۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
حج

حوزہ/ امت مسلمہ کے عظیم رہنماؤں کے نزدیک اتحاد امت کا فریضہ اس قدر اہم تھا کہ انہوں اس کے شیرازے کو مربوط کرنے کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کردیا ہے۔

ترتیب و تدوین : سکندر علی بہشتی

حوزہ نیوز ایجنسیامت مسلمہ کے عظیم  رہنماؤں کے نزدیک اتحاد امت کا فریضہ اس قدر اہم تھا کہ انہوں اس کے شیرازے کو مربوط کرنے کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کردیااور اسلام کی تمام تعلیمات میں امت کے اتحاد اور یکجہتی کے پہلو کو اجاگر کیا،حج جیسی یین الاقوامی عبادی اور سیاسی عبادت میں اتحاد،یکجہتی اور بھائی چارگی کا پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے۔
ہم چند ایسے ہی امت کے دلسوز رہنماؤں ومصلحین کے نظریات بیان کریں گے جنہوں نے حج کے اسی رُخ  کی طرف توجہ دلائی ہے۔

امام خمینیؒ:

حج مسلم امہ اور اقوام کے ایک دوسرے کو جاننے کی بہترین وعدگاہ ہے جس میں ساری دنیا کے مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بہن اور بھائیوں سے آشنا ہوتے ہیں،گھر تمام اسلامی معاشروں سے متعلق ہے،یہاں ابراہیم حنیف کے پیروکارجمع ہوتے ہیں۔یہ لوگ اپنے رنگ،تشخص وقومیت اور نسل وقبیلہ کو فراموش کر کے اپنی سرزمین اور اپنے اولین گھر کی طرف پلٹ کر آتے ہیں اور عظیم اسلامی اخلاق کی پابندی اور باہمی تنازعات اور زینت سے اجتناب کرتے ہوئے اسلامی اخوت اور دنیا بھر میں واحد امت محمدی کی تشکیل کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔(۱)
ہم سب کو یہ جاننا چاہئے کہ دنیا بھر سے اس مقدس مقام اور مرکز وحی پر جمع ہونے کا ایک عظیم اجتماعی فلسفہ مسلمانان عالم کی باہمی پیوستگی اور عالمی طاغوت کے خلاف روسول اکرمؐ اور قرآن کریم کے  پیروکاروں کے اتحاد کا استحکام ہے۔(۲) 

رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای:

حج ایک گروہی واجتماعی تحرک کاکام ہے ۔حج کی الٰہی دعوت اس لئے ہے کہ مومنین خود کو ایک دوسرے کے نزدیک دیکھیں اور مسلمانوں کے اتحادی پیکر کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کریں۔حج اجتماعی طور سے شیاطین انس وجن سے برآت وبیزاری کا اظہار کرنے کے لئے ہے۔یہ اسلامی امت کے اتحاد ویکجہتی کی تمرین اور مشق ہے۔(۳)

شہید مرتضیٰ مطہری:

تمام اسلامی اجتماعات سے زیادہ اہم اور عمومی وطولانی اور متنوع حج کا پروگرا م ہے کہ حقیقت میں اسے’’عمومی اسلامی کانفرنس‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے،ہرشخص پر واجب ہے کہ اگر قدرت رکھتا ہو تو کم ازکم عمر میں ایک مرتبہ اس عظیم اجتماع میں شرکت کرے تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ ان ایام میں سے ایک قسم کے لباس زیب تن کریں اور ایک ہی قسم کا کلام زبان پر جاری کریں،یہ وہی سرزمین ہے کہ اس مقام پر پہلی مرتبہ خدائے یگانہ کی عبادت کے لئے گھر بنایا گیاہے،کیوں؟ کیا صرف اس لئے ہے کہ صاحبان توحید اور اہل توحید کا محل اجتماع قرار پائے یا صرف اس لئے کہ اہل توحید اپنے  لئے وہاں رنگ توحید ووحدت اپنائیں۔
علامہ فقید کاشف الغطاء نے کیا خوب کہا ہے:
’’بنی الاسلام علی کلمتین: کلمۃ التوحید وتوحید الکلمۃ‘‘یعنی اسلام دواصل اور دوفکر پر بنایا گیا ہے :ایک اصل خدائے یگانہ کی عبادت،دوسری اصل اسلامی معاشرہ کا اتحاد واتفاق ہے۔(۴)

آیۃ اللہ سید محمد حسین فضل اللہ:

حج ایک عالمی مناسبت ہے جس کے دوران ساری دنیا کے لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں،تاکہ وہ اپنے امور کے بارے میں غور وفکر کریں اور فکروخیال اور علوم واخبار کا تبادلہ کریں،تاکہ انہیں اپنے مضبوط اور محکم روابط کا احساس ہو۔ان لوگوں کو ایک دوسرے سے ملانے والا یہی کعبہ ہے ،جوان کا قبلہ ہے،جس کی طرف رخ کرکے وہ ایک خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں،حج ہی سے اُن میں اتحاد ویکجہتی کااحساس پیدا ہوتا ہے جو انہیں کسی ایسی طاقت کے سامنے جھکنے سے روکتا ہے ،جو انہیں تباہ کرنا چاہتی ہے۔حج سے مسلمانوں کو بہت سے مادی اور معنوی فوائد حاصل ہوتے ہیں،عبادت بھی ہوتی ہے ،اور ایک دوسرے سے ملاقات بھی،اسی طرح لوگوں کے درمیان اقتصادی معاملات اور تجارت بھی ہوتی ہے۔(۵)

علامہ ابوالاعلیٰ مودودی:

اب ذرا حج کو دیکھیں جس سے بڑھ کر ملت اسلام کے عالمگیر ملت ہونے کا مظاہرہ کسی دوسری عبادت میں نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ہر اس مسلمان پر جو حج کی استطاعت رکھتا ہو یہ لازم کردیا ہے کہ وہ عمر میں ایک مرتبہ اس فریضے کو انجام دے۔
ان میں ہر نسل قوم،ہر رنگ اور ہر وطن کے لوگ یکجا ہوتے ہیں،ہر زبان بولنے والے اکھٹے ہوتے ہیں،سب اپنے اپنے گھروں سے طرح طرح کے لباس پہنے ہوئے آتے ہیں ان میں امیر بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی،شاہ بھی ہوتے ہیں اور گدا بھی،مگر وہاں سارے امتیازات ختم ہوجاتے ہیں۔خدا ونداعالم کے دربار میں پہنچ کر ہر شخص کے دماغ سے کبریائی کا خناس نکال دیا جاتا ہے ،رنگ ونسل اور زبان ووطن کے سارے تعصبات ختم، کرکے دنیا کے ہر گوشے سے آنے والے مسلمانوں کے اندر ایک امت ہونے کا احساس اس قوت کے ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے کہ اُس کے اثر کسی مٹائے نہیں مٹ سکتا،دنیا کے کسی اور مذہب اور کسی لامذہبی گروہ کے پاس بھی اپنے پیروکاروں کو اس قدر عالمگیر پیمانے پر متحد کرنے اور ہر سال اس اتحاد کو تجدید کرتے رہنے کا ایسا کیمیا اثر نسخہ موجود نہیں ہے۔ یہ صرف خدا کی حکمت کاکرشمہ ہے جس وحدت کومان کر،جس کے رسول اور جس کی کتاب کی پیروی قبول کرکے جس کے حضور اپنی جواب دہی کا شعور پیدا کر کے مسلمان ایک امت بنتے ہیں۔‘‘(۶)

حوالہ جات:
۱۔امام خمینی کا حجاج کے نام پیغام،نقل ازامام خمینی اور احیائے فکر دینی ج۲ ،ص ۲۹۳)
٣.حج اجتماعی،سیاسی،عبادی۔ص۱۶۰ 
٣.حجاج بیت اللہ کے نام پیغام ذی الحجہ،۱۴۲۵ھ نقل ازپیغام آشنا شمارہ۳۲۔جنوری تامارچ ۲۰۰۸ء
۴.حج ص ۳۲۔۳۳ شہید مطہری
۵.حضرت علی ؑ کی وصیت۔ص۷۱
٦.ترجمان القرآن۔جنوری۲۰۰۴ء۔ص ۳۵۔۳۹

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .