۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
استاد شیخ یعقوب بشوی

حوزہ/رمضان المبارک کی مناسبت سے ، حجت الاسلام و المسلمین استاد شیخ یعقوب بشوی کے قرآنیات پر روزانہ درس بعنوان"قرآن کریم؛معاشرتی مشکلات اور ان کا حل"حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ(س)سے براہ راست نشر کیا جارہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام استاد شیخ یعقوب بشوی نے سورہ مبارکہ عصر کو عنواں درس قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں صبر ایک خاص اہمیت کا حامل موضوع ہے اور معاشرے کے مختلف امور میں صبر کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔

حجت الاسلام شیخ یعقوب بشوی نے کہا کہ سورہ مبارکہ عصر میں خداوند خسارت انسانی سے قسم کھاتا ہے لیکن آگے بڑھ کر صبر کی تلقین فرماتا ہے ،صبر ایمان کے بغیر بے معنی ہے ، یہی ایمان ہے جو صبر کے مادے کو پروان چڑھاتا ہے اور نیک اعمال ایمان کا نتیجہ ہیں۔

استاد جامعہ المصطفی نے مزید کہا کہ سورہ مبارکہ عصر میں خداوند متعال نے صبر کرنے کی وصیت اور تلقین فرمائی ہے اسے اس موضوع کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ، ہمارے دینی امور میں ایک وصیت خاص ہے جیسا کہ کوئی دنیا سے انتقال کر جانے والا ہو تو وہ وصیت کرتا ہے لیکن "وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ" زندہ رہنے والے تمام انسانوں کیلئے ہے۔

حجت الاسلام استاد بشوی نے صبر کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صبر انسانی ارادوں کو مستحکم کرتا ہے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں میں انرجی کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ مل جاتا ہے اور صبر کرنے والے افراد کیلئے زندگی میں پیش آنے والی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں۔

انہوں نے سورہ مبارکہ بقرہ کی آیت نمبر 177"وَالصَّابِرِینَ فِی الْبَاٴْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِینَ الْبَاٴْسِ اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُتَّقُون"کے ذیل میں بیان شدہ صابرین کی نشانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قرآن نے اس آیت میں صابرین کی تین اہم نشانیوں کی طرف اشارہ کیا ہے،ہمیں کہاں کہاں صبر کرنا ہوگا؟

صابرین کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ فقر و تنگدستی میں صبر کرتے ہیں،فقر و تنگدستی کی وجہ سے ہمارا ایمان کمزور نہ ہونے پائے۔

صابرین کی دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ ضرر و زیاں میں صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں ، آیت میں لفظ "وَالضَّرَّاءِ" آیا ہے ، اس کا ایک مطلب، جسمانی،مالی اورجانی نقصان سمیت اولاد کا والدین سے بچھڑنا ہے،ان نقصانات کا تحمل بہت ہی مشکل مرحلہ ہے۔

لفظ "وَالضَّرَّاءِ" کا ایک مطلب، بیماری،درد و الم اور زخم ہے اور ان مواقع پر صبر کا دامن تھامے رکھنا،مصیبت پر صبر کی مانند ہے اور انسان کو کامیابی عطا کرتا ہے۔

صابرین کی تیسری نشانی یہ ہے کہ وہ حق و باطل اور جنگوں میں صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں،"وَحِینَ الْبَاٴْسِ"جنگ کے دوران صبر کا مظاہرہ کرنا بہت ہی اہم مسئلہ ہے،آیت مجیدہ میں لفظ "بَأْسْ"سے مراد جنگ کی شدت ہے۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہوئی ہے ، مولا فرماتے ہیں:عَنْ عَلِيٍّ قَالَ:"كُنَّا إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ وَلَقِيَ الْقَوْمُ الْقَوْمَ اتَّقَيْنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا يَكُونُ مِنَّا أَحَدٌ أَقْرَبَ إِلَى الْقَوْمِ مِنْه.ُ"جب جنگ کی شدت میں اضافہ ہوتا تھا تو ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی پناہ لیتے تھے ، اس حدیث سے رسول اکرم (ص) کی شجاعت اور الہی شخصیت سمجھ آتی ہے۔لہذا اس آیت کریمہ سے صابرین اور اہل استقامت کی نشانیاں واضح ہو جاتی ہیں۔

جاری ہے۔۔۔
 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .