۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
حج

حوزہ/ عالم اسلام ایک اہم مہینے یعنی ذلی الحجہ میں داخل ہونے جارہا ہے جس میں اسلام کی اہم عبادت حج انجام دیا جاتا ہے، لیکن سعودی حکومت کے حکم پر دوسرے ممالک کے لوگ اس سال حج کی اس اہم عبادت سے بھی محروم ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی ریپورٹ کے مطابق، سعودی عرب کی طرف سے دوسرے ممالک کے لوگوں کے لئے یہ پابندی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر ملک کے نائٹ کلب کھل گئے ہیں اور اس کا مقصد مکہ اور مدینہ کی اسلامی شناخت کو تبدیل کرنا ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ 

سعودی لیکس نامی ایک ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والی تصاویر میں کعبہ کو عالم اسلام کے حجاج اور نمازیوں کے بغیر دکھایا گیا ہے،  سعودی لیکس کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس، نائٹ کلب کی تصاویر جو سعودی مردوں اور خواتین سے بھری ہیں ، حج کے آغاز سے قبل ہی میڈیا اور سوشل میڈیا میں بھی وائرل ہو رہی ہیں۔

بن سلمان کے سعودی عرب میں کعبہ خالی اور نائٹ کلبوں میں ہجوم

گذشتہ سال ، غیر ملکی میڈیا کو حج کی کوریج سے روک دیا گیا تھا ، جو دنیا بھر کے میڈیا کے لئے ایک اہم اور بڑا ایونٹ ہے۔ سعودی عرب نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے مسلسل پھیلاؤ کی وجہ سے ، اس سال بھی غیر ملکی حج کے لئے نہیں آسکیں گے اور صرف سعودی عرب میں مقیم 60،000 افراد ہی حج کی رسومات ادا کرسکیں گے۔ سعودی عرب کی وزارت حج کا کہنا ہے کہ حج کرنے والے افراد کی عمریں 18 سے 65 کے درمیان ہونی چاہئیں اور انہیں کورونا کا ٹیکہ بھی لگا ہونا چاہئے۔

بن سلمان کے سعودی عرب میں کعبہ خالی اور نائٹ کلبوں میں ہجوم

گذشتہ سال سعودی عرب نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے صرف ایک ہزار افراد کو حج کی اجازت دی تھی، جبکہ دنیا بھر سے 20 لاکھ سے زیادہ افراد ہر سال حج ادا کرتے ہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد سے ہی سعودی عرب نے لوگوں کے اجتماع اور تعطیلات پر مختلف پابندیاں عائد کردی ہیں۔ سعودی لیکس کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں ایسی صورتحال میں عائد کی گئی ہیں جب کہ سعودی عرب کے نائٹ کلب اب بھی کھلے ہوئے ہیں ، جس کے بارے میں متعدد شہریوں نے بھی شکایت کی ہے لیکن ان کی سماعت نہیں ہو رہی ہے۔

لوگوں کے شدید اعتراضات کے باوجود سعودی عرب کے انتہائی شور مچانے والے ڈسکو اور نائٹ کلب اپنا کام انجام دے رہے ہیں اور ان میں متعدد پارٹیاں بھی منعقد کی جارہی ہیں۔ صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان نائٹ کلبوں کے خلاف شکایت کرنے پر نہ صرف ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے بلکہ صرف شکایت کرنے والوں کو ہی گرفتار کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی دلچسپ ہوگا کہ سعودی انتظامیہ نے رہائشی علاقے سے ایک مصلیٰ (نماز پڑھنے کی جگہ) ختم کردی ہے۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ محل وقوع عورت کی شکایت پر بند کردیا گیا ہے۔ اس علاقے میں رہنے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اگر کسی کی شکایت پر مصلیٰ بند کیا جاسکتا ہے تو پھر انتظامیہ لاکھوں شہریوں کی شکایات پر ڈسکو اور نائٹ کلب کیوں بند نہیں کرتی ہے؟

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .