۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
درس اخلاق آیت الله محسن فقیهی

حوزہ/ خدا نےانبیاء،رسول خدا (ص)آئمہ (ع) اور فقہاء کی ولایت کی نعمت سے امت اسلامیہ کو ایک نمونہ اور دیگر امتوں سے برتر بنایا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،آیۃ اللہ محسن فقیہی نے حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے، عید سعید غدیر اور عشرۂ ولایت و امامت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ خدا نے انسانوں کو بہت سی نعمتیں دی ہیں،لیکن جس نعمت کی زیادہ قدردانی اور شکریہ ادا کرنے کی لائق ہے وہ خدا کی طرف سے ولایت کی نعمت ہے۔

جامعۂ مدرسین کے رکن نے کہا کہ قرآن مجید کی آیات میں خدا نے سرپرستی کی نعمت کو ایک ایسی نعمت کے طور پر ذکر کیا ہے جو شکر اور قدردانی کا مستحق ہے اور اس نعمت کی حامل قوموں کو دوسری اقوام پر برتری حاصل ہے۔

حوزہ علمیہ کے استاد نے مزید کہا کہ خدا قرآن کی آیات میں بنی اسرائیل سے اپنی ایک خاص اور اہم نعمت کا ذکر کرنے کو کہتا ہے اور خدا اس نعمت کو ولایت کی نعمت سمجھتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر خدا،موسیٰ (ع) کو بنی اسرائیل کے لئے نبی کے طور پر منتخب نہیں کرتا،تو آپ واضح طور پر گمراہی اور ضلالت میں ہوتے اور تاریخ کے پیش نظر پوری دنیا میں اسرائیل کے لوگوں کی برتری کی وجہ، بہت سے پیغمبروں کا وجود اور ولایت کی نعمت ہے۔

آیۃ اللہ فقیہی نے بیان کیا کہ خدا نے انبیاء،رسول خدا (ص)آئمہ (ع) اور فقہاء کی ولایت کی نعمت سے امت اسلامیہ کو ایک نمونہ اور دیگر امتوں سے برتر بنایا ہے اور علامہ طباطبائی کے مطابق بنی اسرائیل صرف ایک مورد میں دوسری قوموں سے برتر ہیں اور وہ نعمت،بہت سے انبیاء کا وجود اور متعدد معجزات کا رونما ہونا ہے۔

جامعۂ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے رکن نے مزید کہا کہ قرآن مجید کی آیات میں، پرہیزگاروں کےلئے ذکر کردہ ایک اور صفت، ولایت مداری کے علاوہ،خدا سے ملاقات میں یقین کی نعمت ہے۔ اس ضمن میں قرآن کی آیات میں صفت ظن کا ذکر کیا گیا ہے جس کا مطلب گمان ہے اور بعض مفسرین نے قرآن میں صفت ظن کا ترجمہ گمان(شک)کے معنی میں کیا ہے،لیکن علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ یہاں ظن کا مطلب وہی گمان ہے،لیکن یہ ظن؛ یقین کا مقدمہ ہے اور انسان پہلے کسی چیز میں شک کرتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ اسی چیز کے بارے میں یقین بن پیدا کر لیتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ خدا سے ملاقات کے یقین کے بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس یقین کا معنی قیامت کے دن خدا سے ملاقات ہے،لیکن علامہ طباطبائی  کہتے ہیں: ان آیات میں خدا سے ملنے کا مطلب اسی دنیا میں خدا سے ملنا ہے اور اس دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی انا کو چھوڑ کر پوری دنیا کو خدا کی تعبیر دیکھی ہے اور دنیا کے ساتھ مکمل اتحاد میں ہیں اور اسی دنیا میں ہی وہ خدا سے ملے ہیں، البتہ اس ملاقات کا مطلب ظاہری ملاقات نہیں ہے،کیونکہ ظاہری آنکھوں سے خدا کو دیکھنا ناممکن ہے ، بلکہ خدا سے ملنے کا مقصد اس دنیا میں تمام وجود کے ساتھ خدا کی موجودگی کا درک کرنا ہے۔

آیۃ اللہ فقیہی نے کہا کہ عام زندگی میں،ہمارے لئے ایسے لمحات پیش آئے ہیں کہ آزمائشوں اور مصیبتوں میں،ہم نے خدا کی موجودگی اور اس کی حمایت اور ولایت کو درک کیا ہے لہذا اس ملاقات کا مطلب،مختلف مراحل میں خدا کی موجودگی کا فہم و ادراک ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .