۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
نمائندہ ولی فقیہ ہندوستان کا پیغام عید

حوزہ/ ہندوستان میں نمائندہ ولی فقیہ حجت الاسلام والمسلمین جناب مہدوی پور نے پورے ملک کے مسلمانوں کے نام عید الفطر کی مناسبت سے پیغام جاری کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان میں نمائندہ ولی فقیہ حجت الاسلام والمسلمین جناب مہدوی پور نے مسلمانوں کے نام عید الفطر کی مناسبت سےاپنے پیغام میں سب سے پہلے عید الفطر کی آمد ہندوستان کے علما اور مؤمنین کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے امید ہے کہ آپ سب کی عبادات بارگاہ حق میں مقبول واقع ہوئی ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ در اصل عید الفطر کو عید کہنے کا فلسفہ یہ ہے کہ مؤمن رمضان المبارک کے مہینے میں روزے رکھنے کے بعدایک طرح کی نورانیت حاصل کرنے کے بعد عظیم توفیق اور کامیابی پر فائز ہو چکا ہوتا ہےاور اس کے ذریعہ اسے اپنے گناہوں سے پاکیزگی حاصل کرنے کا موقع مل چکا ہوتا ہے،اسی طرح نفس کے ساتھ جہاد اکبر میں کامیاب ہو چکا ہوتا ہےاور یہ شادمانی خوشی اور عید منانے کا باعث قرار پاتی ہے۔

نمائندہ ولی فقیہ ہندوستان نے کہا کہ اسلام میں ایک بڑی کامیابی کے بعد ایک عید آیا کرتی ہے لہذا یہ عید بھی ان مسلمانوں کو نصیب ہوتی ہےکہ جنہوں نے اپنے نفس کے ساتھ جہاد اکبر کیا ہوتا ہے اور اس کے سبب انھیں بڑی کامیابی ہوئی ہوتی ہے،یہاں پر کچھ پہلوؤں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے؛اول یہ کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہوئی ہے  جس میں آپ فرماتے ہیں کہ انسان کا اپنے عمل کو باقی رکھنا خود عمل سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے یعنی رمضان کے مہینے میں مؤمن نے جو نورانیت حاصل کی ہے اسے اگلے سال تک محفوظ رکھ سکے،یہ سب مناجاتیں، نالہ وفغاں، توبہ و استفغار اور یاد خدا جو اس نے رمضان کے مہینے میں انجام دیے ہیں انھیں محفوظ اور بحال رکھ سکے جوکہ بہت ہی اہم ماحصل شمار کیا جاتا ہےجبکہ ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو نیک اعمال انجام دیتے ہیں تاہم بعد میں اپنے گناہوں کے ذریعہ انہیں ضائع کردیا کرتے ہیں یا دکھاوے اور احسان جتانے کے سبب جو انفاق کیا ہوتا ہے اور ضائع کر دیتے ہیں۔

آقائ مہدوی پور نے کہا کہ یہ بڑی اہم بات ہے اور شیطان اس سلسلہ میں بہت مہارت رکھتا ہے وہ نہیں چاہتا ہے کہ مؤمن اپنے حاصلہ نتائج کو زندگی کے آخری لمحات  تک باقی رکھ سکے،دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ افسوس ہے ہم گذشتہ برس کی طرح اس سال بھی ہم کرونا جیس آفت میں مبتلا ہیں خاص کر ابھی ہندوستان کے حالات بہت نازک بنے ہوئے ہیں،اس ملک میں اس وائرس اور اس کی نوعیت نے توسیع حاصل کر لی ہےجس کی وجہ سے ہم سبھی ہندستان میں غم واندوہ میں مبتلا ہیں،ہر لمحہ ، ہرگھڑی ہندوستان میں سیکڑوں لوگوں، چاہیے وہ مسلمان ہوں یا ہندو یا کسی اور مذہب کے ماننے والے ہوں کے جاں بحق ہونے کے ہم شاہد ہیں جو کہ بہت بڑی آفت اور مصیبت کے علاوہ بہت بڑا خسارہ بھی ہے لہذا ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ ضرورتمندوں اور بیماری میں مبتلا افراد کی مدد کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اس سلسلہ میں کسی کو بھی استثنا نہیں چھوڑیں بلکہ قوم وملت، حکومت و ادارہ جات کوئی بھی گروہ ،انجمن یا این جی او ہو سب مل کرمدد کریں کیونکہ اس بابت سب کی شرعی ذمہ داری ہے جو معمولی نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری ہےکہ لوگوں کی جان بچانے کے لیے کوشش عمل میں لائی جائے۔

یہاں یہ بھی ذکر کردوں کہ ایسے موقع پر دعا کی بھی بڑی اہمیت ہےجس سے غافل نہیں ہونا چاہیے ،ان حالات میں اس سال بڑے اجتماعات اور پروگرام منعقد کیے جانے کا امکان نہیں ہے اور نہ ہی عید فطر کو لے کر پہلے کی طرف رسومات انجام دی جاسکتی ہیں،مجھے توقع ہے کہ اس کرونا وبا کا اس سال ضرور خاتمہ ہوجائے گا۔

یہاں پر ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس سرزمین میں کرونا کی وجہ سے لوگوں کے جاں بحق ہونے کے علاوہ دیگر دو پریشانیاں اور مصیبتیں وجود میں آئی ہیں جن میں سے ایک افغانستان میں انجام پائی ہے،افسوس کی بات ہے جس کو وجود میں لانے والے تکفیری اور جرائم پیشہ القاعدہ، طالبان اور داعش کے لوگ ہیں جنہوں نے ہزاروں بے گناہ افراد کو اپنے جنون آمیز اقدامات کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دیا ہے،انھوں نے اپنے حالیہ مجرمانہ اقدامات کے تحت بے گناہ اور معصول طالبات کے اسکول اپنی بربریت کا نشانہ بنا کر انھیں موت گھاٹ اتار دیا لہذا ظلم اور فساد کی ان جڑوں کے خاتمہ کے لیے امت اسلامیہ کی سعی پیہم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے،القاعدہ،طالبان اور داعش  جیسےدہشت گردگروہوں کو اسلام دشمنوں نے قائم کیا ہے،ان کے دامن میں خیانت اور جرائم سے سوا کچھ بھی نہیں ہے،انھیں صرف اس لیے وجود میں لایا گیا ہے کہ اسلام کی عزت کو پامال کریں لہذا یقینی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ لوگ مسلمان ہو ہی نہیں سکتے ہیں جو اس طرح کے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

اسی طرح ہم بیت المقدس اور دوسری جگہوں پر مظلوم فلسطینیوں پر روا رکھے جانے والے مظالم اور جارحیتوں کے شاہد ہیں،ہمیں فلسطینی عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئےان کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے ہی ملک میں ستر برسوں سے زائد کے عرصے سے ستائے جارہے ہیں کیونکہ اگر غریبوں اور مفلسوں کی مدد کی جائے گی تو صاحب حیثیت لوگوں کے مال ودولت اور امور معیشت میں برکت ہوگی۔

اس سلسلہ میں فطرے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے جو ایک واجب امر ہے چاہےکوئی روزہ رکھے یا نہ رکھےفطرے کا نکالنا اور اس کی ادائیگی واجبات میں سے ہے جو انسانی جسم کی زکات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عبادت بھی ہے جسے قصد قربت کے ساتھ انجام پانا چاہیے،اگر سبھی مؤمنین اپنا فطرہ نکالیں تو یہ غریبوں کے لیے بہت بڑی مدد بن سکتی ہے،آپ ملاحظہ کریں کہ اس ہندستان میں جہاں لاکھوں شیعہ آباد ہیں ،اگر یہ سب اپنا فطرہ نکالیں تو یہ کتنی بڑی رقم بن جائے گی،اسے ہر شہر کے علما کے حوالہ کیا جانا چاہیےاسی طرح ان اداروں اور جگہوں پر جنہیں یہ رقم وصول کرنے کی اجازت دی گئی ہےان کے حوالے کیا جائےتاکہ وہ غریبوں میں یہ رقم بانٹیں اور اس سے ان کی پریشانیوں کو دور کریں،ہر فرد کے لیے فطرے کی مقدار تین کلو طعام ہے جس کو طعام غالب کہا جاتا ہے،اگر کوئی زیادہ تر چاول کا استعمال کرتا ہے تو ہر فرد کے لیے تین کلو چاول یعنی اگرکسی فرد میں چار لوگ ہیں تو ہر فرد کے لیے تین کلو کے حساب سےبارہ کلو چاول یا اس کےمتبادل قیمت  کی رقم بطور فطرہ نکالے اسی طرح اگر استعمال میں زیادہ گندم ہوتا ہے تو اس کو یا اس کے برابر قیمت کو ادا کیا جائے،اب یہ کہ اس کی قیمت کتنی ہوگی ہر شہر کے علما اس کا اعلان کریں گے۔

دہلی میں علما نے اعلان کیا ہے کہ گیہوں کے آٹے کی قیمت کے مد نظرہر فرد کا فطرہ ایک سو روپیہ اور چاول کے حساب سے دو سو روپیہ ہونا چاہیے البتہ ممکن ہے بعض شہروں میں کچھ فرق پایا جاتا ہواس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جو چیز ضروری ہے یہ ہے کہ اس تین کلو کی قیمت کو نظر میں رکھا جائے ہو سکتا ہے کہیں تھوڑا سستا ہو تو کہیں تھوڑا مہنگا ہو البتہ جن میں صلاحیت اور حیثیت پائی جاتی ہے بہتر ہوگا وہ اور زیاد نکالیں کیونکہ یہ امر سبب بنے گا کہ پورے سال تک صحت اور تندرستی بحال رہے گی،روایت میں ہے جو کوئی زکات فطرہ ادا کرتا ہے وہ اس کے بدن کی زکات ہوا کرتی ہے کہ جس کی وجہ سے پورے سال تک مصیبتوں سے اس کا بچاؤ ہوتا ،اس سلسلہ میں یہ کہنا ہوگا کہ ہمیں اپنی اکائی اور اتحاد کو محفوظ رکھنا ہوگا ،ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ ہمارے اندر کارفرما ہونا چاہیے۔

آخر میں کہا کہ انشاءاللہ یہ عید سعید فطر جو کہ ہمارے لئے بہت ہی مبارک ہے بڑی خوشیوں اور مسرتوں کا پیش خیمہ ثابت ہو، خاص کر اس کرونا کے خاتمے کے بعد ، میں کبھی غم زدہ لوگوں اور جاں بحق ہونے والے افراد کےپسماندگان کو تہہ دل سے تعزیت پیش کرتا ہوں، اسی طرح یونیورسٹی کے کئی اساتذہ اس وبا کے سبب جاں بحق ہوگئے، کچھ گراں قدر علما کو ہم نے کھو دیا ،جوانوں کی ایک تعداد ہم سے بچھڑ گئی ،بہت ساری شخصیتیں داغ مفارقت دے گئیں، گذشتہ برس سے لے کر اب تک خاص کرہندوستان میں بہت زیادہ جان و مال کا خسارہ ہوا ہے ،اس وائرس نے جانی نقصان کے علاوہ بہت زیادہ تر اقتصادی نقصان بھی پہنچایا ہے لہذا مجھے توقع ہے کہ مؤمنین کی دعا سے اس  وبا کا جلد از جلد خاتمہ ہو گا اور لوگوں کو نجات ملے گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .