۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
حجۃ الاسلام ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

حوزہ/ ہزارہ کے لوگ وہ پاکستانی نہیں افغانی ہیں، جو لوگ پاکستان بننے سے پہلے یا بعد میں ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے۔کیا وہ لوگ آج پاکستانی کہلاتے ہیں یا ہندوستانی ؟

تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

حوزہ نیوز ایجنسی | 3 جنوری 2021 کو مچھ کوئٹہ میں 10 کان کنوں کے بہیمانہ قتل کے بعد دنیا بھر میں مذہبی دہشت گردوں کے خلاف ایک نفرت کا بازارگرم ہوا۔کند چھریوں کے ساتھ گلے کاٹنے والوں کے خلاف ایک بار پوری دنیا کھڑی ہو گئی۔اس بزدلانہ ،جارحانہ، سفاکانہ،ظالمانہ قتل نے سینے میں دل رکھنے والے ہر منصف انسان کو رلا دیا۔لقمہ اجل بننے والے بے گناہ مزدوروں کی ہمدردی میں دنیا بھر سراپا احتجاج بن گئی۔اس سے ایک طرف عسکری جماعتوں  کے ظلم و جفا و بربریت کی تاریخ دہرائی گئی۔

دوسری طرف ہزارہ کے مظلوموں، بے کسوں، بے بسوں کی ملک بدری اور مرگ مفاجات کی داستان فراموش شدہ تازہ ہو گئی۔

سانحہ مچھ کے بعد جیسے جیسے دہشت گردوں کے گردحکومتی دائرہ تنگ ہونے کا عندیہ ملا تو مظلوموں کے حامی ہزارہ برادی کے شہداء و مجروحین و متاثرین کی فہرستیں سوشل میڈیا پہ ڈالنے لگے تو 35،40 بچے کچھے دہشت گردوں کے حامی اینکرز، کالم نگار اور مولوی ہزارہ برادری پر طرح طرح کے الزام لگا کر یہ ناکام کوشش کرنے لگے کے ہزارہ کا قتل عام ان کے اپنے کئے کا انجام ہے۔

آئیے ہم منصفانہ جائزہ لیتے ہیں۔ تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے اور مظلوموں کی حمایت کرنے والوں کو کوئی پشیمانی نہ ہو۔ جبکہ ظالموں کے حامیوں کو کوئی پزیرائی نہ ملے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لقمہ اجل بننے والے کان کنوں کی تعداد 20،17،13 اور 11 نہیں بلکہ 10 تھی۔جن  کےجنازے میڈیا کی آنکھ کے سامنے دفنائے گئے۔بہت سارے ٹی وی چینلز اور اخبارات نے 5 جنوری سے لے کر 10 جنوری تک سینکڑوں جھوٹ لکھےاور بولے۔مثلا  یہ خبر عام کی گئی کہ مرنے والوں میں 7 افغانی ہیں۔ جب کہ وہ کل 3 نکلے۔شہداء کے ورثا اور حکومت کے درمیان معاہدہ 9 تاریخ کو ہوا۔ جبکہ کے جھوٹی خبریں 5 دن تک گردش کرتی رہیں۔

تدفین شہداء میں تدفین کی اصل وجہ شہداء کے ورثا کی طرف سے وزیر اعظم کے آمد کے مطالبے اور وزیر اعظم کے بے جا ڈٹ جانے کے باعث ہوئی۔

تدفین کے بعد ابھی تو ان مظلوموں کے کفن خاک آلود بھی نہیں ہوئے تھے کہ کچھ صحافی اور اینکرز جعل سازی، الزام تراشی، اور نامعلوم جرائم کی جھوٹی فہرستیں شائع کر کے یہ تاثر دینے لگے کے ہزارہ برادری کو ان کے ماضی کے کئے جانے کی سزا دی جا رہی ہے۔ سب سے پہلے اوریا مقبول جان نامی اینکر کا کلپ سامنے آیا ہزارہ برادری پر کئی الزام لگائے گئے۔

پہلا الزام تو یہ لگایا گیا کہ وہ پاکستانی نہیں افغانی ہیں۔جو لوگ پاکستان بننے سے پہلے یا بعد میں ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے۔کیا وہ لوگ آج پاکستانی کہلاتے ہیں یا ہندوستانی ؟جو لوگ بغرض تبلیغ عرب ممالک، ایران، ترکی یا افغانستان سے بر صغیر وارد ہوتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد ان کو عرب، ایرانی، ترکی، افغانی کہا گیا یا پاکستانی؟ سید علی ہجویری داتا گنج بخش افغانستان سے آئے تھے ان کے دربار آپ کو پاکستانی کہا جائے گا یا افغانی ؟ یہ ایسا بھیانک الزام کے کہ جس میں علی الاعلان داعش کی محبت اور اہل تشیع  سے نفرت بول رہی ہے۔ پھر یہ صاحب کہتے ہیں کہ ایران ہزاروں کو سپورٹ کرتا ہے۔ اگر ایران ان کو سپورٹ کرتا ہوتا تو یہ چھوٹی چھوٹی مزدوریاں نہ کرتے۔ اور مزدوریوں کے دوران لقمہ اجل نہ بن جاتے۔ ایران نے ان کو فیکٹریاں اور ملیں نہ لگوا کر دے دی ہوتیں جیسا کہ سعودی عرب اپنے حامیوں کے لئے کرتا ہے۔ 5 جولائی 1985 کے واقعہ کو اوریا صاحب نے بالکل غلط بیان کر کے جھوٹا دعوی کیا ہے کہ ہزارہ نے 13 پولیس والوں کو قتل کر کے ان کے سروں کو کھمبوں پر لٹکا دیا تھا۔ وہ اپنے کلپ میں کوئی ایک تصویر ہی شامل کر دیں۔ یہ سراسر جھوٹ اور پر امن ہزارہ کمیونٹی پر بے بنیاد الزام ہے۔

دنیا اس امر کا مشاہدہ کرے جس شب میں مظلوم شہدائے مچھ کی تدفین ہوئی پورے ملک سے لائٹ غائب ہو گئی یہ خود وقت کے یزیدوں کے جرائم کے خلاف قدرتی ناراضگی کی بین دلیل ہے۔ یوں سمجھیں یہ شہدائے کوئٹہ کی شام غریباں کا منظر تھا۔ اگر دہشت گرد اب بھی نہ سمجھیں، حکومت اور ایجنسیاں عبرت حاصل نہ کریں تو ان سے خدا سمجھے۔

2004 میں عاشورا کے جلوس میں بم دھماکے کا ذکر اوریا صاحب منفی انداز میں کرتے ہیں۔ نہ ہزارہ برادری نے نہ ایک سنی عالم اور نہ سنی عوام کو مارا۔ جبکہ ضیاء کی باقیات نے ہزاروں ہی پر مقدمات بنائے۔ اوریا صاحب پورا کلپ 100 فیصد جھوٹ پر مبنی ہے۔ یہ وہی اوریا صاحب ہیں جو القاعدہ، داعش، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور طالبان کے حق میں ہمیشہ لمبے لمبے کالم لکھتے ہیں۔

ہزاروں کی آمد افغانستان سے کوئٹہ کی تاریخ141 سال پرانی ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں افغانستان سے ڈرگ ڈیلر پاکستان آتے تھے ان کی شہریت پر تو اوریا صاحب کو کوئی اعتراض نہیں ۔اور جن کی آمد کی تاریخ 141 سال پرانی ہے ان کے ڈومیسائل پر بھی اعتراض کر رہے ہیں۔ایسے ہی اینکرز اور کالم نگار پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا سبب بنتے ہیں۔

تدفین کے فور ابعد بعض افراد نے سوشل میڈیا پر یہ خبریں وائرل کیں کہ مقتولین مچھ میں  طالبان کے لئے جاسوسی کر رہے تھے۔جاسوسیاں کرنے والے نان شبینہ کے محتاج نہیں ہوتے۔کوئٹہ میں مقیم 8 سے 9 لاکھ ہزارہ نے آج تک ایک شخص بھی جاسوسی کے الزام میں گرفتار نہیں ہوا۔جو غیرت مند کمیونٹی اپنی حکومت کے سامنے نہ بکے وہ کسی غیر کے سامنے کیسے بک سکتی ہے؟ 

ہمارے کالم سے  یہ تاثر نہ لیا جائے کہ ہم  ہزاروں کو معصوم لکھ رہے ہیں خوب و بد ہر قوم میں ہوتے ہیں ۔ہم نے اس قوم میں بد نہیں دیکھے۔ وہ  الزامات جو ہزاروں  پر لگائے جا رہے ہیں بالکل بے بنیاد ہے۔ بغیر نام کے ایک کالم وائرل کیا گیا  جس میں ہزارہ برادری کے شیعہ ہونے پر اعتراض کیا گیا۔تو نہ کسی کے  شیعہ ہونے پر اعترض ہونا چاہئے نہ سنی ہونے پر ۔نامعلوم کالم نگار نے یہ لکھا ہے  کہ یہ آزاد خیال قسم کے لوگ ہیں۔ اسلام سے انہیں شدید ترین نفرت ہے۔اور پاکستان کے وجود کو یہ لوگ آج بھی تسلیم نہیں کرتے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دروغ گو راحافظہ نباشد۔

ایک طرف کالم نگار انہیں کٹر شیعہ لکھ رہا ہے  اور دوسری طرف آزاد خیال لکھ رہا ہے۔ ہزارہ کمیونٹی جہاں بھی آباد ہے اسلام سے لگاؤ میں بڑی شہرت رکھتی ہے۔ حتیٰ کہ جو ہزارہ مغربی ممالک میں رہتے ہیں وہ اسلامک سنٹرز میں دین داری کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان سے وفا تو یہاں سے سمجھ لیں کہ تین ہزار کے قتل کے بعد بھی ایک قتل انہوں نے نہیں کیا ۔ قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا ۔ زمانہ طالب علمی میں ہزارہ میرے کلاس فیلوز بھی رہے ہیں ۔دوست بھی اور پھر شاگرد بھی۔اس کالم نگار نے اوریا مقبول جان کی طرح  الزام لگایا ہے کہ ایران ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔کسی کا ہم مذہب ہونا سیاسی وابستگی کی دلیل نہیں ہوتا۔جس طرح سعودی عرب نے افغانستان، پاکستان ،عراق ، شام ، نائجیریا ، یمن اور بحرین میں قتل عام کرایا اس طرح ایران کی کوئی ایک مثال دے دیں کہ کسی ملک میں دہشت گردی کروائی ہو۔ایران اگر کہیں شیعہ کی حمایت کرتا ہے تو اس سے کہیں زیادہ اہل سنت کی حمایت کرتا ہے۔ یہی حال عراق کا بھی ہے۔ ایران کے کئی صوبوں میں لاکھوں سنی آباد ہیں۔ ایک سنی عالم کا نام بتائیے جسے قتل کیا گیا ہو یا ایک مسجد بتائی جائے جسے بند کیا گیا ہو، یا گرفتار شدگان کی فہرست بتائیں۔ ہماری ایران سے کوئی سیاسی وابستگی نہیں ۔ تاہم انصاف کی بات یہ ہے کہ ایران نے انقلاب کے بعد اسلام  کی نشاط ثانیہ کے لئے کام کیا۔وحدت امت کے لئے ہمیشہ راستے ہموار کئے ۔مذہبی تشدد، فرقہ پرستی،عسکری کاروائیوں، خود کش حملوں وغیرہ کی سخت مخالفت کی ہے۔مضمون نگار نے لکھا کہ ہزارہ سنی مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے ہیں ۔حالانکہ یہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ بلکہ وہ  وحدت و اتحاد کے قائل ہیں۔ اسی لئے نیویارک سمیت دنیا بھر میں ہزارہ شہداء کی تدفین سے قبل اور بعد میں احتجاج میں شیعہ کے ساتھ سنی بھی شریک ہوئے۔

مضمون نگار لکھتا ہے کہ 1983 میں کوئٹہ کے جلوس میں بی بی عائشہ ، صحابہ اور امہات المومنین کی شان میں گستاخیاں کی جا رہی تھیں۔تو جوابا عرض ہے کہ ہزارہ کا یہ مزاج ہی نہیں ہے۔نہ ہی شیعہ عزاداری کے جلوسوں میں صحابہ یا ازواج رسول ؐ کے خلاف نعرے نہیں لگاتے۔ مزید برآں مضمون نگار نے لکھا ہے جلوس کے شرکا نے 700 سنیوں کو قتل کیا۔ہمارے عزاداری کے جلوسوں میں تو ایک پرندہ بھی نہیں مارا جاتا۔جس طرح ہم نے اپنے مقتولوں کی فہرست جاری کی ہے مضمون نگار 700 نہیں 7 سنیوں کی فہرست جاری کر دے۔ یہ بھی لکھا گیا ہے 70 سے زائد سنی ماوں بہنوں کو امام  باڑوں میں لے جا کر ان کے سینے کاٹ دئیے گئے۔واضح رہے شیعہ سنی ماوں بہنوں ، بیٹیوں کی ناموس کو اپنی ناموس سمجھتے ہیں اور دنیا کی کسی بھی امام بارگاہ میں ایسی حرکت کا تصور بھی نہیں ہو سکتا ۔نامعلوم مضمون نگار نے لکھاہے  کہ 18 پولیس والوں کو ذبح کیا  گیا ان کے سروں سے فٹ بال کھیلا گیا۔ ان پر پیشاب کیا گیا اور جلا دیا گیا ۔ یہ وہ سفید جھوٹ ہے کہ جس پر سوائے افسوس کرنے کے کچھ نہیں لکھا جا سکتا ۔ کوئی ٹی وی کی فوٹیج، کوئی کلپ یا کوئی اخباری تراشہ تو ہوتا ۔ ان کا کہنا کہ 1983 میں سنیوں کے قتل عام کے سبب شیعہ ہزاروں کو مارا جا رہا ہے۔بالکل بے بنیاد ہے اس لئے کہ لاہور کے مومن پورہ قبرستان میں قرآن خوانی کے دوران جن شیعوں کو قتل کیا گیا انہوں نے کتنے سنیوں کو مارا تھا ؟

کراچی کی محفل مرتضیٰ میں جنازے کے شرکا کو مسجد میں مارا گیا اس خوجہ کمیونٹی نے کتنے سنی مارے تھے ؟پاراچنار جہاں سنیوں کا وجود ہی نہیں وہاں شیعوں کا قتل عام کیوں ہوا ؟جن شیعوں کو گلگت ، بلتستان ، یا تفتان باڈر پر بسوں سے اتار کر مارا جاتا رہا وہ تو کسی سنی کے قاتل نہ تھے ۔پشاور میں میں علامہ  عارف حسین الحسینی کو شہید کیا گیا وہ تو شیعہ سنی اتحاد کے علمدار تھے۔ لاہور میں ایران کے سفارت کار صادق گنجی  کو مارا گیا وہ تو شیعوں سے زیادہ سنیوں کا احترام کرتے تھے۔ڈاکٹر محمد علی نقوی اتحاد امت کے داعی تھی۔جنہیں ہسپتال جاتے ہوئے شہید کیا گیا۔ ذوالفقار نقوی آف چند رائے میلاد النبی  ؐ کے جلوسوں میں آگے آگے ہوتے تھے جنہیں بے دردی سے مار دیا گیا۔ علامہ غلام حسین نعیمی عمر بھر شیعہ سنی اتحاد پر بولتے رہے انہیں ساہیوال مسجد میں شہید کر دیا گیا۔ علامہ طالب حسین کرپالوی جنہوں نے سیرت النبی ؐ پر ایک سو سے زیادہ جلدوں پر مشتمل کتاب لکھی تھی ۔جو وحدت اسلامی کے علمدار تھے۔ لاہور میں انہیں ان کے گھر کے سامنے قتل کر دیا گیا۔علامہ ضیاء الدین رضوی کو گلگت میں شہید کیا گیا۔جبکہ وہ وحدت و امن کے داعی تھے۔مولانا ناصر حسین نجفی، مولانا مقبول حسین اور بشیر بخاری پر سرگودھا میں بم سے حملہ کیا گیا۔حالانکہ بخاری ہاوس اتحاد اسلامی کا مرکز شمار ہوتا تھا۔ مولانا ایوب صابری کو کراچی میں نماز پڑھاتے ہوئے مار دیا گیا۔ وہ سفید ریش عالم قرآن و حدیث کے علاوہ بولتے ہی نہ تھے۔جو ایرانی کیڈٹ قتل کئے گئے ۔ ان کا کیا قصور تھا ؟خانہ فرنگ ایران ملتان میں جن لوگوں کو مارا گیا  وہ تو وحدت کانفرنسیں کرواتے تھے۔مستری عبداللہ امام بارگاہ کوئٹہ میں بم مارا گیا وہاں جتنے لوگ شہید ہوئے  وہ شیعہ سنی اتحاد کے قائل تھے۔

اگر مضمون نگار کی یہ بات ہو کہ ہزاروں کو اس لئے مارا جا رہا ہے کہ انہوں نےسنیوں کو مارا ہے تو یہ بتایا جائے کہ سعودی عرب میں جن شیعوں کو مارا جا رہا ہے انہوں نے تو کسی سنی کو نہیں مارا۔بحرین کے شیعوں نے تو کسی سنی کو نہیں مارا ہے۔شام کے شیعوں نے تو کسی سنی کو نہیں مارا۔عراق کے شیعہ تو سنی گھروں کی حفاظت کرتے ہیں۔ نائجیریا میں آیت اللہ زک زکی کی جماعت نے تو کسی سنی کو نہیں مارا۔ان سب کا قتل صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ وہ شیعہ ہیں۔مضمون نگار نے افغانستان کے شیعوں پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے مخبری کی اور طالبان کی حکومت گرائی۔طالبان کی حکومت اللہ نے گرائی ہے ۔ورنہ افغانستان اور پاکستان کا وجود خطرے میں تھا۔ہزاروں شیعوں کو طالبان نے مارا مضمون نگار کو وہ نظر نہیں آتا۔مضمون نگار لکھتا ہے کہ پہلے ہزاروں کو ایران کنٹرول کرتا تھا اور اب ایران سے آیت اللہ سیستانی کنٹرول کرتے ہیں اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ آیت اللہ سیستانی عراق میں ہوتے ہیں۔ جبکہ ایران میں آیت اللہ خامنہ ای ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے شیعہ ان دونوں  بزرگواروں اور دیگر مراجع کرام سے مذہبی ہدایات لیتے  ہیں۔ ان دونوں بزرگواروں کے فتاوی اور احکام ہیں کہ اہل سنت کے مقدسات کے خلاف نہ بولا جائے۔ اس کی دلیل ایران اور عراق میں اکثریت کے باوجود اہل سنت کی اقلیت کا احترام اور ان کی خدمت ہے۔سعودی عرب میں سروں کو کھمبوں پر لٹکانے کا رواج ہے شیعہ کمیونٹی میں نہیں ۔داعش میں مقتولین کے سروں کے ساتھ فٹ بال کھیلنے کا رواج ہے شیعوں میں نہیں ، طالبان میں کنٹینرز میں نہتھے افراد کو جلانے کا رواج ہے شیعوں میں نہیں ،القاعدہ میں بے گناہوں کو خود کش حملوں سے مارنے کی رسم ہے شیعوں میں نہیں ۔مضمون نگار بلکہ مضامین نگار اور اینکرز بشمول اوریا مقبول جان وغیرہ اپنا ریکارڈ درست کر لیں۔ میڈیا کی آنکھ بہت تیز ہے ۔اب یہ جھوٹ زیادہ دیر چلنے والے نہیں ہیں۔ جس سعودی عرب کی آشیرباد پر آپ مشغول کار تھے وہ خود اپنے تکفیری نظریات سےتوبہ تائب نظر آ رہا ہے۔تکفریت کے جعلی اقتدار کے کھٹا ٹوپ اندھیروں والی رات قریب اختتام ہے اور  سحر انقلاب امن و وحدت طلوع ہونے کو ہے۔

یہ سطور میں نے عجلت میں آج بدھ کے روز فجر سے قبل تحریر کی ہیں مگر جو کچھ لکھا ہے اس پر قائم و دائم ہوں اور مزید لکھوں گا ۔مجھے یقین ہے کہ میری تحریر سے کوئی فرق نہیں پڑے گا تاہم چاہتا ہوں کہ اس ابابیل کی طرح جو چونچ میں پانی لئے ہوئے آتش نمرود کو بجھانے کے لئے کھڑا تھا اس کالم کی صورت میں تھوڑا سا پانی دہشت گردی کی آگ بجھانے کے لئے استعمال  کروں تاکہ جس طرح پرندے کا شمار خلیل خدا کے خیر خواہوں میں ہو گیا تھا میرا شمار آقائے نامدارص  کے غلاموں میں اور امت محمدیہ کے خیر خواہوں میں ہو جائے۔

گر قبول افتذ زہے عزو شرف
آخر میں ڈاکٹر منظور رضوی کا شعر تحریر کر رہا ہوں۔
اس خط کو کھولئے گا دیکھ بھال کے
کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے 
خیر اندیش
سخاوت حسین سندرالوی
حوزہ علمیہ المہدی ؑ امریکہ

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .