۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/ اسلام کے پاس چار طرح کے بڑے سرمایہ تھے جن کی حفاظت کی ضرورت تھی، توحید پروردگار، نبوت و رسالت، قرآن کریم اور کعبہ، اسلام کو ایک ایسے محافظ کی ضرورت تھی جو ان چاروں سرمایوں کی حفاظت کرے اور اور ان کے اردگرد ایسا مضبوط حصار قائم کر دے کہ دشمن اپنی تمام تر کینہ توزیوں کے باوجود کبھی کوئی گزند نہ پہچا سکے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ۱۳ رجب کی مناسبت پر ہندوستان کے برجستہ عالم دین حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید نجیب الحسن زیدی کہا کہ ماہ مبارک رجب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس مہینہ میں اسلام کو سب سے پہلا محافظ ملا اور ٣٠ عام الفیل ١٣رجب آغوش رسالت میں اس محافظ دین و شریعت نے آنکھیں کھولیں جس نے صبح قیامت تک کے لئے آئین پروردگار کو اپنی قربانیوں سے محفوظ کر دیا۔ اسلام کے پاس چار طرح کے بڑے سرمایہ تھے جن کی حفاظت کی ضرورت تھی، توحید پروردگار، نبوت و رسالت، قرآن کریم اور کعبہ، اسلام کو ایک ایسے محافظ کی ضرورت تھی جو ان چاروں سرمایوں کی حفاظت کرے اور اور ان کے اردگرد ایسا مضبوط حصار قائم کر دے کہ دشمن اپنی تمام تر کینہ توزیوں کے باوجود کبھی کوئی گزند نہ پہچا سکے، ماہ مبارک رجب میں پروردگار نے ان چاروں سرمایوں کے لئے ایسا محافظ فراہم کر دیا جو علم کے اعتبار سے من عندہ علم الکتاب کا مصداق اور باب مدینة العلم قرار پایا تو جسمانی طاقت و قوت کے اعتبار سے لافتی کا مصداق ٹہرا اور مقام عمل میں اس نے توحید و نبوت کے ساتھ کعبہ و قرآن کی اس طرح حفاظت کی کہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کو توڑ کر توحید پروردگار کا تحفظ کیا اور آغوش رسالت میں گواہی رسالت دے کر رسالت کا تحفظ کیا، خود کعبہ میں اس کی پیدائش عظمت کعبہ کے تحفظ کا سبب بنی پیدا  ہوتے ہی  نزول قرآن سے پہلے تلاوت قرآن کرکے قرآن کریم کی صداقت کا تحفظ کیا۔ تو بڑے ہو کر جمع قرآن جیسا عظیم کارنامہ انجام دیا اور قرآن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تحریف سے محفوظ بنا دیا، دامن اسلام میں ان چار چیزوں سے باعظمت اور کون سی شئے ہے۔ اگر ان چاروں کی بقاء کو دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ توحید، نبوت، قرآن اور کعبہ چاروں ہی بنیادوں میں علی علیہ السلام کی قربانیوں کی تجلی ہے، جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے اور شاید اسلام کے ان چاروں میناروں کی پاسبانی و بقا ہی کے بل پر قدرت نے آپکا نام علی منتخب کیا، چنانچہ روایت میں ملتا ہے کہ پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے  جب آپ کا نام  اللہ کے نام پر علی رکھا تو حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔

آپ کے مشہور القاب  امیر المومنین، مرتضی، اسداللہ، یداللہ، نفس اللہ، حیدر، عین اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں جن کو اگر سمیٹ کر یکجا کیا جائے تو خود بخود جو لفظ منھ سے نکلتا ہے وہ علی بنتا ہے۔ آپ ہاشمی خاندان کے وہ پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور والدہ دونوں ہاشمی ہیں۔ آپ کے والد ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم ہیں اور ماں فاطمہ بنت اسد بن ہاشم ہیں اور یہ بات تمام مورخین نے قبول کی ہے کہ ہاشمی خاندان قبیلہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشہور و معروف تھے۔ جواں مردی، دلیری، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی (ع) کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ آپکی عظمتوں کی  سب سے پہلی گواہ آپ کی ولادت ہے۔ مورخین نے لکھا  کہ جب آپ کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمہ بنت اسد کعبہ کے پاس ائیں اور آپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا: پروردگارا! میں تجھ پر، تیرے نبیوں پر، تیری طرف سے نازل شدہ کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، اپنے جد ابراھیم (ع) کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ہوں۔ پروردگارا! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچہ کے حق کا واسطہ جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما۔ ابھی ایک لمحہ بھی نہیں گزرا تھا کہ کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافتہ ھوئی، فاطمہ بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوبارہ مل گئی۔ فاطمہ بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مہمان رہیں اور تیرہ رجب سن ٣٠ / عام الفیل اپنی آغوش میں اسلام کا وہ محافظ لے کر نکلیں کہ دنیا میں جب تک اللہ اکبر کی آوازیں سنائی دیتی رہیں گے دنیا علی علیہ السلام کی قربانیوں کو یاد کرتی رہے گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .