۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا منظور علی نقوی آمروہوی

حوزہ/ اگر الوداع کی صدا بلند کرو تو ہر اس فکر کو الوداع کہو جس میں یزیدی بو آتی ہو ہر اس فعل کو الوداع کہو جو ہمیں  مقصد حسین سے دور کرتا ہو ظلم کو الوداع کہو،  جھوٹ کو الوداع کہو، غیبت کو الوداع کہو، ہر اس فعل کو الوداع کہو جس کے خلاف حسین ابن علی نے قیام کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا منظور علی نقوی آمروہوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امام حسین علیہ السلام نے انسانیت کا پیغام دیا ہے اور ظلم کے خلاف خاموش نہ رہنے کا درس۔ بارگاہ حسین وہ بارگاہ ہے جس میں نہ تو کوئی قبیلے کی قید ہے اور نہ ہی مذھب و فرقے کی جو بھی اور جس وقت بھی اس بارگاہ میں آکر ھدایت حاصل کر سکتا ہے۔ جس کی روشن مثال کربلا سے حاصل ہو جاتی ہے حضرت حر و حضرت وھب کی صورت میں تا قیامت تک اب کوئی آسانی سے اس مقام پر نہیں پہنچ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایام عزا کا سلسلہ اپنے اختتام پر ہے اور جب بھی ایام عزا کے ایام نزدیک آنے لگتے ہیں یا شروعات کے ایام ہوتے ہیں بہت سے نئے سوالات آنے لگتے ہیں تو کہیں کچھ فتنہ پھلانے والے نئے فتنوں کے ساتھ نظر آنے لگتے ہیں لیکن جو حقیقی عزادار ہیں ان پر ان فتنوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور وہ خلوص کے ساتھ عزاداری کو برپا کرتے ہیں اور بی بی زھراء س کو انکے لال کا پرسا پیش کرتے ہیں۔

مزید کہا کہ لیکن جب یہ ایام  آخری لمحات میں پہنچ جاتے ہیں اور ہر جگہ اداسی چھانے لگتی ہے الوداع  یا حسین الوداع یا حسین کی صدا بلند ہونے لگتی ہے تو ایک سوال اکثر کے ذہن میں آتا ہے کہ کیا صحیح ہے کہ ہم امام حسین علیہ السلام کو الوداع کہیں؟ کیا الودع کا لفظ استعمال کرنا صحیح ہے اس طرح کے بہت سے سوالات ہر سال لوگوں کے ذہن میں آتے رہیں ہیں۔

علماء اور مفکرین ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں کہ ایام عزا انسان سازی کے ایام ہیں اور انسان اپنی تمام دلی خواہشات کو کنارے رکھ ذکر حسین و ماتم حسین میں مشغول رہتا ہے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خداوند متعال کے حضور حاضر رہتا ہے۔
اب جب انسان سازی ہو جاتی ہے تو اب وہ حسین جن کے ذکر سے انسان ایام عزا میں ہر طرح کے گناہ و خباثت سے پاک ہو جاتا ہے، پھر انکے لئے الودع کا لفظ کس طرح  استعمال ہو۔  اور بجائے الوداع یا حسین کے ان تمام چیزوں کے لیے استعمال ہو جو حائل ہو وقت کے حسین تک پہنچنے میں یا راہ حسین علیہ السلام پر گامزن رہنے میں۔ یہاں سے ایک نتیجہ ملتا ہے کہ ہر انسان کو چاہیے کہ اپنے بدن سے حسینیت کی خوشبو کو جانے نہ دے اور جس طرح ایام عزا میں حسینی فکر و خوشبو کو اپنے وجود میں رکھا اسی طرح ایام عزا کے بعد اس کو اپنے اندر باقی رکھیں، کیونکہ ایام عزا کے بعد اب امتحان شروع ہوگا ہمارا کہ ہم نے جو عھد امام‌ حسین علیہ السلام سے لیا ہے ایام عزا میں آیا ہم اس پر باقی رہ پاتے ہیں یا نہیں۔

مولانا منظور نقوی نے کہا کہ ہر اس فعل کو الوداع کیا جائے کہ جس کے خلاف امام حسین علیہ السلام نے جنگ کی جس طرح حسین ابن علی فقط ایک شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک فکر کا نام ہے جو تا قیامت تک انسان سازی کام کرتی رہے گی اسی طرح یزید بھی فقط ایک شخص نہیں بلکہ ایک فکر ہے جو امام وقت کے مقابلے میں کھڑا کرنے کا سبب بنے گی۔

آخر میں کہا کہ اگر الوداع کی صدا بلند کرو تو ہر اس فکر کو الوداع کہو جس میں یزیدی بو آتی ہو ہر اس فعل کو الوداع کہو جو ہمیں  مقصد حسین سے دور کرتا ہو ظلم کو الوداع کہو،  جھوٹ کو الوداع کہو، غیبت کو الوداع کہو، ہر اس فعل کو الوداع کہو جس کے خلاف حسین ابن علی نے قیام کیا۔خداوند متعال ہم کو توفیق دے کہ ہم راہ حسینی پر باقی رہ سکیں۔آمین 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .