۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا شمع محمد رضوی

حوزہ/ مدیر قرآن و عترت فاؤنڈیشن نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال میں تین سو ساٹھ یا تین سو پینسٹھ روز ہوتے ہیں لیکن ان تمام ایام میں جو فضیلت شب قدر کو حاصل ہے وہ کسی بھی شب کو حاصل نہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی نے شب ہائے قدر کے متعلق سے قرآن و عترت فاؤنڈیشن کے مطالب پیش کرتے ہوئے کہا کہ یوں تو تمام شب و روز خالق لم یزل کی قدرت کا منھ بولتا شاہکار ہیں،لیکن ان شب و روز میں کچھ روز وشب کچھ خاص اہمیت کے حامل ہیں، ہر روز اور ہر شب ایک جیسے نہیں ہوتے بلکہ ان کے درمیان فرق ہوتا ہے مثال کے طور پر روز غدیر،روز مباہلہ، روزعرفہ،لیلة المبیت،شب عاشور،شب معراج اور شب قدر وغیرہ، ان تمام ایام کو اگر غور وخوض کے ساتھ دیکھا جائے تو سب کے درمیان فرق نظر آئے گا یعنی ان تمام ایام کی ایک جیسی فضیلت نہیں ہے بلکہ ہر روز اپنے خاص فضائل اور ہر شب اپنی خاص خصوصیات کی حامل ہے اور اس کی دلیل ان راتوں اور دنوں کے اعمال ہیں، اگر تمام روز ایک جیسے ہوتے یا تمام راتیں ایک دوسری کی مانند ہوتیں تو سب کے اعمال بھی ایک جیسے ہی ہوتے،کچھ بھی فرق نہیں ہوتا ۔ایک سال میں تین سو ساٹھ یا تین سو پینسٹھ روز ہوتے ہیں لیکن ان تمام ایام میں جو فضیلت شب قدر کو حاصل ہے وہ کسی بھی شب کو حاصل نہیں۔

مولانا موصوف نے کہا کہ اگر اس شب کو''مَلِیْکَةُ اللَّیَالِیْ'' (یعنی تمام راتوں کی رانی)کے نام سے تعبیر کیا جائے تو واقعاً سراہنے کے قابل ہے۔شریعت اسلام میں اس شب سے بڑھ کر کوئی بھی شب نہیں ہے ،یہ شب اتنے زیادہ فضائل کی حامل ہے کہ نہ صرف یہ کہ قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں تذکرہ ہوا ہے بلکہ اس کے نام سے ایک مکمل سورہ (سورۂ قدر)نازل ہوگیاکہ جس کوسورۂ اناانزلناہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔خداوندعالم کی نظر میں یہ شب اتنی زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ خود خداوندمتعال نے سوالیہ لہجہ اختیار کیا: (وَ مَاْ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ)۔(١)یعنی تم کیا جانو کہ یہ شب قدر کیاچیز ہے...!؟ خالق کائنات کا سوالیہ لہجہ عظمت شب قدر کو اجاگر کر رہا ہے کہ دیکھو شب قدر کو معمولی راتوں کی مانند معمولی سمجھ کر معمول کے مطابق ہی مت گذاردینا بلکہ اس کی فضیلت اور اس کی اہمیت کے مد نظر اس شب اور دیگر راتوں میں فرق ہونا چاہیئے، یہ پوری رات ذکر الٰہی میں بسر کرو،اگر تمہیں معلوم نہیں تو ہم بتائیںگے کہ شب قدر کی کیا فضیلت ہے؟(لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِنْ اَلْفِ شَھْرِِ)(٢)یعنی شب قدر، ہزار مہینوں سے بہتر ہے،گویا اگر ایک ہزار مہینوں کی (تقریباً تیس ہزار ) راتوںکو ایک جگہ جمع کر لیا جائے اور وہ تمام راتیں ایک ساتھ مل کر شب قدر کا مقابلہ کرنا چاہیں تو وہ شکست سے دوچار ہوںگی چونکہ شب قدرکوئی عام شب نہیں ہے بلکہ مَلِیْکَةُ اللَّیَالِیْ ہے۔

شب قدر کی خصوصیات :

اس شب کی خصوصیات پر نظر کی جائے تو اس شب میں ایسی ایسی خاصیتیں پائی جاتی ہیں کہ کسی اور شب میں دیکھنے کو نہیں مل سکتیں، خداوند عالم نے جس انداز سے اس شب کی خصوصیتوں کو بیان کیا ہے اس طرح کسی اور دوسری شب کی خاصیتوں یا فضیلتوں کو بیان نہیں کیا۔   ١  خداوندعالم اس شب کی خصوصیت بیان فرماتا ہے:(ِنَّا َنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةٍ مُبَارَکَةٍ ِنَّا کُنَّا مُنذِرِین)(٣) یعنی ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے، بے شک ہم عذاب سے ڈرانے والے تھے۔٢  شب قدر کی منزلت کو آشکار کرتے ہوئے فرمایا: (ِنَّا َنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ)(٤)یعنی ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا، مطلب یہ ہے کہ شب قدر اس اہمیت کی حامل ہے کہ ہم نے اس شب کو نزول قرآن کی خاطر مناسب سمجھا:  ........٣  انسان کی منزل ادراک کے مد نظر فرمایا: (وَ مَاْ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ)(٥)یعنی تم کیا جانو کہ یہ شب قدر کیا چیز ہے، گویا اس شب کی خاصیت یہ ہے کہ طائر فکر انسانی کی پرواز سے ماوراء ہے ،انسان کے جبریل تخیل میں اتنی قوت و طاقت نہیں کہ وہ شب قدر کی فضیلت کا ادراک کر سکے۔٤  جب انسان کی فکر سے ماوراء بتادیا تو اب خود سمجھاتا ہے کہ شب قدر کی فضیلت کیا ہے: (لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِنْ اَلْفِ شَھْرِِ)(٦)یعنی شب قدر، ہزار مہینوں سے افضل و بہتر ہے؛ اس مبارک فقرہ سے یہ آشکار ہوتا ہے کہ خالق کائنات کی نظر میں اس شب کی کتنی زیادہ اہمیت ہے۔....٥  نزول ملائکہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوا: (تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَ الْرُّوْحُ فِیْھَاْ بِاِذْنِ رَبَّھِمْ )(٧)یعنی(یہ وہ شب ہے کہ )جس میں ملائکہ اور روح القدس اپنے پروردگار سے اجازت لیکر نازل ہوتے ہیں،اس شب کی یہ خاصیت ہے کہ فلک نشین ملائکہ بھی زمین پر نازل ہوتے ہیں،لہٰذا ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ ملائکہ کا پرجوش استقبال کریں تاکہ وہ انگشت بدنداں رہ جائیں کہ خدا کے نیک بندے کتنی زیادہ عبادت انجام دیتے ہیں! ایسا نہ ہو کہ وہ کف افسوس ملتے رہ جائیں کہ جن بندوں کو خداوندعالم نے اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے وہ اپنے پروردگار کو کیسے بھول بیٹھے ہیں اور شب قدر جیسی عظیم شب میں بھی انہیں عبادت الٰہی سے زیادہ اپنی نیند عزیز ہے۔٦  شب قدر کو سلامتی کی رات بتاتے ہوئے ارشاد ہوا: (سَلَام ھِیَ حَتّیٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ)(٨).....یعنی یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے، گویا اس رات میں عذاب الٰہی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ؛ یہ بھی صرف اسی رات کی خصوصیت ہے کہ اس رات میں خداوندعالم نے اپنے بندوں کو اپنے قہروغضب سے امان دی ہے کہ دیکھو یہ رات مغفرت و استغفار کی رات ہے، اس رات میں سلامتی کا نزول ہوتا ہے ، ایسا نہ ہو کہ تم اپنے عمل کے ذریعہ اپنی اس سلامتی کو عذاب سے تبدیل کردو۔.....یہ آیات جو نذر قارئین کی گئیں یہ تمام آیتیں(ایک آیت کے علاوہ)سورۂ قدر کی آیات ہیںیعنی سورۂ قدر مکمل طور پر اس شب (شب قدر)کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی خاطر نازل ہوا ہے۔

قدر کا معنی :   

لغوی اعتبار سے قدر کے معنی ، اندازہ کرنے کے ہیں، اور قرآن کریم میں جو اس شب کو شب قدر کے نام سے یاد کیا گیا ہے شاید اس کا سبب یہ ہو کہ اس شب میں تمام لوگوں کے اعمال کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کس نے کتنے اچھے کام انجام دیئے اور کون کتنے برے افعال کا مرتکب ہوا؟۔بلکہ تمام کائنات میں رونما ہونے والے واقعات و حوادث کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس سال کتنے سیلاب آئیں گے،کتنے زلزلے آئیںگے، کون حیات پائے گا، کس کی ممات ہوگی، کون کتنا رزق پائے گا...وغیرہ، جیسے کہ ارشاد ربانی ہوتا ہے:( فِیْھَایُفْرَقُ کُلُّ اَمْرِِ حَکِیْمِِ)(٩)یعنی اس رات(شب قدر)میں تمام مصلحتوں اور حکمتوں کے امور کا فیصلہ ہوتا ہے، گویا یہ رات فیصلہ کن رات ہے کہ ہر شخص کی موت و حیات اور اس کے رزق و روزی اور کائنات میںرونما ہونے والے تمام واقعات کا فیصلہ کرتی ہے۔شب قدر کی بے شمار اہمیتوں کے مدنظر ،ایک سوال سر اٹھاتا ہے کہ شب قدر کوئی مخصوص شب تھی جو گذر گئی اور دور حاضرسے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، یا وہ شب آج بھی ہر سال آتی ہے؟۔اس کا بہترین جواب دینے کے لئے قرآنی آیا ت کا سہارا لینا ہوگا ، قرآن کریم میں بہت سی ایسی آیات ہیں کہ جن میں شب قدر کی فضیلت بیان ہوئی ہے اور ان میں فعل مضارع کا صیغہ استعمال ہوا ہے یعنی یہ شب ہمیشگی کی حامل ہے ،آج بھی آئی ہے اور کل کو بھی آئے گی،آئیئے اس کے نمونے ملاحظہ کیجئے:.....١۔ (تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَ الْرُّوْحُ فِیْھَاْ بِاِذْنِ رَبَّھِمْ )(١٠)

یعنی اس رات(شب قدر)میں ملائکہ اور روح القدس اپنے رب کی اجازت سے روئے زمین پر نازل ہوتے ہیں۔......٢۔ ( فِیْھَایُفْرَقُ کُلُّ اَمْرِِ حَکِیْمِِ)(١١) یعنی اس رات(شب قدر)میں تمام حکمت آمیز اور مصلحت خیز امور کے بارے میں فیصلہ ہوتا ہے۔ان دونوں آیتوں میں ''تَنَزَّلُ''اور''یُفْرَقُ''  دونوں صیغے فعل مضارع استعمال ہوئے ہیںیعنی یہ شب(شب قدر) ایسی شب ہے کہ جس میں دوام پایا جاتا ہے، جس طرح کل آتی تھی ایسے ہی آج آتی ہے اور ایسے ہی آئندہ کل کو آئیگی۔ان آیات کے علاوہ اگر روایات کی جانب نظر کریںگے تو اس کے متعلق روایتیں بھی نظر آئیں گی کہ ان میںسے نمونہ کے طور پر ایک روایت ملاحظہ ہو:''جناب ابوذر غفاری سے مرقوم ہے کہ میں نے رسول خداحضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ سے دریافت کیا:یا رسول اللہ! کیا شب قدر سے مراد وہی والی شب قدر ہے کہ جو انبیاء علیہم السلام کے زمانوں میں واقع ہوتی تھی،اور اب جب کہ وہ دنیا سے چلے گئے ہیں تو شب قدر بھی ختم ہوگئی چونکہ جوامر انبیاء الٰہی پر نازل ہوتا تھا اس کا بھی خاتمہ ہوگیا؟حضورۖ نے جواب میں ارشاد

فرمایا: نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ شب قدر کا وجود روز قیامت تک ہے'' ۔(١٢)ان آیات و روایات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شب قدر ، صرف دور قدیم سے مخصوص نہیں تھی بلکہ اس کا وجود آج بھی ہے اور کم سے کم سال میں ایک بار تا قیام قیامت آتی رہے گی۔........ملائکہ کا نزول کیسے؟اس منزل پر پہونچکر یہ سوال سر ابھارتا ہے کہ ملائکہ کیوں نازل ہوتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہوگا کہ بندوں تک خداوندعالم کا پیغام پہونچانے کے لئے نازل ہوتے ہیں۔ پھر سوال ہوگا کہ کس پر نازل ہوتے ہیں؟ اس کا جواب ہوگا کہ پیغمبران الٰہی پر نازل ہوتے ہیں۔پھر یہ سوال ہوگا کہ کیا ملائکہ، غیر نبی پر بھی نازل ہوسکتے ہیں؟ اس کا جواب ہوگا کہ نہیں وہ تو صرف انبیاء کرام پر نازل ہوتے ہیں۔پھر یہ سوال ہوگا کہ آیات و روایات کے مد نظر، شب قدر ہرسال آتی ہے اور شب قدر کی فضیلت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس میں ملائکہ نازل ہوتے ہیں، تو انبیاء الٰہی کے نہ ہوتے ہوئے کس پر نازل ہوتے ہیں؟۔ظاہر سی بات ہے کہ انبیاء الٰہی کے فقدان کی صورت میں ملائکہ کا نزول صرف ان شخصیتوں پر ہی ہوسکتا ہے کہ جنہوں نے تمام انبیاء الٰہی اور آخری پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ کی وفات پرملال کے بعد ان کی تمام ذمہ داریوں کو اپنے کاندھوں پر اٹھایایعنی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے جانشینوں پر نزول ملائک ہوتا ہے اور دور حاضر میں نزول ملائک کا محور و مرکز ، پردۂ غیب میں موجود، آخری وارث رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہہے۔(١٣).......

شب قدر کون سی رات ہے؟ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ شب قدر، سال میں ایک ہی رات کو کہا جاتا ہے، اور شیعہ وسنی کے نزدیک یہ بھی متفق علیہ ہے کہ یہ شب(شب قدر) ماہ رمضان المبارک میں واقع ہوتی ہے،اور اس کی دلیل قرآن کریم کی آیات ہیں، مثلاً ایک مقام پر ارشاد ہوا:(ِنَّا َنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ)(١٤)  یعنی ہم نے اس(قرآن)کو شب قدر میں نازل کیا۔یا دوسرے مقام پر ارشاد ربانی ہے:(شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ھُدًی لِّلنَّاْسِ وَ بَیِّنَاتِِ مِّنَ الْھُدَیٰ وَالْفُرْقَانِ)(١٥)یعنی ماہ رمضان،وہ ماہ مبارک ہے کہ جس میں قرآن کو نازل کیا گیاکہ جو لوگوں کے لئے ہدایت و رہنمائی اور دلیل ہے۔ان دونوں آیتوں نے یہ ثابت کردیا کہ قرآن کریم شب قدر میں نازل ہوا ہے ،اور ہمیں یہ پہلے سے ہی معلوم ہے کہ قرآن کریم ماہ رمضان المبارک میں نازل ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ شب قدر چاہے کوئی سی بھی رات ہو لیکن وہ ماہ رمضان میں ہی ہوگی اسی لئے تمام شیعہ وسنی فرقوں کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ شب قدر ماہ رمضان المبارک میں واقع ہوتی ہے۔لیکن اختلاف یہ ہے کہ ماہ رمضان المبارک کی کون سی رات ہے کہ جس کو شب قدر سے تعبیر کیا جاتا ہے!؟۔جب گفتگو اس شب کو معین کرنے کے مرحلہ میں پہونچتی ہے ، تو آئیئے شیعہ نظریات کا مطالعہ کریں کہ شب قدر کے بارے میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے کہ شب قدر کون سی رات ہے۔

مدیر قرآن و عترت فاؤنڈیشن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اہل تشیع کا نظریہ شیعوں کے نزدیک شب قدر، ماہ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں ہی واقع ہے لیکن ستائیسویں شب نہیں ہے بلکہ تیئیسویں شب ہے یعنی ماہ رمضان المبارک کی بائیس تاریخ گزرنے کے بعد جو شب آتی ہے اسے شب قدر کہا جاتا ہے۔حماد بن عثمان نے حسان بن علی سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ''شب قدر، تاقیام قیامت باقی ہے اور یہ شب ، ماہ رمضان المبارک میں آتی ہے''۔(١٨)شیعی روایات کے مطابق شب قدر، ماہ رمضان المبارک کی انیس،اکیس یا تیئیس تاریخ میں واقع ہوتی ہے، اور ان تاریخوں میں بھی تیئیسویں شب کو زیادہ ترجیح دی گئی ہے، روایت میں آیا ہے کہ ماہ رمضان المبارک کی انیسویں شب ،شب تقدیر ہے ،اکیسویں شب،شب استقرار ہے اور تیئیسویں شب، شب دستخط ہے۔(١٩)یعنی انیسویں شب میں تقدیر لکھی جاتی ہے ،اکیسویں شب میں لکھی گئی تقدیر کو معین و مستقر کردیا جاتا ہے کہ اب یہی رہے گا اور تیئیسویں شب میں اس پر دستخط کردیئے جاتے ہیں اور مہر لگ جاتی ہے کہ اب سال بھر تک کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، اس روایت کے مدنظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ شب قدر، کوئی ایک شب نہیں ہے بلکہ تین راتوںکے مجموعہ کا نام شب قدر ہے،اسی لئے شیعہ حضرات ان تینوں راتوں کو بہت محترم گردانتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک رات کو شب بیداری ،نماز،قرآن،دعااورمناجات میں بسر کرتے ہیںتاکہ زندگی کے تمام امور بخیر وخوبی انجام پائیں۔

ہمیں اس رات میں کیا کرنا چاہیئے؟

ہم اپنے رہنمائوں کی رہنمائی کے ذریعہ اس شب کی اہمیت و فضیلت کو سمجھیں کہ ہمارے ائمہ اور اولیاء الٰہی اس شب کو کتنا اہم شمار کرتے تھے اور اس شب میں کتنی عبادت و نماز اور دعا و مناجات بجا لاتے تھے ،ان کی احادیث کے ذریعہ ہم اس مبارک رات کو اپنے لئے مبارک ترین بناسکتے ہیں ، احادیث میں اس شب کی فضیلت اتنی زیادہ بیان ہوئی ہے کہ نوک قلم کے احاطہ سے خارج ہے، حمران سے مروی ہے کہ میں نے امام محمد باقرعلیہ السلام سے دریافت کیا: ''لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ اَلْفِ شَھْرِِ ''( یعنی شب قدر ہزار راتوں سے بہتر ہے )کا مطلب کیا ہے؟تو امام نے فرمایا: ''اَلْعَمَلُ الْصَّالِحُ فِیْھَامِنَ الْصَّلَاةِ وَالْزَّکَاةِ وَ اَنْوَاعِ الْخَیْرِ، خَیْر مِّنَ الْعَمَلِ فِیْ اَلْفِ شَہْرٍ لَیْسَ فِیْہِ لَیْلَةُ الْقَدْرِ''۔(٢٠)یعنی شب قدر میں کوئی عبادت انجام دینامثلاً نماز پڑھنا،زکات دینا یا دیگر کارخیر انجام دینا اُس عمل سے ہزار گنا افضل ہے کہ جو عمل شب قدر کے علاوہ کسی اور رات میں انجام دیا گیا ہو۔آخرکلام میں خداوندمنان سے دعا گو ہوں کہ پرورگارعالم! ہمیں شب قدر کی اہمیت و فضیلت کے ادراک کی توفیق عنایت فرما اور اس عظیم نعمت سے محروم نہ فرما،ہمیں توفیق دے کہ اس شب سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں۔ (آمین)۔

حوالہ :         

١۔ سورۂ قدر٢۔ ٢۔ایضاً٣۔ ٣۔ سورۂ دخان٣۔ ٤۔ سورۂ قدر١۔ ٥۔ایضاً٢۔ ٦۔ایضاً٣۔ ٧۔ ایضاً٤۔       ٨۔ایضاً٥۔ ٩۔ سورۂ دخان٤۔ ١٠۔ سورۂ قدر٤۔ ١١۔ سورۂ دخان٤۔ ١٢۔ تفسیر درالمنثور:ج٦،ص٣٧٢؛ تفسیر البرھان: ج٣٠،ص١٩٧۔١٣۔ پایگاہ اسلامی، شیعی رشد(www.roshd.org)۔ ١٤۔ سورۂ قدر١۔ ١٥۔ سورۂ بقرہ١٨٥۔    ١٦۔ حصن التوحید: ص٣٨۔   ١٧۔اسرارالصیام: ص٤٤١۔ ١٨۔تفسیر مجمع البیان: ص٩٥۔ ١٩۔ اصول کافی: ج٢، ص١٦٩۔ ٢٠۔ فروع کافی: ج٤، ص١٥٧،ح٦۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .