۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مدرسہ سلطان المدارس لکھنؤ

مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن (تلنگانہ) انڈیا کی جانب سے ایسے کسی بھی اقدام کی پرزور مذمت اور سخت مخالفت کی جاتی ہے۔کیونکہ مدرسہ سلطان المدارس پوری شیعہ قوم کا سرمایۂ افتخار ہے ۔شیعہ قوم کا قدیم ترین علمی و مذہبی اور قومی اساسہ ہے۔ھندوستان کے تمام شیعوں کے مذہبی جذبات اور عقیدت کا قابلِ رشک مرکز ہے۔جس کی عالمی سطح پر خدمات کی تابناک تاریخ ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا علی حیدر فرشتہ مدیر حوزۃ الامام القائم و امام جمعہ حیدرآباد و صدر مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن تلنگانہ انڈیا نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ آجکل سوشیل میڈیا میں انتہائی حیران کن اور اضطراب انگیز خبریں گردش کر رہی ہیں کہ’’ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ ‘‘ لکھنؤکی زمین کو یوپی سرکار اپنے قبضہ میں لینا چاہتی ہے اورکنگ جارج میدیکل یونیورسٹی KGMUمیں شامل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن (تلنگانہ) انڈیا کی جانب سے ایسے کسی بھی اقدام کی پرزور مذمت اور سخت مخالفت کی جاتی ہے۔کیونکہ مدرسہ سلطان المدارس پوری شیعہ قوم کا سرمایۂ افتخار ہے ۔شیعہ قوم کا قدیم ترین علمی و مذہبی اور قومی اساسہ ہے۔ھندوستان کے تمام شیعوں کے مذہبی جذبات اور عقیدت کا قابلِ رشک مرکز ہے۔جس کی عالمی سطح پر خدمات کی تابناک تاریخ ہے۔

مولانا موصوف نے کہا کہ ہمارے محترم بزرگ وعزیز دوست مولانا شیخ ابن حسن املوی صدرالافاضل،واعظ نے تین ضخیم جلدوں میں ’’تاریخِ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ‘‘ مرتب کی ہے جو مرکز بین المللی میکرو فیلم نور۔ایران کلچر ہاؤس ،نئی دھلی سے شائع ہوئی ہیں اس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اصل میں یہ مدرسہ امجد علی شاہ نے مقبرہ ٔ سعادت علی خان میں ۱۴؍مئی ۱۸۴۳ء؁ میں قائم کیا تھا۔اس وقت اس مدرسہ کے مدرس اعلیٰ جناب غفرانمآب ؒ کے پوتے جناب ممتاز العلماء علامہ سید تقی  ؒصاحب قبلہ معین ہوئے تھے۔  مدرسۂ سلطانیہ کے نام سے مقبرہ ٔ سعادت علی خان میں یہ مدرسہ نہایت تزک و احتشام اور کامیابی و کامرانی کے ساتھ منازل ِارتقاء کی راہ پر گامزن رہا۔اس کے بعد ۱۲۶۲؁ھجری میں سلطان واجد علی شاہ کے جلوس کے موقع پر مدرسہ مقبرہ ٔ سعادت علی خان سے آصف الدولہ بہادر کے امامباڑہ (لکھنؤ کا بڑا امامباڑہ)میں منتقل ہوا۔

انہوں نے کہا کہ جب تک واجد علی شاہ رہے مدرسہ بھی رہا اور امامباڑہ بھی رہا۔بادشاہ تخت و تاج سے محروم ہوئے تو تب مدرسہ بند ہوا اور امامباڑہ انگریزوں کی فوجی چھاؤنی میں بدل گیا۔اس وجہ سے ۱۸۵۷؁ء میں مدرسہ معطل ہو گیا ۔ پھر۱۸۹۲ء؁ میں نواب آغا ابّو صاحب نے اس مدرسہ کو جامع مسجد آصف الدولہ میں بحال کیا جس کے شیخ الجامعہ مولانا ابوالحسن صاحب قبلہ متوفی ۱۸۹۵ء؁ ہوئے۔ ۱۹۱۱ء؁ میں مدرسہ کی جدید عمارت کی تعمیر شروع ہوئی اور ۲۱؍مارچ   ۱۹۱۲؁ء میں مدرسہ موجودہ عمارت میں منتقل ہوا۔مولانا ابوالحسن صاحب قبلہ ؒکے انتقال کے بعد سے آج تک ان کی اولاد امجاد میںاس حدیقۂ علوم اہل بیت ؑ کی آبیاری مسلسل جاری و ساری ہے۔

مزید بیان کیا کہ نواب آغا ابّو صاحب نے وقف کی شرعی حیثیت کو بحال کیا اور سب سے بڑا کام ۱۸۹۲ء؁ میں مدرسۂ شاہی کا احیاء تھا ۔انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ شاہی عمارتوں کے گرنے اور مدرسہ کے ضائع ہونے کے بعد ہمیں موزوں زمین اور مناسب عمارت بنانا ہوگی ،حکومت نے اس مقصد کے لئے حکیم مھدی کے مقبرہ( جو ابھی بھی نہایت کہنہ و بوسیدہ و خستہ حالت میں موجود ہے ) کے پاس بہت بڑی زمین  (لیز پر)دی جس پر ایک عالیشان مدرسہ تعمیر ہوا مدرسہ کا نام ’’ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ ‘‘ رکھا۔تب سے اور اب تک حسین آباد ٹرسٹ لکھنؤ کے زیر انتظام یہ مدرسہ مسلسل پوری دنیا  میں علم و آگہی کی روشنی پھیلا رہا ہے۔

آخر میں کہا کہ برصغیر میں نوابین ِ اودھ کی وجہ سے لکھنؤ اردو داں شیعہ مسلمانوں کے لئے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اور اس شھر کی مرکزیت میں قدیم ترین درسگاہ ’’ مدرسہ سلطان المدارس ‘‘ہے۔لہٰذا اب ہم اسے کسی اور جگہ منتقل ہونا گوارا نہین کر سکتے۔حکومت ِ اتر پردیش سے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سلطان المدارس کی زمین مدرسہ کے نام الاٹ کردی جائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .