک کرکے مدرسہ سید المدارس امروہہ میں تشریف لے آئے اور وہاں مولانا سید محمد (مجتہد) امروہوی کی خدمت میں رہے اور ان سے فقہ ،  اصول، منطق،   فلسفہ ، کلام و عقائد   کا درس لے کر عالم و فاضل کے امتحانات میں  اچھے نمبروں سے  کامیابی حاصل کی۔  مولانا موصوف اپنے اساتذہ  کا بے حد احترام کرتے تھے۔ 

صدرالملت، اجتہاد کی تعلیم کے پیش نظر، سنہ1355 ہجری   میں عازم  عراق ہوئے؛   کچھ عرصہ تک کربلائے معلیٰ میں آیۃ اللہ سید عبد الحسین الحجّت کے درس خارج میں شرکت کرنے کے بعد نجف اشرف  پہنچے اور وہاں آیۃ اللہ  سیدابوالحسن اصفہانی، آیۃ اللہ ضیاءالدین عراقی، آیۃ اللہ عبد الحسین رشتی اور آیۃ اللہ شیخ محمد حسین اصفہانی وغیرہ سے  کسب فیض کیا۔ 

مولانا کو ایران اور عراق کے علماء  کرام نے اجازہ اجتہاد عطا فرمائے ، ان علماء میں سے چند علماء کے اسمائے گرامی کچھ اس طرح ہیں: آیۃ اللہ سید ابوالحسن اصفہانی، آیۃ اللہ شیخ عبد الحسین رشتی، آیۃ اللہ ضیاء الدین عراقی، آیۃ اللہ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء، آیۃ اللہ محمد ہادی کاشف الغطاء ، آیۃ اللہ شیخ محمد کاظم شیرازی، آیۃ اللہ شیخ عبد الحسین الحجّت ، آیۃ اللہ سید عبداللہ شیرازی ، آیۃ اللہ میرزا محمد ہادی خراسانی اور آیۃ اللہ محسن الحکیم  طباطبائی۔  

مولانا تدریس میں اپنی مثال آپ تھے، عراق جانے سے پہلے کئی سال تک مدرسہ سید المدارس امروہہ میں  مدرس کے عنوان سے رہے  اور عراق سے واپسی کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ باقی رکھنے کے لئے مدرسہ عالیہ جعفریہ کا افتتاح کیا جو آپ کی زندگی کا شاہکار ہے، مولانا کی وفات کے بعد ان کے بڑے فرزند مولانا سلمان حیدر صاحب نے مدرسہ کو ترقی کے مراحل طے کرائے پھر مولانا سلمان حیدر صاحب نے یہ ذمہ داری اپنے چھوٹے بھائی مولانا عمار حیدر صاحب کے سپرد کردی اور یہ ادارہ آج تک جاری و ساری ہے۔ 

آپ ایک اچھے  ذاکر اور واعظ ہونے کے ساتھ ساتھ ، فارسی اور اردو زبان کے اچھےشاعر بھی تھے۔  

موصوف نے متعدد موضوعات پر قلم اٹھایا اور کتابیں تصنیف کیں، جن میں سے : زینت المجالس، رسالہ ارغام الکفرہ، اصحاب رسول اور بہارستان تبلیغ وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ 

مولانا محمد مجتبیٰ صاحب حسب معمول 26/جمادی الثانی سنہ 1377ہجری میں اپنی بستی " نوگانواں سادات"  کی کربلا میں زیارت کی غرض سے گئے، اس کے بعد اپنے والدمحترم "علامہ سیدمحمد حسین"  کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔پھر آپ نماز  ادا کرنے کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے،  وضو مکمل ہوتے ہی مسجد کے فرش پر روبقبلہ ہوکر لیٹ گئے اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ کے انتقال کی خبر پھیل گئی اور  لوگوں کا جم غفیر  مسجد اور آپ کے بیت الشرف کی طرف امنڈ پڑا۔ 

جنازہ مسجد سے گھر لانے کے بعدغسل و کفن دیا گیا ،  اس کے بعد آبائی قبرستان میں لایا  گیا ،  وہاں مولانا سید محمد صاحب (مجتہد) امروہوی نے نماز جنازہ پڑھائی ۔  ورثاء، علماء اور مؤمنین کی موجودگی میں مولانا کے جنازہ کو سپرد خاک کیا گیا۔ 

ماخوذ از : نجوم الہدایہ (تذکرہ علمائے شیعیان ہند)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص243،  دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2019ء۔ ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Sahiba Naqvi IN 16:02 - 2020/12/18
    0 0
    Salamun alekum Mujhe ye silsila bohut acha laga... is kaam ki bohut zarurat thi kyonke hamari naslein olama ki taraf se ghafil ho rahi hain esi soirat me zaruri hai ke olama ka introduction karaya jayr jo M.Ghafir Rizvi sb. awr M.Razi sb. Ki zehmaton ke zariey hamari mojud nasl awr aane wali naslon ke liey ek maaya naaz zakheera hai khuda in dono olama ko salanat rakhe awr inki tofiqat me izafa farmaye take noor center ke zariey ye log apni awaz hum tak pohnchatr rahein. Aamin