۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
ماہ رمضان المبارک کے بارھویں دن کی دعا

حوزہ/منتخب پیغام:️پرده‌پوشی خدا کی صفات میں سے ایک صفت ہےاور خدا نے ہمیں بھی اسکی دعوت دی ہے۔ امام علیؑ فرماتے ہیں: «طُوبَی لِمَنْ شَغَلَهُ عَیْبُهُ عَنْ عُیُوبِ النَّاس؛ کتنا خوشبخت ہے وہ شخص کہ جو اپنے ہی عیوب پر نظر رکھتا ہے اور دوسرں کے عیوب سے اسے کوئی سروکار نہیں ہے۔!»

حوزہ نیوز ایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

ماہ رمضان المبارک کے بارھویں دن کی دعا

ماہ رمضان المبارک کے بارھویں دن کی دعا/دعائیہ فقرات کی مختصر تشریح

أَللّـهُمَّ زَيِّـنّى فـيهِ بِالسِّـتْرِ وَ الْعَـفـافِ وَ اسْتُرْنى فيهِ بِلِباسِ الْقُنُوعِ وَ الْكَفافِ وَ احْمِلْنى فيهِ عَلَى الْعَدْلِ وَ الاِنْصافِ وَ آمِنّـى فيـهِ مِنْ كُلِّ ما أَخـافُ بِعِصْمَتِكَ يا عِصْمَةَ الْخآئِفينَ۔

ترجمہ : اے معبود! مجھے اس مہینے میں پردے اور پاکدامنی سے مزیّن فرما، اور مجھے کفایت شعاری اور اکتفا کا جامہ پہنا دے، اور مجھے اس مہینے میں عدل و انصاف پر آمادہ کردے، اور اس مہینے کے دوران مجھے ہر اس شئی سے امان دے جس سے میں خوفزدہ ہوتا ہوں، اے خوفزدہ بندوں کی امان۔

اہم نکات

۱)آلائش سے پاک آرائش؛۲)قناعت وبے نیازی کا پردہ؛۳)عدل و انصاف؛۴)آفات و بلیات سے امن و امان۔

دعائیہ فِقرات کی مختصر تشریح

۱– أَللّـهُمَّ زَيِّـنّى فـيهِ بِالسِّـتْرِ وَ الْعَـفـافِ:

حجاب یعنی لوگوں کے گناہوں کی پردہ پوشی اور اسے مخفی کرنا،خوش قسمت ہے وہ بندہ جو اپنے عیب تلاش کرتا ہے اور دوسروں کے عیب کی پروا نہیں کرتا اگر اس کا دوست بھی عیب رکھتا ہوتو وہ کسی کو نہیں بتاتا کتنا بہتر ہے کہ انسان دوسروں کی اچھائیوں کو بیان کرے اور ان کے عیب سے سروکار نہ رکھے یہ بہترین زینت ہے حدیث میں ہے کہ خوش نصیب ہے وہ شخص جو اپنے عیب کی فکر کرتا ہے دوسروں کے نہیں ، دعا کے تسلسل میں عفاف و پاکدامنی آیا ہے عفاف یعنی گناہ نہ کرے اور اپنے نفس کو آلودگی سے پاک رکھے، دوسروں کے گناہ بیان نہ کرنا عفاف و پاکدامنی ہے، اگر ہم دوسروں کی اچھائی اور اپنے عیبوں پر نظر رکھیں تو پورا معاشرہ سدھر جائے ، اگرانسان اپنے عیوب کی جانب توجہ دے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرے تو دوسروں کے عیوب و نقائص کی جانب متوجہ ہی نہیں ہوگا اور نہ ہی اس گناہ کا مرتکب ہوگا کیونکہ ایسی حالت میں وہ نہ صرف دوسروں کی عیب جوئی کے بارے میں رغبت پیدا نہیں کرے گا بلکہ اسے اپنے عیوب کی اصلاح کی فکر ہوگی اور اس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں بچے گا کہ وہ دوسروں کے عیوب تلاش کرے۔

پیغمبراسلام 1سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے عیوب اسے مومنین کے عیوب تلاش کرنے سے روک دیں۔ امیرالمومنین حضرت علی Aاہل ایمان کے صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مومن صرف اپنے عیوب کی فکر میں رہتا ہے اور دوسروں کے عیوب کی تلاش و جستجو سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے۔ ۔۔

۲– وَ اسْتُرْنى فيهِ بِلِباسِ الْقُنُوعِ وَ الْكَفافِ:

کفاف یعنی یہ کہ سادہ زندگی گذاریں اگر مال و ثروت زیادہ ہو، اسیر و گرفتار ہونے کا خطرہ ہے اور اگر کم ہو ( کسی کے سامنےہاتھ دارز کرنا رسوائی کا باعث ہے) تو ذلت کا خطرہ ہے اس لئے خدا سے چاہتے ہیں کہ کفاف و سادہ( جتنی چادر ہے اس پر اکتفا کرے اس باہر پیر نہ پھیلائے) زندگی کریں خدا سے التجا کرتے ہیں کہ سادہ زندگی کی توفیق دے ۔

قناعت سے انسان عزتمند ہوتا ہے قناعت یعنی جو ہے اس پر راضی رہنا اور طمع و لالچ کو اکھاڑ پھیکنا، اگر بے جا خواہشات کو انسان اہمیت دےتو انسان حرص کے چنگل میں پھنس کر بدبو داردنیا میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اس دلدل سے بچنے کے لئے جنتا بھی ہاتھ پیر مارے مزید دھنستا ہی جاتا ہے اس کا نتیجہ ظاہر ہے نفس کی آرزوئیں ایسے کنویں کی طرح ہیں جو کبھی بھرتا نہیں "تکاثر و کثرت طلبی ایسا درد ہے جوبشریت کے لئے ناسور زخم تھا اور ہے اور اس کا تنہا مرہم "قناعت " ہے؛امام جعفر صادق A فرماتے ہیں: وَ مَن قَنَعَ بِالمَقسُومِ اِستَراحَ من الَهمِ وَالکَرْبِ وَالتَّعبِ؛جو شخص اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر قانع ہوجائے تو وہ غم، سختی اور تکلیف سے نجات پاجاتا ہے[1]۔امیرالمومنین علی A نے فرمایا: اقنعوا بالقلیل من دنیاکم لسلامۃ دینکم؛اپنی دنیا میں سے کم پر اکتفا کرو تاکہ تمہارا دین بچ جائے[2]،امیر المومنین Aفرماتے ہیں:لا اَعَزَّ مِنْ قَانِعِ؛ کفایت شعار سے بڑھ کر کوئی شخص عزت دار نہیں ہے[3]۔

۳– وَ احْمِلْنى فيهِ عَلَى الْعَدْلِ وَ الاِنْصافِ:

دعا کے سیاق کی بنا پر عدل کے معنیٰ یہاں زندگی میں میانہ روی کے ہیں؛جو کوئی اپنی زندگی کو افراط و تفریط سے بچائے رکھے وہ خطِّ عدل پر ہے،زندگی کے اقتصادی معاملات میں ہمیں میانہ روی اختیار کرنا چاہیئے۔۔۔اگر مسلسل سعی و کوشش کے بعد بھی آمدنی زیادہ نہ ہو تو اس صورت میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کا حل یہ ہے کہ اپنی مختصر آمدنی عقلمندی سے خرچ کیجئے زندگی کوسادہ سے سادہ تر بنائیے ۔ اپنی ضرورتوں کو محدود کیجئے اس طرح زندگی شیریں اور لذت بخش ہوجائے گی ۔ یہ جان لیجئے کہ اکثر پریشانیاں بلند و بالا آرزوں اور اقتصادی شعور نہ ہونے کا نتیجہ ہیں ۔امام صادق A نے فرمایا :جو شخص اعتدال کو اپنائے میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ وہ کبھی بھی فقیر نہیں ہو گا[4]۔ا یک اور حدیث میں آپ Aنے ارشاد فرمایا:اقتصادی نظم و ضبط اور اقتصادی شعور انسانی زندگی کی تکمیل ہے[5]۔ امام محمد باقر Aنے ارشاد فرمایا :جو شخص معاشی زندگی میں اعتدال اور آمدنی و خرچ کا صحیح حساب و کتا ب نہ رکھتا ہو اس شخص میں کسی طرح کا کوئی خیر نہیں ہے[6]۔کتنا اچھا ہے اگر زندگی میں روپئے کا خزانہ نہیں ہے تو قناعت کا خزانہ ہو ۔ کیونکہ:القناعۃ کنزلاینفد؛ قناعت نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے [7]۔

۴– وَ آمِنّـى فيـهِ مِنْ كُلِّ ما أَخـافُ:

اگر انسانی رویوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہمارے خوف کا سارا دار و مدار اس دنیائے فانی کے نفع و نقصان پر ہی ہے، دنیا کی ناکامی کا خوف، جان جانے کا خوف، دولت چھن جانے کا خوف اور دشمن کا خوف، یہ انسانی ذہن میں کلبلانے والے وہ وسوسے اور اوہام ہیں جو ہماری زندگی میں ایک بے یقینی کی کیفیت پیدا کرتے رہتے ہیں۔

مادی وسائل اور تعیشات اور دنیوی آسایشوں کے حصول کے باوجود ہر انسان دکھی ہے، زندگی سے بے زار لگتا ہے، آپس میں محبت ختم ہوتی جارہی ہے، رنجشوں اور عداوتوں نے دلوں کو اجاڑ دیا ہے، رشتے کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جاتے اور خاندان بکھر جاتے ہیں،آخر یہ ماجرا کیا ہے ۔۔۔۔۔ ؟ اس کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کو اپنے خود ساختہ اصولوں پر گزارنے کا رویہ اپنا لیا ہے، رب العزت کی ذات کو ہم نے بُھلا دیا ہے یہی انسانوں کی کھوکھلی زندگی کا شاخسانہ ہے، خوف خدا اور اللہ کی رحمت کی امید، یہ دونوں شامل حال ہوں تو راحت و اطمینان والی زندگی میسر آسکتی ہے، اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہے ہی نہیں !۔۔۔

۵– بِعِصْمَتِكَ يا عِصْمَةَ الْخآئِفينَ: اپنی عصمت و حفاظت میں رکھ اسے جو ڈرتا ہے یا خوف رکھتا ہے اور اس کی بھی حفاظت کرتا ہے جو روز متوسل ہوتا ہے ۔۔۔ خدایا میرے بارے میں اس دعا کو مستجاب کر۔۔۔۔۔۔۔

نتائج

دعا کا پیغام :1- عفت و پاکدامنی کی حفاظت؛2- قناعت سے کام لینا؛3- عدل سے کام لینا؛4- جس سے ڈرتے ہوں اس سے محفوظ رہیں۔

منتخب پیغام:️پرده‌پوشی خدا کی صفات میں سے ایک صفت ہےاور خدا نے ہمیں بھی اسکی دعوت دی ہے۔

امام علیؑ فرماتے ہیں: «طُوبَی لِمَنْ شَغَلَهُ عَیْبُهُ عَنْ عُیُوبِ النَّاس؛ کتنا خوشبخت ہے وہ شخص کہ جو اپنے ہی عیوب پر نظر رکھتا ہے اور دوسرں کے عیوب سے اسے کوئی سروکار نہیں ہے[8]۔!»


[1]– بحار الانوار، ج68، ص 349

[2]– غرر الحکم، ح 9075

[3]– غرر الحكم و درر الكلم، ح 9028

[4]– وسائل جلد۱۲ ص۴۱

[5]– وسائل جلد ۲ ص۴۲

[6]– وسائل جلد۲ ص۴۳

[7]– درج گہر ص۲۲۵

[8]– نوری، حسین مستدرک الوسائل ج ۱ ص ۱۱۶

تبصرہ ارسال

You are replying to: .