۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ آج! ہمارے دور میں بھی سن چالیس ہجری کے کوفیوں جیسے سینکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں افراد موجود ہیں جو ایک طرف علی اور اولاد علی علیہم السلام کی اطاعت و فرمانبرداری، محبت و تکریم اور ان پر مرمٹنے کا دعوٰی توی کرتے ہیں پر سماج میں موجود نسل سفیان کے ہاتھوں اپنا دین و ایمان بیچنے میں بالکل بھی نہیں جھجکتے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اہل بیت فاؤنڈیشن آف انڈیا کے نائب صدر حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید تقی عباس رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 21 رمضان 40ھ میں امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپ امامت و خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور اسی دن 40 ہزار سے زیادہ لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔ معاویہ نے آپ کی خلافت کو قبول نہیں کیا اور شام سے لشکر لے کر عراق کی طرف روانہ ہوا۔ امام حسنؑ نے عبید اللہ بن عباس کی سربراہی میں ایک لشکر معاویہ کی طرف بھیجا اور آپؑ خود ایک گروہ کے ساتھ ساباط کی طرف روانہ ہوئے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ معاویہ نے امام حسن کے سپاہیوں کے درمیان مختلف شایعات پھیلا کر صلح کیلئے زمینہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔

امیر شام کے نفاق و مکر وفریب اور رعب و وحشت کے تیر و تبر سے لوگوں کو مرعوب دیکھ کر امام حسن مجتبی علیہ السلام نے ناخواستہ صلح کی پیشکش کرکے ملت اسلامیہ کے اتحاد کا شیرازہ بکھرنے اور شیعیان حیدر کرار کے قتل عام ہونے سے بچالیا۔جیسا کہ خود امام فرماتے ہیں کہ :اگر میرے پاس ناصر و مدد گار ہوتے اور دشمن خدا (معاویہ بن ابوسفیان) کے مقابل میری نصرت و حمایت کرتے تو میں حسن بن علی ہرگز خلافت کی باگ ڈور معاویہ کے سپرد نہ کرتا اس لئے کہ خلافت بنی امیہ پر حرام ہے( شُبرَّ، سید عبدالله، جلاء العیون، ج ۱، ص ۳۴۶.)

جو لوگ اپنی کم علمی اور نا سمجھی پر امام حسن مجتبی علیہ السلام کے اس اقدام پر بے جا تنقید و تبصرہ اور شکوک و شبہات ایجاد کرتے ہیں انہیں صلح کے اسباب و محرکات کا غائرانہ طور مطالعہ کرنا چاہئے کہ امیر المومنین کی شہادت کے اسباب و علل اور اس کے بعد کوفہ کے نامساعد حالات قابلِ غور ہیں کہ اس وقت لوگوں میں امام وقت کی اطاعت و فرمانبرداری کا ذوق اور آپ کی حمایت میں شہادت کے شوق کا فقدان تھا. لوگ دنیا کے عوض امام عادل کا ساتھ چھوڑ کر باطل (معاویہ) کے ہاتھوں اپنی آخرت کو بیچ چکے تھے اور  مال کمانے میں حق و باطل اور جائز وناجائز کی تمیز بھول بیٹھے تھے... یہی نہیں بلکہ امام کے چاہنے والے معاویہ ابن ابوسفیان کی شہہ پر امام کے درپئے آزار ہوگئے تھے ... آپ پر تلوار کھینچ کر اپنی بے وفائی کا ثبوت دینے لگےاور معاویہ سے صلح کی پیشکش کرنے لگے تھے تو آپ نے معاویہ سے صلح کرکے متوقع خانہ جنگی کو ٹالا ۔

تاریخ اسلام میں آپ کایہ کارنامہ سنہری حروف سے لکھا گیا ہے اور ہر دور میں لکھا جانا چاہئے۔
حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے آپ کی استقامت فی الدین کا پتہ چلتا ہے، آپ نے اسلام کی سربلندی کے لئے ایسی قربانیاں دی کہ زمانہ میں اسکی مثال نہیں ملتی، اور آپ کی تواضع وجذبہ ایثار کا نتیجہ ہے کہ اُس زمانہ میں مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں اتحاد و یکجہتی کی فضا قائم ہے. 
آپ نے  امیر شام سے جن شرائط پر صلح کی اُن میں سب سے اہم یہ ہیں کہ معاویہ حکومتِ اسلام میں کتاب خدااور سنتِ رسول پر عمل کریں گے اور انھیں اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کرنے کا حق نہ ہوگا۔ 
شام وعراق وحجازویمن سب جگہ کے لوگوں کے لیے امان ہوگی۔ 
حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے اصحاب اور چاہنے والے جہاں بھی ہیں اُن کی جان ومال اور ناموس واولاد محفوظ رہیں گے ۔اور معاویہ بن ابوسفیان حسن ابن علیہ السلام اور ان کے بھائی حسین ابن علی علیہ السلام اور خاندانِ رسول(ص) میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان پہنچانے یاہلاک کرنے کی کوشش نہ کریں گے نہ خفیہ طریقہ پر اور نہ اعلانیہ اور ان میں سے کسی کو جگہ دھمکایا اور ڈرایا نہیں جائے گا۔لیکن ان شرایط، قرار داد اور اگریمنٹ کے کسی ایک شرط پر بھی معاویہ نے عمل نہیں کیا جسے  سارا عالم اسلام جانتا ہے اور تاریخ اسلام کا ہر ورق اس واقعہ کی عینی شاہد وگواہ ہے۔

آج! ہمارے دور میں بھی سن چالیس ہجری کے کوفیوں جیسے سینکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں افراد موجود ہیں جو ایک طرف علی اور اولاد علی علیہم السلام کی اطاعت و فرمانبرداری، محبت و تکریم اور ان پر مرمٹنے کا دعوٰی توی کرتے ہیں پر سماج میں موجود نسل سفیان کے ہاتھوں اپنا دین و ایمان بیچنے میں بالکل بھی نہیں جھجکتے...اگر یہ کہا جائے تو حق بجانب ہوگا کہ اسلام میں تمام فتنہ و فساد اور جرائم کی بنیاد بنی امیہ اور ان کے حواری ہیں جن کی بیخ کنی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .