۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
واقعه غدیر

حوزہ/ ایرانی دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے استاد نے کہا کہ ہمیں عشرۂ ولایت و امامت میں غیر ضروری مسائل پر بحث کرنے کے بجائے واقعۂ غدیر خم کے پیش نظر لفظ "مولا"کی تفسیر بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شبہات غدیر کے عنوان سےمنعقدہ آنلائن سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین محمد جعفر طبسی نے کہا کہ کچھ اہل سنت مؤرخین اور مؤلفین نے لفظ "مولا"کو دوست اور چچا زاد بھائی کے معنوں میں استعمال کیا ہے جبکہ ہرگز اس کا یہ معنی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے کچھ لوگ غیر ذمہ دارانہ طور پر غدیر خم میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خلافت اور جانشینی کو نظرانداز کرتے ہیں۔

استاد حوزہ نے کہا کہ رسول خدا(ص)نے غدیر خم میں لوگوں سے امیر المؤمنین(ع)کی خلافت اور جانشینی کی بیعت لی اور فرمایا:"من کنتُ مولاہُ فھذا علی مولاہ."

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ علماء عرب لفظ "مولا"کےلئے کئی معانی ذکر کرتے ہیں،کہاکہ ان معنوں میں سے ایک مالک ہے،یعنی اطاعت امیر المؤمنین(ع) سے مخصوص ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کتاب "تذکرۂ خواص الامۃ"میں شمس الدین،سبط ابن جوزی حنفی کہتے ہیں کہ علماء تاریخ اس بات پر متفق ہیں کہ غدیر خم کا واقعہ پیغمبر اسلام(ص)کی حجۃ الوداع سے واپسی پر 18ذی حجۃ کو رونما ہوا اور اس دوران ایک لاکھ بیس ہزار اصحاب موجود تھے۔

علامہ طبسی نے بیان کیا کہ سبط ابن جوزی حنفی نے کہا ہے کہ علماء عرب نے "لفظ مولی" کے لئے دس مختلف معانی بیان کئے ہیں اور مذکورہ حدیث میں مولی سے مراد "طاعت"یعنی فرمانبرداری ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اطاعت، امیر المؤمنین علیہ السلام سے مخصوص ہے،دسواں معنی متعین ہے اور وہ اولی ہے لہذا رسول اللہ کے فرمان کا معنی یوں ہو گا کہ ہر وہ شخص جس پر میں تصرف کا حق رکھتا ہوں اس پر علی علیہ السلام اسے زیادہ تصرف کا حق رکھتے ہیں۔

دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے استاد نے کہا کہ سبط ابن جوزی کی بات میں موجود اہم اور واضح نقطہ نظر،علی(ع)کی امامت اور آپ کی اطاعت کو قبول کرنا ہے،جسےشیعہ علماء بھی بیان کرتے ہیں۔

انہوں نے لفظ "مولا"کے معانی و مفہوم کو معصومین علیہم السلام کے نقطۂ نظر سے بیان کرتے ہوئے کہا ہے حدیث غدیر،تاریخی،کلامی اور سلسلۂ حدیثی میں اہم اور کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور اس حدیث نے امامیہ دانشوروں اور مؤلفین کو ایک خاص جہت دی ہے۔شیخ صدوق(رح)نے وجود امام،نص کے مسئلے اور فریقین کے دیگر اختلافی موضوعات،جو کہ گزشتہ آئمۂ اطہار علیہم السلام کے زمانے سے ہی موجود تھے،کو اہل بیت علیہم السلام کی سیرت علمی،روش کی اتباع اور خاص طور پر حدیث غدیر سے استدلال کرتے ہوئے ثابت کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کتاب "معانی الاخبار میں شیخ صدوق(رح) نے انس بن مالک سے متصل اہل سنت راویوں کے سلسلے سے استدلال کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حدیث غدیر بالاتفاق سب کے نزدیک قابل قبول حدیث ہے۔

حجۃ الاسلام طبسی نے کہا کہ نیز شیخ کلینی(رح)کتاب کافی جلد چہارم صفحہ 566 پر امام جعفر صادق(ع) سے مسجد غدیر کے بارے میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ مستحب ہے کہ انسان مسجد غدیر میں دو رکعت نماز بجا لائے کیونکہ پیغمبر اسلام(ص)نے اس مسجد میں امیر المؤمنین(ع)کو امام اور جانشین مقرر کیا تھا۔خدا نے اس مسجد میں امیر المؤمنین(ع)کے توسط سے حق کو بیان کیا ہے۔

امام صادق علیہ السلام نے مسئلۂ غدیر کو حق کے عنوان سے بیان کیا ہے۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ رسول اللہ(ص) کی ولایت کو قبول کرنا بلا استثناء سب پر فرض ہے،کہاکہ کسی کو بھی یہ کہنے کا حق حاصل نہیں ہے کہ رسول اللہ کی ولایت کو قبول کرناصرف ان کے ماننے والوں پر ضروری ہے کیونکہ یہ ولایت بلا استثناء سب پر فرض ہے اور اس بات کا ثبوت سورۂ مبارکۂ احزاب کی آیۃ 6 ہے کہ وہاں پر خداوند متعال فرماتا ہے کہ"النَّبیُّ أولَیٰ بِالمؤمنین مِن أنفُسھم."پیغمبر اسلام مؤمنین پر ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھتے ہیں۔

علامہ طبسی نے مزید کہا کہ امام اور جانشین مقرر کرنا خدا کا کام ہے اور واقعۂ غدیر میں رسول اللہ مبلغ تھے تاکہ اپنے بعد امیر المؤمنین علیہ السلام کو خدا کی جانب سے لوگوں کے لئے امام اور جانشین کے عنوان سے مقرر کر کیا جا سکے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .