۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
احمد شہریار

حوزہ/ایک جہتی اکثر شعرا کے اظہار کی سطح پر حائل ہو جاتی ہے۔ احمد شہریار نے نظموں میں ایسے حصار کو بھی توڑا ہے۔ ان کی نظمیں معنی اور کیفیت دونوں میں وسعت پیدا کرتے ہوئے دائرہ مکمل کرتی ہیں۔ مضامین کا تنوع، سادہ زبان و بیان پر دسترس، استعاروں کا انفرادی التزام احمد شہر یار کی غزلوں کی طرح نظموں میں بھی برقرار ہے۔

تحریر:ڈاکٹر فاطمہ حسن
(24فروری 2021ء)

حوزہ نیوز ایجنسی | 

احمد شہریار کو میں صرف غزلوں کا بہت اچھا شاعر سمجھتی رہی جب تک اس کی نظموں نے متوجہ نہیں کیا تھا۔ شاید اس کی وجہ اس کی فارسی دانی اور پہلا شعری مجموعہ ’اقلیم“ ہے، جو صرف غزلوں پر مشتمل ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ احمد شہریار کی شاعری ہمارے عہد میں ایک ایسے شاعر کے ہونے کا اطمینان بخشتی ہے جو اپنی واضح شناخت رکھتا ہے۔ شعری روایات کے تسلسل میں تکنیک پر عبور، اسلوب کی نزاکتوں سے واقفیت، استعاروں اور تلمیحات کو برتنے کا سلیقہ اور جدید رجحانات سے ہم آہنگی، ان کے اظہار میں پختگی کے ساتھ بے ساختگی، رمزیت اور تجربات کے تنوع کو برقرار رکھتی ہے۔ فارسی پر عبور اور اس زبان میں شعر لکھنے کے باوجود وہ اپنی اردو غزلوں میں سہلِ ممتنع کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے قبولِ عام اشعار دیکھئے جن میں ہمارے اپنے عہد کا رویہ اور تجربہ پوری طرح موجود ہے:
کرائے کے مکاں میں عمر بھر رہتا ہے کوئی؟!
گزر جاتی ہے آدھی زندگی گھر دیکھنے میں 

جو دل کا شعلہ تھا آنکھوں میں در نہیں آیا
مجھے ستارہ گری کا ہنر نہیں آیا

سہلِ ممتنع میں اعلیٰ جمالیات کا اظہار چھوٹی بحر کی اس غزل میں دیکھئے:
ہم نے نقلی لکڑی سے
آگ جلالی جعلی آگ
یارب مجھ میں روشن رکھ
آگ بجھانے والی آگ

اسی طرح سادہ بیانی اور چھوٹی بحر میں شعری جمالیات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک غزل میں ان کا تجربہ دیکھئے ۔ اس غزلِ مسلسل میں پھول اور تتلی ہر شعر میں موجود ہیں اور بحر اتنی مختصر کہ ہر مصرعے میں صرف چار یا پانچ الفاظ ہیں۔ ایسا تجربہ تصنع اور کرافٹ کی کرتب سازی سے بچ کر کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ان کا اسلوب ہے۔ یہ طرزِ اظہار قدرت کی عطا ہے جسے انہوں نے مطالعہ اور ریاض سے نکھارا ہے۔ مذکورہ غزل دیکھئے: 
اڑ نہیں سکی تتلی
پھول پر بنی تتلی

میں ہوں پھول صحرا کا 
دھول ہے مری تتلی

ہر کتاب میں اک پھول
جیسے اک مری تتلی

ایسے مل گئے دونوں
پھول بن گئی تتلی

دیکھ پھول کاغذ کے
دیکھ کانچ کی تتلی

اس کے پھول ہونٹوں پر
میرے شعر کی تتلی

تجربات کی بات چھیڑی ہے تو میں ان کے ایک اور انداز کی غزل کاحوالہ بھی دوں گی ۔ غزل میں یہ تجربہ غیر معمولی اعتماد کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اپنے شہر کوئٹہ کے مقامی لہجے میں اردوغزل کا کتنا کامیاب تجربہ کیا ہے ۔اس غزل سے اردو زبان کی لچک اور شاعری کی صناعی دونوں کا پتہ چلتا ہے:
سویرے ام دکانیں کھولتا اے
ترازو رکھ کے کشمکش تولتا اے

پٹھانیں اور بلوچیں اور ہزارے
یآں سب لوگ اردو بولتا اے

احمد شہریار نے بہت اچھی نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ان نظموں کو پڑھ کر شعری اظہار پر ان کی مضبوط گرفت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انہیں شاعری پر وہ قدرت حاصل ہے جو کسی ایک صنف میں محدود نہیں ہونے دیتی اور بوسیدگی و تکرار سے محفوظ رکھتی ہے۔ ایک جہتی اکثر شعرا کے اظہار کی سطح پر حائل ہو جاتی ہے۔ احمد شہریار نے نظموں میں ایسے حصار کو بھی توڑا ہے۔ ان کی نظمیں معنی اور کیفیت دونوں میں وسعت پیدا کرتے ہوئے دائرہ مکمل کرتی ہیں۔ مضامین کا تنوع، سادہ زبان و بیان پر دسترس، استعاروں کا انفرادی التزام احمد شہر یار کی غزلوں کی طرح نظموں میں بھی برقرار ہے۔ نظم میں شاعری کی فکری وسعت اور لہجے کی توانائی کا بہتر طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں اظہار وسیع کینوس پر ہوتا ہے۔ مختصر نظموں کو مینا تور (Miniature) کی طرح لکھا تو گیا ہے مگر ان میں بھی فکر و کیفیت کی وسعت موجود ہوتی ہے۔ نظم میں شاعری کو فضا، کیفیت و معنی کی وہ ہمہ جہتی پیدا کرنے کا زیادہ موقع ملتا ہے جو اسے دیگر شعرا کے درمیان نمایاں کر سکے۔ احمد شہریار کی ایسی ہی ایک نظم ’بوڑھے شاعر کا ہذیان ہے‘ ۔ یہ اردو میں لکھی جانے والی ایک منفرد نظم ہے۔ عین جوانی میں بڑھاپے کی کیفیت کو طاری کرنا اور اسے قاری تک پہنچا دینا ان کے بڑے تخلیق کار ہونے کا پتا دیتا ہے۔ 
مار دے گا مجھے عمر فانی کا دکھ 
یہ میرے دل میں کروٹ بدلتا ہوا رائگانی کا دکھ 
کون ہے تو
تو کیا کہہ رہا تھا میں؟؟
ہاں
آسمان راکھ ہے
ہیں دراڑیں زمیں اور زماں راکھ ہے
ایش ٹرے میں پڑے 
میرے سگریٹ دھواں ہیں، دھواں راکھ ہے
اور اس راکھ میں
دل سلگتا ہے میرا
کسی درد کی آخری ہچکیوں کی طرح 

خموشیاں بڑ بڑا رہی ہیں
میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا مگر کچھ بتا رہی ہیں
مجھے بتاﺅ سمندروں نے مگر مچھوں کو جنا ہے
یا پھر 
مگر مچھوں کے فریب کار آنسوﺅں نے دریا بنے ہیں
جو اب سمندروں میں بٹے ہوئے ہیں
جہاں پہ پانی بہت گھنا ہے

پانی میں ڈوبتے ہوئے سورج نے آج پھر 
دریا کی موج موج کو خوں رنگ کر دیا

میرے بوڑھے ذہن کی نامربوط افکارو!
میرے بیٹو! میرے پیارو!
فلاں پھول کی ٹہنی پہ اک شعر پڑا ہے
وہ میرا ہے
خشکیدہ گلدان میں مردہ تتلی کے پر 
میری بالکل تازہ نظم کے کچھ مصرعے ہیں
انہیں مرے دیوان میں بالترتیب لگا دو
اور میرا دیوان جلا دو
یاد رکھو تم 

میرے ذمے ابھی سے داد باقی اس غزل کی 
جو رنگوں نے میری آنکھوں کی تختی پر لکھی ہے
اور اس نظم معرا کی 
جسے دیوار پر تحریر کی ہے خوں کے چھینٹوں نے 
مرا قرضہ چکا دو
یاد رکھو تم 

تو میں کیا کہہ رہا تھا؟؟؟۔۔۔
۔۔ہاں

میرے ورثا! تمہیں میں اک راز بتاﺅں؟؟
میری پونجی ، مری بچت 

مجھے ۔۔۔ نیند ۔۔۔ آرہی ۔۔ ہے

میری پونجی۔۔۔ 

اے بے منظر منظر ہٹ 
ہشت اے حیرت! چل مر! ہٹ 
چل ہٹ اے ری خامو۔۔(شی
اور اے شورِ سمن۔۔۔۔)

وقت تقریباً ہر لکھنے والا کا موضوع بنتا ہے، وقت جس کی رو سے گزرتے ہوئے حساس انسان بارہا سوچتا ہے۔ کیا اس کے اپنے اختیار میں بھی کچھ ہے یا صرف بے اختیاری ہے۔ اس کے بڑھتے ہوئے شعور، تجربات اور شعور کے ساتھ تصورِ وقت بدلتا رہتا ہے۔اس تصور اور تخیل کو صرف فن پاروں ہی میں پیش کیا جا سکتا ہے اس کی رو کی تصویری شکل تخلیق میں ہی جھلک دکھاتی ہے۔ احمد شہریار کی اس نظم میں وقت کی تندی و تیزی کو دیکھئے:
’طوفانی لمس‘
وقت ہے زوروں پر 
جس میں
لاکھوں طوفانوں کی
تندی بھی ہے
ہجر کی شب کی کندی بھی ہے
یہ شب ڈھلتی بھی تو نہیں ہے
فرج میں رکھی برف پگھلتی بھی تو نہیں ہے
اس زوروں پر وقت رہا تو 
جتنے گھر ہیں
ڈہہ جائیں گے 
جتنے کھنڈر ہیں
وقت کی رو میں بہہ جائیں گے 
وقت اگرچہ زوروں پر ہے
پھر بھی 
لاکھوں طوفانوں کی تندی میں 
ویرانی کا پھول کہیں پرکِھلا نہیں ہے
شاخ کا سب سے سوکھا پتا ہلا نہیں ہے

احمد شہریار مسلسل لکھ رہے ہیں، ترجمے بھی کر رہے ہیں، ان کی خوبصورت شاعری استعارہ در استعارہ قاری کو اپنے حصار میں لیتے ہوئے سرشاری کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ انہیں ستارہگری کا ہنر آتا ہے۔            
                       

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .