۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
شہید آغا سید ضیاءالدین رضوی

حوزہ/ حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر علی محمد جوادی نے کہا کہ گلگت کے اس پرآشوب دور میں جہاں اہل تشیع مظلومیت کا شکار تھے، مستضعفین تھے، پسے ہوئے تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حرم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا قم المقدس میں دفتر قائد ملت جعفریہ شعبہ زائرین کی جانب سے منعقدہ برسی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر علی محمد جوادی نے کہا کہ گلگت کے اس پرآشوب دور میں جہاں اہل تشیع مظلومیت کا شکار تھے، مستضعفین تھے، پسے ہوئے تھے۔ ایسے ماحول میں سید ضیاءالدین رضوی نے گلگت میں قدم رکھا۔ انہوں نے جو بھی قدم اٹھایا اس میں للاہیت تھی، اس میں دینی معیار ہوتا تھا، زمانے کے تقاضے کے مطابق ہوتا تھا اور شہید ایمان کی بنیاد پر کام انجام دیتے تھے لہذا ان کا ہر کام عمل صالح تھا۔ 

انہوں نے اپنے خطاب میں شہید آغا سید ضیاءالدین رضوی کے چار برجستہ اور بنیادی کام جو انہوں نے اپنی زندگی میں انجام دئے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلا بنیادی اور برجستہ کام جو شہید نے انجام دیا وہ اتحاد بین المومنین کیلئے عملی قدم اٹھایا۔ کیونکہ شیعہ بکھرے ہوئے تھے، منسجم نہیں تھے۔ اگرچہ ابدان جمع تھے تو افکار جمع نہیں تھے۔ آغا سید ضیاءالدین رضوی نے ان بکھرے ہوئے افکار کو جمع کیا اور سارے افکار کو ایک سمت و سو کی طرف لے گیا۔ دوسرا کام : پسا ہوا جو طبقہ تھا مالی حوالے سے، معیشتی حوالے سے، دوسرے مسائل میں پسے ہوئے تھے۔ ان کی دیکھ بھال کیلئے، ان کی مدد کیلئے تعمیر ملت پروگرام کے نام سے ایک پروگرام بنایا۔ تیسرا بنیادی کام جو شہید نے انجام دیا: گلگت کی جامع مسجد چھوٹی تھی، آبادی بڑھتی جارہی تھی۔ کسی غیرملکی فنڈ سے نہیں، کسی ڈونر سے پیسے نہیں لئے بلکہ صرف مقامی مومنین و مومنات کے تعاون سے عالی شان جامع مسجد تیار کی۔ اس جیسی خوبصورت مسجد پورے پاکستان میں نہیں ہے۔ چوتھا بڑا کام جو شہید نے انجام دیا : انہوں نے اگرچہ گلگت میں یہ کام انجام دیا لیکن ان کا ہدف پورے پاکستان کیلئے تھا جس کیلئے انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا وہ تحریک اصلاح نصاب تعلیم تھی۔ شہید کیونکہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق سوچتا تھا اس لئے سب سے پہلے اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوا۔ اس حوالے سے ان کا صاف و شفاف موقف تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ اقوام متحدہ کے منشور میں بھی یہ چیز ہے کہ ہر قوم کو، ہر مذہب کو، ہر فرقے کو اپنے عقیدے کے مطابق تعلیم حاصل کرنے اور زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔ اور پاکستان کا آئین اور قانون بھی اس کی اجازت دیتا ہے۔ ایک ایسے دور میں شہید رضوی نے اس تحریک کو اٹھایا اور آگے بڑھایا جب قائد ملت جعفریہ علامہ ساجد علی نقوی اور قومی پلیٹ فارم تحریک جعفریہ پر پابندیاں عائد کی جاچکی تھیں۔ اس کے باوجود بھی قائد ملت جعفریہ نے شہید آغا سید ضیاءالدین کی رہنمائی کی اور بھرپور مدد اور تعاون کیا۔ 

حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر علی محمد جوادی نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ پاکستان میں شہید سید ضیاءالدین کا صاف شفاف موقف تھا ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اگر کوئی قدم اٹھانا ہے، کچھ کرنا ہے، کوئی پیغام دینا ہے تو وہ آشکار، صاف و شفاف ہوتا تھا، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہوتا تھا، کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتا تھا۔ پاکستان میں جب شیعہ قیادت اور پیشوائی کیخلاف دشمن کی جانب سے پروپیگنڈا اور سازش کی گئی تو شہید نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں صاف و شفاف موقف اختیار کرتے ہوئے قائد ملت جعفریہ کا بھرپور دفاع کیا اور فرمایا کہ ملت تشیع پاکستان کو کوئی شخصیت مشکلات سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ قائد محترم علامہ سید ساجد علی نقوی کی ذات ہے۔ علماء کو ایسا ہونا چاہئے، اگر حق اور حقیقت ثابت ہوجائے تو کسی خوف اور مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ سید ضیاءالدین رضوی اس حوالے سے بھی ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں۔ ہمیں شہید کی شخصیت و سیرت کو اپنے اعمال کیلئے، اپنی گفتار کیلئے اور اپنے کردار کیلئے رول ماڈل بنانا ہوگا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .