۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
بشارالاسد

حوزہ/ بشارالاسد کے دور اقتدار میں شام نے کبھی بھی اسرائیل کو نہ فقط تسلیم کیا بلکہ پورے مشرق وسطی میں صرف ایران اور اس کے حمایتی ممالک جس میں شام سر فہرست ہے نے اسرائیل کے خاتمے کے لئے مقدور بھر اقدامات اٹھائے

تحریر: عاشق حسین یتو، سیکرٹری عروۃ الوثقٰٰى ویلفیر ٹرسٹ جموں و کشمیر

حوزہ نیوز ایجنسی لگتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی طرح چند شاطر امت سوشل میڈیا ایکٹویسٹس کےسروں پر  بھی بشارالاسد کا بھوت سوار ہو گیا ہے۔اگر وہ خود کو قلم کاروں میں شمار کرتے ہیں تو ان کو  صحافتی ضابطہ اخلاق سے بھی آشنا ہونا چاہئے۔اور ساتھ ہی ساتھ اس وقت کے عالمی میڈیا کی کارستانیوں پر بھی نظر ہونی چاہئے۔اور خبر کی تصدیق یا تردید اور اسے مزید  مشتہر کرنے سے قبل اس کی صداقت اور اعتباریت کے متعلق تحقیق و جستجو کرنی چاہئے۔لیکن آپ ہے کہ ادھر شام میں نہتے مظلوم عوام پر کیمیائی حملہ ہوا نیز ادھر پہلی ہی فرصت میں ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو نے شامی صدر کے خلاف مہم شروع کی اور ادھر آپ اسی مہم کا حصہ بن گئے۔حالانکہ اس حوالے سے قرآن کریم کا واضع فرمان ہےـأَيُّهَاٱلَّذِينَءَامَنُوٓاْ إِن جَآءَكُمْ فَاسِقُۢ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوٓاْ أَن تُصِيبُواْ قَوْمَۢا بِجَهَـٰلَةٍفَتُصْبِحُواْ عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَـٰدِمِينَ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو1 اب ذرا ۤپ دل پر ہاتھ رکھ کر کہوکیا ڈونلڈ ٹرمپ سے بڑھ کوئی اس دور کو رئیس الفاسقین ہو سکتا ہے۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ شام میں قتل عام ہو رہا ہے۔ لیکن یہ ثابت کرنا نہایت ہی مشکل ہے  کہ فریقین میں سے محض ایک فریق اس قتل عام میں ملوث ہے اور دوسرا فریق دودھ کا دھلاہے۔معاملہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ اگر  آپ اس معاملے کو سمجھنا بھی چاہو گے تو  آپ کی  سطحی نگاہ الجھ کر رہ جائے گی۔

مشرقی غوطہ کے متعلق جو اس وقت عالمی میڈیا میں ہنگامہ آرائی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔  اس کا استعمال اسے قبل حلب کے حوالے سے بھی کیا گیا۔اس لئے قبل اسکے ہم مشرقی غوطہ کی خون آشامی کو زیر بحث لائیں  حلب کی تباہی پر بھی ایک نظر ثانی کرنا ہوگی۔تاکہ تقابلی جائزے سے یہ پیچدہ معاملہ آپ کے لئے قدرے آسان ہو جائے۔

حلب شمال مغربی شام کا ایک شہر ہے جو زمانہ قدیم میں علم و فنون اور تجارت کامرکز تھا اسی کو حلب اسلامی لبادہ پہنے ہوئے دُشمنان اسلام نے تباہ و برباد کر دیا ۔اور امریکی سامراج کے ان مہروں نے حلب میں گزشتہ چھے سالوں کے دوران سفاکیت کے تمام ریکارڑ مات کر دئے ہے ۔ دُشمنان اسلام نے دُنیا کے وحشی ترین دہشت گردوں کو شام اور عراق میں اکٹھا کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا ۔انہیں ہر قسم کی امداد پہنچائی ۔ تاکہ اسلام جیسے امن پرور دین کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کر دیا جائے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس دہشت گرد گروہ کو ایک ایسا نام دیا گیا کہ جسے غیر تو غیر بعض اپنے بھی دھوکہ کھا گئے ۔اور انہوں نے بھی دولتِ اسلامی قائم کرنے کے لئے ان ہی دہشت گردوں سے امیدیں وابسطہ کر دیں۔لیکن یہ بات کسی بھی عصری بصیرت رکھنے والے فرد سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ داعش امریکہ و اسرائیل کی پیدائش ہے ۔ سعودی عرب ،قطر ،اردن اور ترکی جیسے مسلمان ملکوں نے اسے ہر طرح کی مالی و عسکری معاونت سے پروان چڑھایا ۔ مزکورہ ممالک کو داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں سے بڑی امیدیں وابسطہ تھیں ۔

اب جبکہ ان کرایہ کے قاتلوں کو حلب سے کھدیڑا گیا تو  ان کے حوالی موالی واویلا کرنے لگے ہیں ۔مغربی میڈیا کو اپنا ماخذ بنا کر شام علی الخصوص حلب کی ساری تباہی اور قتل و غارت گری سرکاری فوج،روسی فضائیہ اور حزب اللہ کے جنگی رضا کاروں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔شام تو گزشتہ چھے سات سالوں سے جل رہا ہے ۔ اور یہ آگ ان دہشت گردوں کی لگائی ہوئی ہے جو قریب قریب اسی (۰۸) ممالک سے آکر شام پر حملہ آورہوئے ۔ لیکن داعش جیسی سفاک ترین دہشت گرد تنظیم سے ہمدردی رکھنے والے اب جا کے شام پر ماتم کناں نظر آ رہے ہیں۔ انہیں اب مجروح انسانیت کی فکرمندی لاحق ہو رہی ہے۔ شامی فوج حلب میں داخل کیا ہوئی تھی کہ اس قسم کے افراد نے شور مچا نا شروع کیا تھاکہ وہاں نسل کشی ہورہی ہے۔ بچے مارے جارہے ہیں۔ عورتوں کی عفت تار تار ہو رہی ہے۔ عمارتوں کو زمین بوس کیا جارہا ہے۔ اس مطلب یہ ہوا کہ داعش اور اس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کا حلب پر قبضہ سراسر رحمت ہی رحمت تھا ۔ ان کا سایہ حلب سے کیا اٹھا کہ وہاں مختلف قسم کی آفتیں نازل ہوئیں۔چلئے مان لیا کہ بشارالاسد کی فوج اپنے ہی ہم وطن، ہم مذہب بلکہ ہم مسلک لوگوں کا قتل  عام میں ملوث ہے کیونکہ ان کی گولہ باری سو فی صد اندھی ہے ۔ لیکن یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا داعش کی گولہ باری سے کوئی نقصان نہتے شامی عوام کو نہیں ہوا۔ کیا ان کی گولی صرف اور صرف مخالف فوجی کے ہی بدن سے گزرتی ہے اور سویلین کے بدن کو نہیں چھوتی؟ حالانکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان کے پاس جو ہتھیارتھے وہ بھی کچھ کم تباہی والے نہ تھے۔ انہوں نے جو کم سن بچوں تک کے گلے کاٹے ۔ لوگوں کو زندہ جلا ڈالا ۔ تاریخی اور ثقافتی عمارتوں اور آثار کا تخت و تاراج کیا۔ جہاد النکاح کی آڑ ہزاروں خواتین کی عصمت و عفت کو پائمال کیا ۔ عورتوں کوجبری طور اغوا کر کے اور انہیں کنیزیں بنا کر سرِ بازر بیچا گیا۔ کنیزوں کی با ضابطہ منڈیاں لگائی گئیں۔اولیا ءاللہ کے مزارات منہدم کر دئیے حتیٰ ایک صحابہ کا جسدِ مبارک قبر سے باہر نکالا۔ اس کے بارے میں ان انسانیت کے دہائی دینے والوں نے اب تک کیوں مہر  خاموشی اپنی زبانوں پر لگارکھ  تھی۔ کیوں ان کے قلم کی روشنائی جیسے سوکھ چکی تھی، اور جوں ہی ان کرایہ کے قا تلوں کو شام سے مار بھگایا گیا تو اب جا کے ان کی نیند ٹوٹ گئی۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قلمی اور زبانی بین و ماتم دراصل داعش کے خاتمے کا درد بیان کر رہا ہے۔

یہاں پر غور طلب بات یہ ہے کہ اگر بشارالاسد کی فوج کا واحد مدعا و مقصد اپنے ہی ہم وطنوں کو خاک و خون میں غلطان کرنا ہی ہے تو حلب شامی فوج کے دوبارہ مکمل کنٹرول کے بعد وہاں زیادہ سے زیادہ خونریزی ہونی چاہئے۔  خوف کے مارے وہاں سے نقل مکانی کرنے والے باشندوں کو حلب کا رخ نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حلب پر حکومت شام کے دوبارہ کنڑول کے بعد نہ صرف مہاجرین حلب جوک در جوک واپس لوٹ گئے بلکہ شہری ہلاکتوں کی کوئی خبر اسرائیل اور امریکہ کے پروردہ عالمی میڈیا کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی ہے۔

مغربی زرائع ابلاغ کی جھوٹی جبروں کو سچ ماننے والو !کیا آپ نے راز کو فاش کرنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ کیوں کیمیائی اور زہریلے بموں کا استعمال باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ہی ہوتا ہے؟اور پھر کیوں اسرائیل اور امریکہ بغیر چھان بین کے ابتدائی فرصت میں ہی بشارالاسد اور اس کے حامیوں کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے؟جبکہ امکانات کے دائرے سے فریقین میں سے کوئی بھی فریق بیک جنبش قلم باہر نہیں کیا جاسکتا ہے۔اور پھر یہ کھیل عین اس وقت کھیلا جاتا ہے کہ جب شامی فوج فاتحانہ انداز میں کسی علاقے کو کرایہ کے دہشت گردوں سے صاف کرنے کے آخری مرحلے پر ہوتی ہے۔

آپ کو معلوم ہے کہ بشارالاسد کی پوزیشن اس جنگ میں اس وقت کافی مضبوط ہے۔اور کوئی بھی منطق اسے اجازت نہیں دے گی کہ وہ خواہمخواہ اپنے ہی عوام پر کیمیائی بم برسا کر عالمی سطح پر اپنے ساخت کو خراب کرے اور اپنی جیتی ہوئی بازی مفت میں ہار دے۔اور بقول آپ کے اگر بقولِ آپ کے اسے انسانی خون بہانے میں لذت محسوس ہوتی ہے تو باغیوں کے زیر قبضہ علاقہ دوما کے بجائے وہ ان کیمیائی بموں کا استعمال حلب اور دمشق پر کیوں نہ کرے؟ 

کیا وجہ ہے ایک طرف دوما میں بے گناہ شہری مارے گئے تو عین اسی وقت اسرائیل نے شام کی آئر بیس پر حملہ ہوائی حملہ کیا؟

یہ چند ایک جواب طلب سوال ہے ۔ جنکا جواب آپ کو دینا ہوگا۔

شام میں اگر بشارالاسد کی ڈکٹیٹر شپ کا مطلوب و مقصود تھا تو یہ کام شامی عوام کی اکثریت ہی کر سکتی تھی جیسا کہ تیونس ،یمن ، مصر، لیبیا وغیرہ میں کیا گیا ۔ کیا بشارالاسد مصر کے حسن  مبارک سے بھی زیادہ مضبوط حکمران ہے ؟ جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ تو پھر جب حسن  مبارک عوامی ریلے کے سامنے نہ ٹک سکے بشارالاسد کیسے جم سکتے تھے۔ بالفرض شامی عوام ایک آمر کے خلاف جمہوری روش اختیار کر کے میدان میں آگئے تو پھر دنیا بھر سے دہشت گردوں کو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی۔ انہیں بھاری بھرکم اسلحہ اور ہر قسم کی تربیت فراہم کرنے میں کون سی مصلحت تھی؟اور اگر ڈکٹیٹر شپ ہی مغضوب و معتوب ہے تو سعودی عرب جیسی آمریت کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکتی ہے۔بو العجبی دیکھئے اسی اعلیٰ ترین آمریت کو اپنے سے کم تر آمریت کا وجود برداشت نہیں ہو رہا ہے۔

لہٰذا یہ جو بظاہر جمہوریت اور اقتدار کی منتقلی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کے پسِ پردہ عالمِ استعمار کے کچھ مفادات اور مقاصد کار فرما ہیں۔چنانچہ مغرب میں عوام بے راہ روی ، ہوس پرستی سے تنگ آگئے ہیںاور دین اسلام کی طرف ان کا رجحان بڑھتا ہی چلا جارہاہے اور اہل مغرب کے لئے یہ بات موت سے کم نہیں ہے کہ اُنہوںنے ایک مکارانہ پالیسی کو اپناتے ہوئے عالمِ اسلام میں ایسے دہشت گرد گروہوں کو ایجاد کیا جن کو دین کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہے ان کوبرین واش کرکے شدت پسندی کے لئے ابھارا گیا۔ عالمی طاغوت اس بات سے واقف ہے کہ اسلام کو اگر کفرکے ساتھ لڑایا جائے تو حقیقت میں جیت اسلام کی ہی ہوگی پس اس نے ایک نئی ترکیب اسلام کو بدنام کرنے اور عالمِ اسلام کو برباد کرنے کے لئے مرتب کی ۔ اور وہ ترکیب ہے گھر کے بھیدی سے لنکا ڈھانا۔ اسی لئے ایسی تنظمیں وجود میں لائی گئیں کہ جن کو اسلام کے ساتھ دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ مثلاً داعش ، بوکو حرام، القاعدہ ،  وغیرہ ۔تاکہ درونِ خانہ ہی جنگ چھیڑدی جائے اور اس طرح اسلام کی حقیقی شبیہ کو مسخ کرنا نہایت ہی آاسان ہو۔

دوسری اہم بات جو ان داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو وجود میں لانے کا محرک بنی وہ اسرائیل کا تحفظ اور اس کے دشمن ممالک کی تباہی ہے۔ اس حقیت سے مفر شیخ پرویز کیا اس کے پیروں اور مرشدوں کے لئے بھی ممکن نہیں ہے کہ بشارالاسد میں لاکھ برائیاں سہی لیکن اس میں ایک خوبی ضرور ہے کہ یہ اسرائیل اور امریکہ کے سرفہرست دشمنوں میں سے ایک ہے۔ اس حوالے سے آپ لوگوں کی منطق بھی نرالی ہے۔ ترکی کا سفارت خانہ اسرائیل میں موجود ہے اس کے تمام تر سفارتی اور کارو باری  تعلقات اسرائیل کے ساتھ استوار ہے ۔ 2002 میں بر سر اقتدار آنے کے بعد  طیب اردگان نے2005ء میں اسرائیل کا دورہ کیا اور اسرائیلی حکومت کو برابری کی سطح  پر تعلقات رکھنےاور مشرق وسطیٰ کو پرامن بنانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کی دعوت دی۔اس کے بدلے میں اسرائیل نے مئی 2010 میں غزہ کی جانب جانے والے فریڈم فوٹیلا نامی امدادی قافلے پر حملہ کر کے اس میں سوار دس ترک باشندوں کو ہلاک کردیا جسے اسرائیل اور ترکی کے مابین تعلقات میں قدرے سرد مہری آگئی۔لیکن آپ شاید اس بات سے بے خبر ہی ہوں گے کہ رجب طیب اردگان نے اسرائیل کے ہاتھ فریڈم فوٹیلا کے شہیدوں کا خون بھی فروخت کردیا ۔اور محض دو سو میلین امریکی ڈالر ان شہیدوں کے مقدس خون کی قیمت مقرر ہوئی۔اور اس طرح ہم شکل لنگوٹیا یار کے ساتھ پھر سے علی الاعلان رسم و راہ محبت استوار کئے۔ حالانکہ میرے اور آپ کے ساتھ ساتھ علامہ اقبالؒ نے قبل از وقت اردگان سے بھی مخاطب ہو کر کہ  تھا کہ

ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
علامہ اقبال
 
برعکس اس کے بشارالاسد کے دور اقتدار میں شام نے کبھی بھی اسرائیل کو نہ فقط تسلیم کیا بلکہ پورے مشرق وسطی میں صرف ایران اور اس کے حمایتی ممالک جس میں شام سر فہرست ہے نے اسرائیل کے خاتمے کے لئے مقدور بھر اقدامات اٹھائے اس سلسلے میں حماس کوایران سے مالی عسکری امداد ملتی تھی وہ شام کے ذریعے سے ہی ملتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی آنکھ میں  شام کانٹے کی طرح کھٹکتا آرہا ہے۔ اور اسے تباہ و برباد کرنے کے لئے یہ سارا کھیل کھیلا گیا۔اسرائیل کے طیب اردگان جیسے گفتار کے غازیوں سے کوئی خدشہ کیوں ہو اسے تو بشارالاسد جیسے "شازشیوں" سے خطرہ لگا رہتا ہے۔ اور آپ کی منقطق اس لحاظ سے بھی نرالی ہے۔ کہ اردگان کی اسرائیل نوازی کے باوجود بھی وہ مسلمانوں کا سب سے بڑا خیر خواہ ہے اور بشارالاشد کی مبینہ اسرائیل دشمنی کے باوجود بھی وہ اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا غدارہے۔۔۔؟

تبصرہ ارسال

You are replying to: .