۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
علامہ قاضی شبیر علوی

حوزہ/ کربلا کا واقعہ تاریخ بشریت کے لئے ایک درس ہے اور اس سے وابستگی بھی مسلمانوں حتٰی حریت پسند غیر مسلموں کے لئے بھی ہر دور میں  باعث سعادت رہی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ملتان/مولانا ظہیرالحسن کربلائی کوآرڈینیٹر مرکزی شعبہ تربیت کی جنوبی پنجاب کے مسئولین کے ساتھ مکمل ہم آہنگی اور کاوشوں سے جنوبی پنجاب کی دوسری تنظیمی تربیتی ورکشاپ کا انعقادجامعہ شہید مطہریؒ کےشہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ ہال میں کیا گیا جس میں ضلع ملتان کے 9 یونٹس کے اراکین اور صوبائی کابینہ کے معزز اراکین نے شرکت کی۔

 اس تنظیمی ،تربیتی ورکشاپ میں 60 سے 70 تنظیمی برادران نے شرکت فرمائی ۔ جامعہ شہید مطہری ؒ کے پرنسپل و بانی جناب علامہ قاضی شبیر علوی نے اس پروگرام میں خصوصی شرکت فرمائی اور محرم الحرام اورہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا :رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی امام سید علی خامنہ ای ،عزاداری کے سلسلہ میں فرماتے ہیں۔ ’’عزاداری اور مصائب اہلبیت اطہار علیھم السلام ایک ایسی خداداد نعمت ہے کہ جو بارگاہ خداوندی میں شکریہ کے شایان شان ہے‘‘۔ آپکی نظر میں تحریک عاشورا کا پیغام، اسلامی تحریکوں کا فروغ ہے اور آپ کربلا و عزاداری کی نعمت کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ’’اس نعمت کے حساس ہونے کو ہم اس وقت درک کرتے ہیں جب ہم جان لیں کہ خدا کی نعمتوں کے مقابلے میں بندگان خدا کی ذمہ داری شکر و سپاس اور اس کی بقا کی کوشش کرنا ہے۔ اگر کسی کے پاس نعمت نہ ہو تو اس سے کوئی سوال نہيں کیا جائے گا لیکن جس کے پاس نعمت ہے اس وقت اس سے سوال کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ شیعوں کے لئے ایک عظیم نعمت، محرم، عاشورا اور مجالس عزاء ہے۔ یہ عظیم نعمت، دلوں کو اسلام و ایمان کے ابلتے ہوئے چشمے سے متصل کرتی ہے۔ اس نعمت نے وہ کام کیا ہے کہ اسکی بنا پر تاریخ کے دوران ظالم حکمرانوں، کو عاشورا اور قبر امام حسین علیہ السلام سے خوف لاحق رہا ہے۔ اس نعمت سے فائدہ حاصل کرنا چاہیئے۔ خواہ وہ عوام یا علماء، اس نعمت سے ضرور بہرہ مند ہوں۔ عوام اس طرح سے بہرہ مند ہوں کہ ان مجالس سے دل وابستہ کرلیں اور مجالس امام حسین علیہ السلام کا انعقاد کریں۔ لوگ عزاداری کا اہتمام مختلف سطح پر زيادہ سے زيادہ کریں۔ کربلا کا واقعہ تاریخ بشریت کے لئے ایک درس ہے اور اس سے وابستگی بھی مسلمانوں حتٰی حریت پسند غیر مسلموں کے لئے بھی ہر دور میں  باعث سعادت رہی ہے۔‘‘یقینا غم حسین علیہ السلام کی نعمت کوئی معمولی نعمت نہیں ہے، ایک ایسی قیمتی و لازوال متاع حیات ہے جس کے بل پر زندگی میں حرکت و انقلابی آہنگ پیدا ہوتا ہے، جس کے دم پر ایک ایک مردہ قوم میں نئی روح جاگتی ہے، جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ میں ارتقاء کے بغیر حیات کوئی معنی نہیں رکھتی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ غم ہے جو ظاہر و باطن میں انسان کے وجود میں ایک ایسا انقلاب پربا کر دیتا ہے کہ انسان بغیر قدروں کے ساتھ جینے کو  موت سے عبارت جانتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہر مکتب خیال کے افراد اس کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں۔ اس غم کی عمارت ان انسانی بنیادوں پر قائم ہے کہ جہاں، مذہبی، نسلی اور لسانی تنگ نظری کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا، یہ ہر ایک کے دل کی آواز ہے۔ حسینیت نے اسلام کی وسیع النظری عام کرنے اور انسانی فطرت کو بیدار کرکے تمام انسانوں کو اسلام کا ہمدم و ہمدرد بنانے میں بڑی مدد کی ہے۔ اس انقلاب کے اصولی و منطقی طرزعمل نے اسے ایک مثالی حیثیت بخشی ہے اور اسی لئے دنیا کی اہم انقلابی تحریکوں میں اس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے، چنانچہ جس وقت ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا مہاتما گاندھی نے کہا تھا۔ "حسینی اصول پر عمل کرکے انسان نجات حاصل کر سکتا ہے" اور پنڈت نہرو نے اقرار کیا تھا کہ "امام حسین (ع) کی شہادت میں ایک عالمگیر پیغام ہے۔

 جناب علامہ اقتدار حسین نقوی صوبائی سیکریٹری جنرل نے مجلس وحدت کی ضرورت واہمیت اور حالات حاضرہ نے حالات حاضرہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا : مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاءاس کا نصب العین ہے۔مجلس کو تشکیل پائے زیادہ سے زیادہ سات سال ہوئے(۱۰ اپریل ۲۰۱۰ مجلس کا یوم تاسیس ہے ۔ اب اس مدت میں پاکستان جیسے معاشرے میں حالات کومدنظر رکھا جائے تو مجلس وحدت سے وہ توقع نہیں کی جاسکتی جو کئی دہائیوں پر محیط اور تسلسل رکھنے والی جماعت سے کی جانی چاہیے مجلس کی فعالیت زیادہ تررضاکارانہ ہیں مجلس کے اندر بااخلاص لوگ رضاکارانہ طور پر فعال ہیں وہ اپنے الھی جذبے میں سرگرم ہیں ان کے سینوں میں موجود آرزو اور وژن انہیں میدان میں رکھے ہوئے ہے۔مجلس کی تشکیل ملت میں لگی آگ بجھانےوالے ریسکیو آپریشن کی طرح تھی جس میں ہنگامی کیفیت ہوتی ہے اب جب کہ آگ بجھ گئی ہے تو صفائی و ستھرائی کا عمل بھی انجام پارہا ہے خواہ اسباب کچھ بھی ہوںبہت سے دوست اس لئے فعال نہیں ہوں گےکہ شائد ان کے اپنے ذاتی مسائل آڑے آرہے ہوں جس کا انہیں حق ہے گرچہ اجتماعی الھی نہضتوں کا خاصہ ہے کہ کچھ تومشکلات سہہ نہیں پاتےاور کچھ کسی وجہ سے راستے بدل لیتے ہیں۔بہرحال مجموعی طور پر صورتحال اطمینان بخش ہے ۔ حالات و واقعات سے گھبرانا نہیں چاہئے ۔مجلس پر بات کرنے سے پہلے مجلس کی تشکیل سے پہلے والی صورتحال مکمل طور پر ذھن میں رہے تو تب اس عرصے میں آنے والی پیش رفت اور تبدیلیاں نظر آئیں گی اور احساس ہو گا کہ سب کچھ خو بخود نہیں انجام نہیں پایا بلکہ ان اہم نتائج کے حصول کے لئے رہنمائوں،کارکنان اور مجلس کی حمایت کرنے والے عوام نےملکر قربانیاں دیں ہیں اور جس سرزمین پر دشمن ملت تشیع کو اجتماعی میدان سے نکال کر دیوار سے لگا دینے پر مطمئن ہو چکا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اسی میدان میں شیعہ قوم ایک ایسی قدرت کے ساتھ اتری ہے کہ تکفیریت کو تنہا کر دیا ہےصرف یہی نہیں بلکہ تکفیریت کے مرکز سے اندرون ملک ان کے اشاروں پر چلنے والے حکمران ،سیاستدان اورتکفیری سہولت کاروں کو کئی موقعوں پر ذلت ورسوائی کا بھی سامنا کرنا پڑاہے۔بیرون ملک شیعہ حضرات بھی اندرونی ملک اکثریت کی طرح اس وقت جس پاکستانی شیعہ جماعت پر سب سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں اوراس نے توقعات وابستہ کر رکھی ہیں وہ واحد قومی جماعت مجلس وحدت مسلمین ہے۔اویہی دشمنوں کی آنکھ کا کانٹاہےدشمن سب سے زیادہ اس کے خلاف سازشیں اور پروپیگنڈےکرتا ہے۔ہمیں ان گذشتہ نو سالوں پر محیط اس کی جدوجہد اور اسکے ثمرات پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے اور بہتری کے لئے مزید جدوجہد کرنی چاہیے سفر طولانی اور رکاوٹیں بہت ہیں۔ دردمندوں کو نصیحتوں اور مشوروں کے ساتھ ساتھ اپنے حصے کا بوجھ بھی اٹھانا چاہیے۔تاکہ سفر تیزی کے ساتھ درست سمت پر جاری وساری رہے قائد اعظمؒ وشہید قائدؒکے یہ بااخلاص فرزند جنہوں رات دن کی محنت سے مجلس وحدت کو اس مقام پر پہنچایا کہ فقط ملت تشیع ہی نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کا سہارا اور خدمت گزاربن چکی ہے اور اپنے ہم وطنوں کے ساتھ ملکر اسلام وپاکستان کے دشمنوں کو ہر میدان میںرسوا وذلیل بھی کررہی ہے اور وطن عزیز کی تعمیر وترقی اور عدالت الہی کے قیام میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہے ۔الحمدللہ آج جماعت کی نظریاتی بنیادیں بہت مضبوط ہیں وژن اور مشن بھی واضح ہے اس کی طرف حرکت بھی تیزی سے جاری ہے۔

علامہ اقتدار حسین نقوی نے نیز عزاداری کے حوالے ملک میں کئی ایک ایشو پہ تفصیلی گفتگو کی اور مرکز کی پالیسی کے خطوط پہ بات چیت کی۔ علامہ امیر حسین ساقی اور علامہ وسیم عباس معصومی صاحب نے غیبت امام زمان (عجج) اور ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے درس دیئے ۔ علامہ قاضی نادر عباس علوی نے ایک نہضتی کارکن کی خصوصیات کے موضوع پر خطاب کیا اور ضلع ملتان کے آرگنائزر برادرفخر عباس نے ڈائیلاگ اسکلز کے موضوع پر گفتگو کی ۔جبکہ اس پروگرام کو آرگنائز کرنے میں برادر محمد رضا مومنی نے ان تھک محنت کی اور برادران کے ساتھ ملکر اپنی بھر پور کرادار ادا کیا ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .