۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 368585
13 مئی 2021 - 05:34
مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی

حوزہ/ جس زمانہ میں لباس سے زیادہ کفن کی خرید و فروخت ہو تو ایسے ماحول میں عید منانے کو دل کیسے چاہے گا؟ ہم نے مسلسل کئی مہینے سے جنازوں پر جنازے دیکھے، شہر کے شہر آگ میں جھلستے ہوئے دکھائی دیئے، یہاں تک کہ دم توڑتی ہوئی انسانیت کی باگ ڈور ان ظالم ہاتھوں میں نظر آئی جو بظاہر حقوق انسانی کے دعویدار تھے لیکن ان کا دور دور تک انسانیت سے کوئی ناطہ نہیں تھا۔انسانیت کا خون پانی سے بھی سستا ہوچکا تھا اور جگہ جگہ لاشیں نظر آرہی تھیں اور ایسے ماحول میں ... پھر عید آگئی۔ 

تحریر: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی،مدیر ساغر علم فاؤنڈیشن دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی عید فطر امت مسلمہ کی وہ واحد عید ہے جس میں ہر مسلمان کا اپنے لئے اور اپنے اہل و عیال کے لئے نئے نئے کپڑے خریدنا طرّۂ امتیاز ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایک قدیمی سنت چلی آرہی ہے یہاں تک کہ امام حسن و امام حسین علیھماالسلام سے منسوب عید کا واقعہ بھی موجود ہے کہ ان دونوں شھزادوں کے لئے عید کی مناسبت سے جنت سے لباس آئے تھے۔
یہ ایسی عید ہے جس کے لئے ہر مسلمان بالخصوص مسلمانوں کے بچے سال بھر انتظار کرتے ہیں اور عید کی خوشیاں مناتے ہیں۔
عید فطر در حقیقت روزہ داروں کی عید ہوتی ہے کیونکہ وہ پورے ایک مہینہ اپنے معبود کی راہ میں اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں تو ان کی خوشی کے لئے عید مقرر کی گئی۔

ایک سوال یہ ہے کہ یہ عید کس کی ہے؟
اگر نئے لباس پہننے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو صاحبانِ مال و ثروت کی ہر روز عید ہے اور فقیر و نادار کی عید کے روز بھی عید نہیں ہے اسی لئے شریعت نے فطرہ کا حکم دیا ہے کہ فقراء و مساکین بھی اس روز خوش ہوجائیں۔
اگر شرعی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو "جس روز انسان سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو وہی دن عید کا دن ہے" اس تناظر میں اگر عید کے روز بھی گناہ میں ملوث ہوجائیں تو پھر عید کا دن بھی عید کا دن شمار نہیں کیا جاسکتا۔
فطرت انسانی کا تقاضہ ہے کہ اپنے قرب و جوار میں خوشگوار ماحول ہونا چاہیئے تبھی عید کی خوشیاں منانے کو جی چاہتا ہے لیکن پچھلے سال کی مانند امسال بھی کرونا جیسی مھلک وبا کے ذریعہ عالم انسانیت کے دل پر دہشت کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
جس زمانہ میں لباس سے زیادہ کفن کی خرید و فروخت ہو تو ایسے ماحول میں عید منانے کو دل کیسے چاہے گا؟
ہم نے مسلسل کئی مہینے سے جنازوں پر جنازے دیکھے، شہر کے شہر آگ میں جھلستے ہوئے دکھائی دیئے، یہاں تک کہ دم توڑتی ہوئی انسانیت کی باگ ڈور ان ظالم ہاتھوں میں نظر آئی جو بظاہر حقوق انسانی کے دعویدار تھے لیکن ان کا دور دور تک انسانیت سے کوئی ناطہ نہیں تھا۔انسانیت کا خون پانی سے بھی سستا ہوچکا تھا اور جگہ جگہ لاشیں نظر آرہی تھیں اور ایسے ماحول میں ... پھر عید آگئی۔  آخر عید کیسے منائی جاسکتی ہے جہاں ہمارے ہمسائے غمگین ہوں، جہاں ہمارے بھائی سوگوار ہوں...!!. کسی نے باپ کا غم دیکھا کسی نے بھائی کاـ کسی نے بہن کا غم دیکھا کسی نے شوہر کا، کسی نے بیٹے کا غم دیکھا کسی نے ماں کا... کرونا نے عجیب ماحول پیدا کردیا ہے۔ عید کی خوشیاں بھی ادھوری ہوگئیں۔
عید کے موقع پر خداوند عالم سے یہی دعا ہے کہ پروردگار! مسیحائے عالم کا جلد از جلد ظہور فرما تاکہ ہر وبا سے نجات پاکر انسانیت اپنے مسیحا کے ساتھ عید مناسکے۔آمین یا رب العالمین۔ والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .