۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
شیعہ علماء کونسل پاکستان

حوزہ/ کانفرنس میں مقررین کا کہنا تھا کہ عزاداری یزیدی سوچ کے خلاف ہے، مقدمات، گرفتاریاں،اور دباو عزاداری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے، فورتھ شیڈول کا غلط استعمال ختم کیا جائے، مجالس اور ماتمی جلوسوں کی رپورٹنگ میں پولیس بددیانتی کرتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/شیعہ علما کونسل شمالی پنجاب کے صدر علامہ سید سبطین حیدر سبزواری نے کہا ہے کہ پاکستان میں فرقے موجود ہیں، مگر فرقہ واریت نہیں ہے ۔عزاداری کسی کے لئے تکلیف کا باعث نہیں۔عزاداری حکومت کے بھی خلاف نہیں ،یاں یزیدی سوچ کے خلاف ہے۔اہل سنت ہمارے بھائی ہیں اور وہ جلوسوں اور مجالس میں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ہم واضح کرتے ہیں کہ مقدمات، گرفتاریاں،اور دباو عزاداری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔جب بھی کوئی آزمائش آئی، ہم سرخرو ہوئے ۔عزاداری پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عزاداری کے خلاف رکاوٹیں بند نہ کی گئیں اور علامہ مظہر کاظمی کو فی الفور رہا نہ کیا گیا تو عاشورہ محر م الحرام کے جلوسوں کوروک کر احتجاجی دھرنوں میں تبدیل کردیں گے۔ واضح کرتے ہیں کہ شیعیان حیدر کرار عزاداری پر مر مٹنے کے لیے تیار ہیں۔کسی ماتمی جلوس کے روٹ سے ایک انچ پیچھے ہٹنے ،مجلس یا جلوس کے وقت میںایک سیکنڈ کم کرنے کو تیار نہیں۔ہمارا مطالبہ ہے کہ عزاداری کے خلاف درج تمام جھوٹی ایف آئی آرز کو واپس لیں،نئی مساجد اورامام بارگاہوں کی تعمیر میں رکاوٹیں بند کی جائیں۔فورتھ شیڈول کا غلط استعمال ختم کرکے اس ظالمانہ قانون میں ڈالے گئے افراد کو نکالا جائے۔سی ٹی ڈی کے ظالمانہ غیر قانونی اقدامات کو روکا جائے اور اسے لگام ڈالی جائے۔

لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب میں علامہ سبطین سبزواری نے کہا کہ پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے عزاداری میں مسلسل رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ روایتی، لائسنسی اور پرانی مجالس اور ماتمی جلوسوں میں پولیس کی سپیشل برانچ بددیانتی کرکے ریکارڈ میں ردو بدل کرتی ہے۔کسی مجلس کا وقت کم یا کسی روٹ کو مختصر لکھ دیا جاتا ہے۔ رپورٹ پر بانی مجلس و جلوس کے دستخط بھی لئے جائیں ۔پریس کانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالخالق اسدی،مولانا روح اللہ کاظمی،قاسم علی قاسمی، شوکت علی اعوان، جعفر علی شاہ، مولانا صفدر علی ، لعل مہدی خان اور دیگر بھی موجود تھے۔علامہ سبطین سبزواری نے پرنسپل جامعہ بعثت رجوعہ سادات علامہ مظہر حسین کاظمی کی جبری گمشدگی کی مذمت کی اوراس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ممتا ز عالم دین کو ایک طالبعلم کے ہمراہ تفتان بارڈر سے28 جون کو اٹھا یا گیا۔ آج تک پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں ؟ہمارا مطالبہ ہے کہ اگران کے خلاف کوئی مقدمات ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے،ملک کو جنگل نہ بنایا جائے۔

 انہوں نے واضح کیا کہ کسی شیعہ فرد یا تنظیم نے ریاست پاکستان کے ساتھ غداری کی اور نہ ہی اپنی فوج اور ریاستی اداروں کے افراد کو قتل کیا۔علامہ مظہر کاظمی کو فی الفور رہا کیا جائے۔ ہمیں ممتا ز عالم دین کی زندگی کے بارے میں خدشات ہیں کہ کہیں انہیں شہید نہ کر دیا جائے ۔ہم چیف جسٹس آف پاکستان ، آرمی چیف ، وزیر اعظم اور صدر مملکت سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ” نامعلوم“ کی ریاستی دہشت گردی کا نوٹس لیں اور انہیں قانون کے دائرے میں لائیں۔شیعہ علما ءکونسل کے صوبائی صدر نے فور شیڈول کو ظالمانہ قراردیتے ہوئے کہا کہ بدمعاشوں اوردہشت گردوں کی بجائے شریف شہریوں کو تنگ کیا جارہا ہے اورذاتی عناد پر بدلے لئے جارہے ہیں۔ جس کی ایک تازہ مثال ضلع جھنگ کا تھانہ گڑھ مہاراجہ ہے، جہاں ایس ایچ او نے گیارہ شیعہ افراد کو فورتھ شیڈول میں ڈال دیا ہے۔ہر سال دسیوں سال پہلے فوت ہونے والے علماءاور ذاکرین پر پابندی کے آرڈرز کا اجرا انٹیلی جینس اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ 

انہوں نے گذشتہ سال چہلم سید الشہداءحضرت امام حسین علیہ السلام کے جلوسوں میںشرکت کے لئے جاتے ہوئے اور محرم الحرام کے دیگر ایام میں درج کی گئی جھوٹی ایف آئی آر ز کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیاکہ کسی قسم کی رکاوٹیں اور دباو عزاداری کو روک نہیں سکتیں۔ مقدمات کروگے، تو عزاداری اگلی بار اس سے زیادہ شدت اور شان و شوکت کے ساتھ ہوگی۔مقدمات اور ریاستی دباو محبت اہل بیت ؑ کے اظہار اور اپنی مذہبی رسومات سے روک نہیں سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ ملکی آبادی کے ساتھ تعلیمی ادارے، ہسپتال، تھانے اور مارکیٹوں کی تعداد بھی بڑھی ہیں۔لیکن نئی شیعہ مساجد کی تعمیر میں رکاوٹیںپیدا کی جاتی ہیں۔

علامہ سبطین سبزواری نے تشویش کا اظہار کیا کہ کچھ مقامات پر گھروں میں علم لگانے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور استفسار کیا پاکستان ریاست ہے یا جنگل۔ پاکستان میں مذہبی اور فرقہ وارانہ تنوع موجود ہے۔ میں اپنے گھر پر کس پارٹی کا ، یا کس مذہب و مسلک کا پرچم لگاتا ہوں ۔ یہ میرا حق ہے۔ کسی کو کیا اعتراض ہوسکتاہے۔انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے عقائد کے اظہارپر گرفتاریاں کی بھی مذمت کی اور نوجوانوں ،بانیان مجالس اور ماتمی جلوسوں کے منتظمین سے ا پیل کی کہ کسی پولیس والے، کسی ایجنسی اور انتظامیہ کے دباو ¿ میں آنے کی ضرورت نہیں ۔ عزاداری ہمارا شہری اور بنیادی آئینی حق ہے۔اور ہر صورت لے کر رہیں گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .