۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا سید نقی عسکری

حوزہ/ خطیب آعظم بانی تنظیم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ کی برسی کے موقع پر آپکی سوانح حیات جسے تحریر مولانا سید نقی عسکری صاحب نے کیا ہے۔

تحریر: مولانا سید نقی عسکری

حوزہ نیوز ایجنسی

کوائف زندگی

۱۔بجنور: ۱۷۲۲ء میں محمد شاہ رنگیلے مغل بادشاہ نے نواب سعادت علی خان برہان الملک کو اودھ کا صوبے دار بناکر بھیجا۔ اس سے پہلے اودھ کے صوبے دار شیخ عبدالرحیم شیخ زادے تھے جن کا مقبر ندا محل تھا جو اب نادان محل کے نام سے جانا جاتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ شیخ زادے اتنے طاقتور ہوگئے تھے کہ انہوں نے اودھ کا خراچ مغلیہ خزانے کو بھیجنا موقوف کردیا۔

جب ۱۷۲۲ء میں نواب سعادت علی خان برہان املک اودھ کے صوبہ دار معین ہوئے تو ایسی خاموشی کے ساتھ آپ نے لکھنؤ کا حصار کیا کہ شیخ زادوں کو خبر نہ ہوئی۔

نواب نے شیخ زادوں کو دعوت دی اور فرمایا :

’’ میں بادشاہ کے حکم سے آپ سے حکومت لینے آیا ہوں بہتر ہوگا کہ خوش اسلوبی سے اسے سونپ دیں اور اگر ایسا نہ کیا توجنگ کرکے چھین لیں گے۔ بہت ہی آسانی کے ساتھ اودھ کی صوبے داری نواب سعادت علی خاں کو منتقل ہوگئی۔ اور آپ نے ان شیخ زادوں کو لکھنؤ سے دس میل دور عالم نگر کی طرف بجنور میں ایک جاگیر عطا کی اور سات دن کی مہلت دی کہ جو کچھ اپنا قیمتی سامان ہے لے جائیں اور بجنور میں آباد ہوجائیں۔ اور ایسا ہی ہوا۔‘‘

(نیادور ص؍۳۲، اکتوبر ۱۹۱۷ء)

بجنور میں سادات کی آمد:

خود نواب سعادت علی خاں نیشاپور سے تشریف لائے تھے اور خود بھی سید تھے۔ چنانچہ سادات کرام کو اولاً لکھنؤ کے اطراف میں موہان میں جاگیر عطا کی گئی۔

موہان سے میر صادق علی بجنور منتقل ہوگئے اور وہیں آپ نے مستقل قیام فرمایا۔ آپ حکومت اودھ کی جانب سے منتظم اعلیٰ کے عہدے پر فائز تھے۔ (حوالہ شجرہ نسب ساداتِ بجنور، راقم سید وزیر الحسن نواسہ سید تفضل حسین ملیح آبادی، ماہ دسمبر ۱۹۹۰ء)

سلسلۂ نسب بانیٔ تنـظیم المکاتب:

میر صادق علی

میر پیر علی

میر مشتاق علی

میر راحت علی

محمد زکی

محمد نقی

سید غلام عسکری مشہدی

ابتدا میں فوت ہونے والے حضرات کی قبریں بڑا باغ قصبہ بجنور میں آج بھی موجود ہیں۔ پھر جب سے ایام عزا میں محلہ سید واڑہ بجنور سے تعزیے کا سلسلہ ہوا تو بستی سے باہر ایک مقام پر یہ تعزیے سونپے جانے لگے بعد میں اس جگہ کی شہرت کربلا کے نام سے ہوگئی۔

تعزیے کے ساتھ سادات کے دفن ہونے کا سلسلہ بھی کربلا میں شروع ہوا تو بانیٔ تنظیم کے جد امجد مرحوم محمد ذکی کی قبر بھی وہیں بنی۔

پھر آپ کے پہلو میں ان کے فرزند محمد نقی (والد مرحوم سرکار خطیب اعظم) کی قبر بنی اور خود خطیب اعظم بھی اپنے والد کے پہلو میں دفن ہوئے۔

خاندانی پس منظر:

سادات کرام کی ہندوستان آدم اور انہیں سلاطین کی جانب سے جاگیریں عطا کی گئیں مگر جو ں جوں افراد کا اضافہ ہوتا گیا یہ جاگیریں تعلقداری اور پھر زمینداری میں سمٹتی گئیں۔ یہاں تک ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد ہوگئی اور مسلمانوں کے ہاتھ سے سب چھن گیا۔

اسی دور میں غدر کے بعد ۱۸۷۵ء میں سر سید احمد خاں نے اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد علی گڈھ میں رکھی۔ چنانچہ اسی کالج میں بانیٔ تنظیم المکاتب کے والد گرامی جناب سید محمد نقی نے بھی داخلہ لیا اور ۱۹۰۸ء میں بی۔اے کا کورس مکمل کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ محکمہ تعلیم سے ہی وابستہ رہے اور آپ کا تقرر سب ڈپٹی انسپکٹر آف اسکول کے عہدے پر ہوا۔

مرحوم محمد نقی اپنے بھائی بہنوں سے سب سے بڑے تھے آپ کے بعد محمد تقی اور ۳؍بہنیں تھیں۔

جناب محمد تقی صاحب مرحوم کی پیدائش ۱۸۸۸ء میں ہوئی اور وفات ۱۹۰۸ء میں ہوئی اس طرح آپ کی عمر مبارک تقریباً ستر سال تھی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بانیٔ تنظیم کے والد مرحوم اتنے پابنددین تھے کہ دوران ملازمت ناصرالملۃ نے آپ سے فرمایا تھا کہ آپ انگریز حکومت میں ملازمت کرتے ہیں اس لیے ہر ماہ تنخواہ خمس دیاکیجئے۔ چنانچہ آپ ہر ماہ خمس کی ادائیگی فرماتے مگر اخراجات کے سبب جو ادائیگی رہ گئی تھی اسے آپ کے ریٹائرمنٹ کے بعد بانیٔ تنظیم المکاتب نے ادا فرمایا۔

چونکہ اس زمانے میں پنشن کا نظام نہیں آیا تھا اس لیے شاید آپ اس خمس کی ادائیگی نہیں فرماسکتے تھے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد مرحوم سید محمد نقی لکھنؤ شیعہ یتیم خانہ کے جوائنٹ سکریٹری مقرر ہوئے اور ایک زمانے تک یتیم خانہ کے مین گیٹ کے اوپری حصے میں رہ کر آپ نے خدمات انجام دیں۔

عقد:

ملازمت کے بعد آپ کا عقد ہوا اور اللہ نے ایک بیٹی عطا فرمائی جن کا نام کنیز شہر بانو رکھا گیا۔ مگر کچھ دنوں کے بعد آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا تو آپ کا عقد ثانی سرائے میر ضلع بارہ بنکی کے بزرگ رئیس جناب حسن عسکری مرحوم کے دختر سے انجام پایا جن کا نام سبطینی مرحومہ تھا۔

ولادت:

ابتدا میں چند اولاد خدا نے جناب سید محمد نقی طاب ثراہ کو عطا کیں مگر وہ زندہ نہ رہیں۔ اسی اثناء میں آپ کے خسر جناب حسن عسکری مرحوم جو چند بار زیارات عتبات عالیات سے مشرف ہوچکے تھے۔ اپنے سفر زیارت مشہد مقدس میں دعا فرماتے ہیں کہ خدا ان کی دختر کو فرزند عطا فرمادے۔ اور ان کی دعا مستجاب بھی ہوجاتی ہے۔یہ دعا قبول ہوئی اور بانیٔ تنظیم المکاتب کی ولادت ۱۹۲۸ء میں رائے بریلی میں ہوئی اس زمانے میں بانیٔ تنظیم المکاتب کے والد گرامی سلسلۂ ملازمت رائے بریلی شہر میں قیام پذیر تھے۔

بانیٔ تنظیم کی ولادت سے قبل خدا نے مرحوم سید محمد نقی کو ایک دختر سے نوازا تھا پھر بانیٔ تنظیم کی ولادت ہوئی۔ اور آپ کے بعد حکیم سید غلام باقر ظفر کی پیدائش ہوئی۔ اور علیٰ الترتیب مرحوم غلام مہدی اور مرحوم عزادار حسین یہ دونوں بھائی جوانی میں فوت ہوگئے تھے۔

وجہ تسمیہ۔ مشہدی:

بانیٔ تنظیم کی عرفیت مشہدی تھی اور ظاہری طور سے اس عرفیت کا سبب آپ کے نانا کی وہ دعا تھی جو مشہد میں امام رضاؑ کی بارگاہ میںکی گئی تھی۔

مزید آپ کی ولادت کے سلسلہ میں بانیٔ تنظیم کے برادر خورد حکیم سید غلام باقر مرحوم تحریر فرماتے ہیں:جب ہمارے پہلے کے بھائی گذرتے رہے تو والد مرحوم نے نذر مانی کہ اگر فرزند حیات رہا تو اس کو صرف دینی تعلیم دلائوں گا۔ علماء وقت سے ان کا (والد مرحوم) کا رابطہ رہتا تھا چنانچہ بھائی صاحب مرحوم کا نام بھی ایک جید عالم دین کی فرمائش پر انہوں نے غلام عسکری رکھا۔ آج سے ۳سال قبل ناظم صاحب کے امامباڑے میں ایک تقریر میں تفصیل خود بیان فرمائی تھی کہ آج جوکچھ ہوں اس نذر کی بدولت ہوں۔

(روزنامہ قومی آواز، مورخہ ۲۹؍جون ۱۹۸۵)

یہ بھی ممکن ہے کہ بانیٔ تنظیم المکاتب کے نانا کا نام چونکہ سید حسن عسکری تھا اس لیے بانیٔ تنظیم المکاتب کی ولادت کے بعد ان کی دعا کے سبب غلام عسکری نام رکھ دیا گیا ہو۔

تعلیم وتربیت:

بانیٔ تنظیم کی ولادت ائمہ معصومینؑ کی دعائوں کا ثمرہ تھی۔ چنانچہ آپ کی ولادت شہر رائے بریلی میںہوئی تو اس وقت آپ کے والد نے مولانا فیاض حسین صاحب قبلہ مرحوم کو تعلیم وتربیت پر مامور فرمایا۔ بلکہ مولانا فیاض حسین بانیٔ تنظیم المکاتب کے ہمراہ جامعہ ناظمیہ تک رہے۔ اپنی تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں بانیٔ تنظیم المکاتب خود فرماتے ہیں:

۱۹۴۸ء میں جامعہ ناظمیہ سے نکل کر مدرسۃ الواعظین میںداخل ہوا خوش قسمتی سے علامہ عدیل اختر مرحوم کی تربیت سے فیض حاصل کرنے کا موقعہ ملا۔مجھے جو کچھ ملا ہے یا والد صاحب سے ملا یا استاد مرحوم سے ملا۔ استاد مرحوم کی تربیت نے ذہن کو ایسے سانچے میں ڈھال دیا جس کے بعد بڑی بڑی شخصیتیں انتہائی قربت خاص ہونے کے باوجود مجھے متاثر نہ کرسکیں جب کوئی میرے سامنے ہوتا تو میں اس کا موازنہ استاد مرحوم کے ہشاش بشاش تقویٰ سے کرتا تو یا مجھے خشک تقویٰ ملتا یا پلاسٹک کا تقویٰ دیکھائی دیتا۔

(بحوالہ یادگاری مجلہ جشن سیمین تنظیم المکاتب، ۱۹۹۳ء)

استاد محترم کے علاوہ مجھے دوشخصیتوں نے بہت متاثرکیا ایک استاد محترم کے ساتھی مولانا سید محمد عمید صاحب قبلہ، دوسرے جناب مولانا سید محمد حسین صاحب قبلہ۔

جناب مولانا سیدمحمد عمید صاحب قبلہ کی خدمت میں حاضر ہونا اور مسلسل سوال کرتے رہنا میری زندگی کے خوشگوار ترین لمحات ہوتے تھے۔ اور کبھی مولانا مرحوم نے کسی سوال کے جواب میں نہ سکوت اختیار فرمایا نہ مجھے غیر مطمئن حالات میں چھوڑا کیونکہ غیر مطمئن ہونے پر تو میں خود ہی پوچھنا چھوڑ دیا کرتا تھا لیکن مولانا محمد عمید صاحب قبلہ کے پاس سے جب بھی اٹھا تو یا سوالات کی فہرست تمام ہوچکی تھی یا وقت ختم ہوچکا تھا۔

دوسری شخصیت جس کے کردار نے مجھے متاثر کیا وہ جناب مولانا سید محمد حسین صاحب قبلہ تھے آج بھی خدا سلامت رکھے ان کے بڑے بھائی جناب مولانا سید محمد حسین صاحب قبلہ کربلائے معلی میں تشریف رکھتے ہیں لیکن مجھے مولانا حسن صاحب قبلہ سے قریب ہونے کا موقعہ نہ مل سکا۔ البتہ مولانا حسین صاحب قبلہ سے قریب رہا لیکن میری قربت ذہنی اور روحانی اور کرداری تھی روزانہ حاضری کی نہ تھی آپ کی عمر نے وفا نہ کی جلد ہی ہم سے جدا ہوگئے۔

(حوالہ، زعیم ملت نمبر ۱۹۸۳ء، میرے استاد نہ تھے مگر۔۔۔۔۔۔)

تعلیم:

رائے بریلی میں ابتدائی تعلیم کے بعد بانیٔ تنظیم المکاتب کو آپ کے والد نے اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے لکھنؤ روانہ کیا۔ جہاں جامعہ ناظمیہ، مدرسۃ الواعظین اور تکمیل الطب کالج سے آپ نے تعلیم کے مزید مدارج طے فرمائے۔

جامعہ ناظمیہ: برصغیر کی ممتاز اور قدیم دینی درسگاہ میں بانیٔ تنظیم المکاتب کا داخل کس میں ہوا وقیعاً تویہ تحریر نہیں کیاجاسکتا ہے مگر جامعہ ناظمیہ سے ۱۹۴۷ء میں آپ فارغ ہوئے اور آپ نے جامعہ کی آخری ۱۹۴۷ء سند ممتاز الافاضل حاصل کی۔ 

یہ سن بانیٔ تنظیم المکاتب نے سالانہ رپورٹ تنظیم المکاتب میں تحریر فرمایا ہے۔ (بحوالہ یادگاری مجلہ جشن سیمیں، تنظیم المکاتب)

چونکہ جامعہ ناظمیہ کا نصاب دس سال پر مشتمل ہے اس بنا پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ آپ کا داخلہ جامعہ ناظمیہ میں ۱۹۳۸ء میں ہوا ہوگا جس وقت آپ کی عمر مبارک محض دس سال رہی ہوگی۔ اور جس وقت آپ نے جامعہ ناظمیہ کی آخری سند ۱۹۴۷ء میں حاصل کی اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً ۱۹ سال رہی ہوگی۔

آپ کے دورمیں جامعہ ناظمیہ کے پرنسپل مفتی سید احمد علی صاحب قبلہ اور وائس پرنسپل جناب مولانا سید ابرار حسین صاحب پاروی قبلہ (متوفی ۱۹۵۵ء) تھیْ

اساتذہ:

جناب مفتی سید احمد علی صاحب قبلہ مرحوم، جناب مولانا سید ابرار حسین صاحب قبلہ پاروی۔

احباب ناظمیہ:

بانیٔ تنظیم کے ہم عصر احباب جناب مولانا شیخ رضوان حسین صاحب قبلہ جونپوری، جناب مولانا سید علی عابد الرضوی صاحب قبلہ کراروی، جناب مولانا سید شاکر حسین صاحب قبلہ امروہوی، جناب مولانا سید ایوب حسین صاحب قبلہ۔ 

مدرسۃ الواعظین:

افاضل طلباء کے قائم شدہ اس ادارہ میں بانیٔ تنظیم المکاتب کا ورود ۱۹۴۸ء میں ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں بانیٔ تنظیم المکاتب فرماتے ہیں:

میں نے ۱۹۴۸ء میں جامعہ ناظمیہ سے فارغ ہوکر مدرسۃ الواعطین میں داخلہ لیا۔ مولانا سید کاظم رضا صاحب قبلہ اس سال مدرسۃ الواعظین سے فارغ ہوئے تھے۔ قیام کے لیے مجھے وہی کمرہ ملا جس کو مولانا کاظم رضا صاحب کو خالی کرنا تھا۔ (حوالہ: مجالس مہدی، طبع ۱۹۷۷ء)

مدرسۃ الواعظین کا تعلیمی سفر تو ۳سال کا ہوتا تھا مگریہ ۲سال تبلیغ دورے، تالیف، تصنیف وترجمہ کی خدمت ہر طالب علم کو انجام دینا پڑتی تھیں۔ چنانچہ بانیٔ تنظیم ۱۹۴۸ء سے لے کر ۱۹۵۲ء تک مدرسۃ الواعظین کے طالب علم رہے۔ اس وقت مدرسۃ الواعظین کے پرنسپل علامہ سید عدیل اختر عظیم آبادی مرحوم (مدفون حسینیہ غفران مآب) تھے۔

ابھی بانیٔ تنظیم المکاتب کی تعلیم کا آخری سال تھا کہ علامہ سید عدیل اختر مرحوم (متوفی ۱۹۵۰) کا انتقال ہوجاتا ہے اور مولانا مرحوم کی وصیت یہ تھی کہ میرے آخری مراسم غلام عسکری ہی ادا کریں۔ گرچہ اس وقت مدرسۃ الواعظین میں بانیٔ تنظیم المکاتب موجود نہیں تھے مگر علامہ مرحوم کی وفات کی اطلاع ملتے ہی مدرسہ میں حاضر ہوجاتے ہیں اور حسب وصیت تمام مراسم خاکساری کو خود انجام دیتے ہیں۔ 

۳سالہ تعلیمی کورس کے بعد ۵۲۔۱۹۵۱ء کا دوسالہ بانیٔ تنظیم المکاتب نے علامہ سید عدیل اختر مرحوم کے بغیر گذارا گرچہ اس وقت مدرسۃ الواعظین کے پرنسپل مفسر قرآن علامہ سید راحت حسین قبلہ گوپالپوری مرحوم تھے۔

اساتذہ:

علامہ سید عدیل اختر صاحب قبلہ، آیت اللہ سید راحت حسین صاحب قبلہ گوپالپوری۔

احباب مدرسۃ الواعظین:

جناب مولانا شیخ محمد حیدر صاحب قبلہ کمال سیتھلی، جناب مولانا شیخ رضوان حسین صاحب قبلہ جونپوری۔

تکمیل الطب کالج لکھنؤ:

یونانی اور آیوردیک تعلیم میں لکھنؤ کا قدیم کالج۔ بانی تنظیم المکاتب جس وقت مدرسۃ الواعظین میں زیر تعلیم تھے اس وقت تکمیل الطب کالج میں آپ نے داخلہ بھی لیا جو اس وقت نخاس لکھنؤ میں تھا۔جسے اسٹیٹ یونانی کالج بھی کہاجاتا تھا، بانیٔ تنظیم المکاتب کا طبیہ کالج میں تعلیم کا سلسلہ مدرسۃ الواعظین کے دور سے شروع ہوا چونکہ اس وقت معمولاً رواج تھا کہ طلاب علوم دینیہ عربی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی حاصل کرتے تھے۔ تاکہ ذریعہ معاش کا ایک سلسلہ طب سے بھی جڑا رہے۔

۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۱ء کے دور میں آپ نے B.I.M.Sکی ڈگری تکمیل الطب کالج سے حاصل کی۔ یہ کورس ۵سال کا ہوتا تھا اور غالباً مدرسۃ الواعظین کی تعلیم اور تکمیل الطب کی تعلیم ایک ساتھ بانیٔ تنظیم المکاتب نے حاصل کی۔

تکمیل الطب کی تعلیم کے سلسلہ میں آپ کے برادر خورد حکیم سید غلام باقر ظفر مرحوم (جو اسی دور میں تکمیل الطب کے اسٹوڈنٹ تھے) تحریر کرتے ہیں:

بانیٔ تنظیم ہمیشہ ممتاز طالب علم رہے شروع سے آخری سال کی تعلیم تک گورنمنٹ سے نمایاں کامیابی پر وظیفہ لیتے رہے۔ وہاں کی یونین کے سکریٹری رہے اور کالج کی طرف ایک طبی رسالہ کا اجراء امین صحت کے نام سے کرایا۔ (قومی آواز، مورخہ ۲۹؍جون ۱۹۸۵ء)

عقد:

جناب سید محمد نقی مرحوم (والد مرحوم بانیٔ تنظیم) نے اپنے سگے چچازاد بھائی مرحوم سید علی حمزہ مقیم بجنور، ضلع لکھنؤ کی بیٹی سیدہ ریاض فاطمہ شاداب سے بانیٔ تنظیم المکاتب کی نسبت طے کردی تھی۔ یہ عقد ۱۹۵۵ء میں انجام پایا۔

عقد کے بعد سے اپنی والدہ کے انتقال تک خطیب اعظیمؒ بجنور ہی میں رہائش پذیر تھے۔ آپ کی والدہ کا انتقال ۱۹۷۸ء میں بجنور میں ہوا تھا۔

والدہ کی وفات کے بعد آپ لکھنؤ میں سکونت پذیر رہے وہ بھی ہمیشہ کرائے کے گھر میں۔ سب سے پہلے آپ صفوۃ العلماء مولانا سید کلب عابد مرحوم کے گھر بالائی حصے میں رہائش پذیر رہے۔ اس کے بعد گھر کی بوسیدگی کی بنا پر آپ اپنی وفات تک ۱۹۸۵ء بڑا باغ حسین آباد میں حکیم محمد کاظم صاحب کے مکان میں بعنوان کرایہ دار رہائش پذیر رہے۔

وفات سے چند ماہ قبل آپ نے ایک گھر وزیر گنج میں خریدا تھا چونکہ یہ گھر بھی قدیمی تھا لہٰذا مرمت وغیرہ کے خیال سے اس گھر کو آپ نے آباد نہیں کیا تھا ہوسکتا ہے جس تبلیغی دورے میں آپ کی وفات ہوئی اس کے بعد یہ ادارہ رہا ہو کہ تعمیر وتجدید کے اس گھر کو آباد کریں گے۔ مگر اجل نے اس کی مہلت نہیں دی۔

اولاد:

خدا کی مصلحت بانیٔ تنظیم کے کوئی اولاد نہیں تھی مگر وہ فرماتے تھے میری اولاد مکاتب کے بچے ہیں۔

اس سلسلہ میں علامہ مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی فرماتے ہیں:

کراچی میں میں نے گلے مل کر احوال پرسی کے بعد پوچھا یہ ماشاء اللہ اب کتنے بچے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ ہنس کر کہا۔ الحمدللہ ہزاروں بچے ہیں اور سب مدرسوں ہی میں پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ لکھنؤ آئیے اور انہیں دیکھئے۔ (خطیب اعظم نمبر)

افراد خانوادہ:

دادیہال:

جدامجد: جناب سید محمد زکی مرحوم۔

والدگرامی: جناب سید محمد نقی مرحوم۔

والدہ گرامی: مرحومہ سبطینی۔

عم گرامی: جناب سید محمد نقی مرحوم (لاولد)

عمات: ۱۔ مرحومہ کاطم النساء۔۲۔ مرحومہ چھمے۔ ۳۔ مرحومہ سکینہ۔

خواہران: ۱۔ سیدہ کنیز شہربانو۔۲۔ سیدہ کنیز ام لیلیٰ۔

برادران: ۱۔ سید غلام باقر ظفر۔ ۲۔ سید غلام مہدی۔ ۳۔ سید عزادارحسین۔

نانیہال:

جدامجد: مرحوم سید حسن عسکری، سرائے میرضلع بارہ بنکی۔

جد ماجدہ: مرحومہ محتشمہ۔

ماموں: جناب سید علی ارشاد مرحوم، سرائے میر ضلع بارہ بنکی۔

خالہ: ۱۔ مرحومہ حسنینی۔۲۔ مرحومہ احمدی۔

بزم دوستان:

اس بزم میں سرفہرست نام یشر تبلیغ جناب مولانا شیخ محمد حیدر مرحوم کا ہے آپ کی بانیٔ تنظیم سے والہانہ محبت کا عالم یہ تھا کہ ایک عزیز کے انتقال کے بعد بانیٔ تنظیم المکاتب پر ان کی موت کا بے پناہ اثر تھا یہاں تک یہی شیخ صاحب ایک سال تک بانیٔ تنظیم کی دل جوئی کے لیے اپنے وطن نہیں گئے۔

بانیٔ تنظیم کے انتقال کے بعد جب آپ کا فوٹو شیخ صاحب نے اپنی الماری میں دیکھا تو یہ اثر ہوا کہ وہیں چکراکے گر گئے اور آپ کا انتقال ہوگیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

جناب مولانا کاظم رضا صاحب قبلہ مرحوم۔ یوں تو آپ بانیٔ تنظیم سے عمر کے لحاظ سے بڑے تھے مگر مدرسۃ الواعطین کے دور میں دونوں میں ایسی دوستی ہوئی کہ مولانا سید کاظم رضا مرحوم بس بانیٔ تنظیم کے ہوکر رہ گئے۔یہاں تک آخر عمر تک اپنی دوستی اور رفاقت کو نبھاتے رہے۔عمر کے اس قافلہ میں کچھ حضرات بانیٔ تنظیم کے سفر خطابت میں شریک ہوئے جن میں کچھ حضرات سے وابستگی باقی رہی اور چند افراد تنظیم المکاتب کے وجود کے بعد نہ صرف بانیٔ تنظیم سے جدا ہوگئے بلکہ دشمنی اور مخاصمت پر اتر آئے۔

تعلیم خود جن حضرات کا تذکرہ خطیب اعظم نے فرمایا کہ ان حضرات کے وجو

سے مجھے تقویت حاصل ہوتی ہے ان میں۔

۱۔ افتخارالعلماء مولانا سعادت حسین صاحب قبلہ مرحوم۔

۲۔ ظفرالملۃ مولانا سید ظفرالحسن صاحب قبلہ مرحوم۔

۳۔ علامہ سید ذیشان حیدرجوادی صاحب مرحوم۔

ان حضرات کے علاوہ چند اور نام بھی اس سلسلہ میں پیش کیے جاسکتے ہیں۔

مولانا سید وزیر حسن صاحب قبلہ مرحوم۔ مولانا سید مختار صاحب قبلہ زنگی پوری۔ مولانا سید شمس الحسن صاحب قبلہ۔ مولانا شیخ فیاض حسین صاحب قبلہ ولیدپوری۔ صفوۃ العلماء مولانا سید کلب عابد صاحب قبلہ۔ مولانا سید علی عابد الرضوی صاحب قبلہ۔ مولانا اسماعیل رجبی صاحب قبلہ۔ مولانا سید وصی محمد صاحب قبلہ، مولانا سید غلام حسنین کراروی مرحوم۔ 

احباب کی فہرست نامکمل رہ جائے گی اگر اس میں رئیس الواعظین مولانا سید کرار حسین صاحب قبلہ کا نام نہ لیاجائے۔ گرچہ رئیس الواعظین سِنی لحاظ سے بانیٔ تنظیم سے چھوٹے تھے مگر مدرسۃ الواعظین سے جو قرابت کا سلسلہ شروع ہوا وہ دم موت تک ساتھ رہا۔ یہاں تک وقت انتقال بھی رئیس الواعظین ہی بانیٔ تنظیم کے ہمراہ تھے۔ 

مومنین کرام میں جن حضرات کو بانیٔ تنظیم سے بے پناہ لگائو تھا ان میں:

جناب علی اکبر تیجانی۔ محمد رضا پلاسٹک والا۔ جناب پروفیسر ابوحیدری۔ جناب عزادارحسین صاحب فیض آباد۔ جناب فیاض خاں صاحب۔ جناب سید تقدیر الحسن صاحب کلن۔ جناب عباس خاں صاحب۔ مہدی صاحب۔ خورشید حسن صاحب وکیل۔ اکبر بھائی اترولوی۔ قمر حسین صاحب محمد پور، رنوں۔ جناب محمد علی عبدعلی۔منشی تفضل حسین صاحب جمولی۔ جناب نور علی مکھی۔ ریاض صاحب کٹگھرکمال۔ جناب عابد بھائی مومن۔ حاجی ابوالحسن رضوی صاحب مچھلی گائوں۔ جناب غلام علی بھانجی۔ جناب غلام حسن چینائی۔ بشر صاحب صفدر صاحب بنارس۔ جناب غلام علی گلزار۔ ابوالقاسم جمالی صاحب۔ جناب مولانا سید محمد علی آصف صاحب قبلہ۔ جناب عاشق حسین صاحب پونچھ۔ نثار حسین خاں صاحب۔ مولانا سلیمان احمد صاحب۔ فخر الدین ھبۃ اللہ صاحب۔ مولانا سید نذر حسن عابدی محمد آبادی۔ 

حج وزیارت:

بانیٔ تنظیم المکاتب نے اپنی حیات میں تین مرتبہ فریضۂ حج انجام دیا۔

پہلی مرتبہ آپ ۱۹۷۰ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔

پھر ۱۹۷۹ء میں دوبارہ حج کے لیے تشریف لے گئے۔اس کے علاوہ ایک حج اور آپ نے انجام دیا تھا۔

پہلا حج یقینا اپنی طرف سے رہا ہوگا دوسرا اور تیسرا حج ایک اپنے والد مرحوم کی جانب سے اور ایک اپنے بہنوئی (مرحوم سید حسن جعفر) کی طرف سے انجام دیا تھا۔

ان میں ایک حج میں آپ کی اہلیہ بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔

زیارت: پہلی مرتبہ مارچ ۱۹۶۱ء میں بانیٔ تنظیم اپنے خانوادے (اہلیہ اور برادرخورد حکیم سید غلام باقر اور اہلیہ حکیم سید غلام باقر، بھتیجی تنویر فاطمہ) کے ہمراہ ایران، عراق تشریف لے گئے۔

دوسری مرتبہ اگست ۱۹۸۱ء میں ماہ رمضان کے بعد سمباساکینیا سے عراق وایران زیارت کے لیے تشریف لے گئے اس سفر میں آپ کی اہلیہ اور مولانا سید علی عابدالرضوی صاحب بھی ہمراہ تھے۔سولہ دن عراق میں قیام رہا اور دس دن ایران میں قیام رہا۔

بیماری اور علالت:

بوقت وفات بانیٔ تنظیم المکاتب کی عمر مبارک ۵۷سال تھی مگر اسی عمر میں آپ وجع الفاصل اور ہائی پلڈپریشر جیسے امراض میں گرفتار تھے۔ چنانچہ پلڈپریشر کے لیے بلرام پور ہاسپٹل کے ڈاکٹر اے، جے رضوی کا علاج پابندی سے کرتے مگر کثرت کار، ذہنی پریشانیوں نے حیات کو زیادہ مہلت نہیں دی۔

وفات:

رئیس الواعظین تحریر فرماتے ہیں: وہ رات بڑی بھیانک تھی آسمان سے مسلسل مینھ برس رہا تھا بادل گرج رہے تھے بجلی چمک رہی تھی او رپہاڑوں سے ٹکراکر تیز ہوائیں ڈرائونی آوا زپیدا کررہی تھیں مگر امام باڑے میں مجلسوں کا سلسلہ جاری تھا۔

تیسری مجلس کو مولانا سید مظاہر علی صاحب قبلہ خطاب فرمارہے تھے۔ اور چوتھی مجلس کو خطاب کرنے کے لیے خطیب اعظم دوجوانوں کے ہمراہ تشریف لے جارہے تھے کہ یکایک امیدوں کا چراغ بجھ گیا۔ یعنی قائد تحریک دینداری بانیٔ تنظیم المکاتب سرکار خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری صاحب طاب ثراہ اپنے مخلص اور وفادار ساتھیوں کو چھوڑ کرراہی جنت ہوئے۔(حوالہ: خطیب اعظم نمبر)

تاریخ وفات:

شب جمعہ ۹مئی ۱۹۸۵ء، مقام وفات میڈر ضلع پونچھ کشمیر۔

تجہیز و تکفین:

کشمیر سے بانیٔ تنظیم المکاتب کا جنازہ لے کر خادمان تنظیم المکاتب لکھنؤ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ پونچھ سے جموں تک بائی روڈ پھر جموں سے سیالدہ اکسپریس سے لکھنؤ۔ میت کو کشمیر میں بھی غسل وکفن دیا جاتا ہے اور تابوت میں رکھ کر یہ جنازہ لکھنؤ پہنچتا ہے۔ جہاں جم غفیر جنازے کا استقبال کرنے کے لیے موجود ہوتا ہے۔پہلے سے طے شدہ پروگرام کے حساب سے وطن بجنور میں والد مرحوم کے پہلو میں قبر تیار رہتی ہے۔سب سے پہلے جنازہ آبائی گھر لے جایاجاتا ہے جہاں اہلیہ، ہمشیرہ، بھائی آخری دیدار کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔

طلاب جامعہ امامیہ تادیر جنازے کے گر دتلاوت قرآن فرماتے ہیں۔ اور پھر نماز جنازہ باقتداء مولانا سید شمیم الحسن صاحب قبلہ ادا کی جاتی ہے۔اورجنازہ کربلائے بجنور کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ جہاں تلقین کے فرائض مولانا سید ظفر عباس صاحب الہ آبادی انجام دیتے ہیں۔

تیسرے دن مجلس سیوم کا انعقاد مسجد امامیہ بجنور میں کیاجاتا ہے جسے رئیس الواعظین مولانا سید کرار حسین واعظ طاب ثراہ نےخطاب فرماتے ہیں۔

مجلس چہلم بجنور ہی میں منعقد ہوتی ہے جسے علامہ جوادی طاب ثراہ خطاب فرماتے ہیں۔ اس طرح ملک وبیرون ملک میں مجالس ترحیم کا سلسلہ جاری رہتا ہے جس کی روداد خطیب اعظم نمبرمیں شائع ہوچکی ہے۔

بانی تنظیم کا مقبرہ:

قصبہ بجنور میں آپ کی لحد پر اولاً ایک ضریح بنائی گئی پھر بعدمیں وہاں مقبرہ تعمیر کیا گیا۔ 

مولانا سید غلام عسکری ہال:

پونہ میں بانیٔ تنظیم کے نام سے اور ضلع بنارہ بنکی میں بانیٔ تنظیم المکاتب کے نام سے مولانا سید غلام عسکری ہال تعمیر کئے گئے جو آج بھی یادبانی کے ساتھ بانیٔ تنظیم کے مشن کی پاسداری کررہے ہیں۔ 

خود ادارہ تنظیم المکاتب میں ایک ہال بانیٔ تنظیم المکاتب کے نام سے موسوم ہے جہاں آج بھی طلاب جامعہ امامیہ نماز جماعت، مجالس، محافل سے روح بانیٔ تنظیم المکاتب کو شاد رکھتے ہیں۔

سوانح حیات بانی تنظیم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .