۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
قرآن و عترت فاونڈیشن علمی مرکز قم،ایران میں "قرآن وامام حسینؑ" پروگرام کا ۱۴واں دور

حوزہ/ ایام عزا میں قرآنی فعالیت کے تعلق سے جسمیں ہزار اشعار، ۱۰۰ مقالہ اور دیگر بہترین خطیب کے آثار جمع ہوئے۔           

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا شمع محمد رضوی مدیر و بانیقرآن و عترت فاونڈیشن علمی مرکز قم نے بتایا کہ قم المقدسہ میں ایام عزا کےآخری تاریخ میں میں ہرسال خمسہ مجالس بعنوان قرآن و امام حسینؑ پروگرام منعقد ہوا کرتا ہے جسمیں یہ ایک قاری قرآن سب سے پہلے تلاوت کرتا ہے پھر ایک ناظم نظامت کو اور شاعر ہر روز دیے گیے مصرعہ پر شعر پیش کرتا ہے اور تحلیل گر اپنے جزئی موضوع پر مطالب کو پیش کرتا ہے پھر خطابت اور نوحہ و ماتم ہوتا ہے۔

قرآن و عترت فاونڈیشن علمی مرکز قم،ایران میں "قرآن و امام حسینؑ " پروگرام کا ۱۴واں دور

اس بابرکت برنامہ اور پروگرام کا یہ اثر ہوا کہ ایام عزا میں قرآنی فعالیت بڑھ چڑھکر ہونے لگی جسمیں ہزار اشعار، ۱۰۰ مقالہ اور دیگر بہترین خطیب کے آثار جمع ہوئے۔                   

اس سال اس خمسے کی پہلی مجلس میں تلاوت قرآن مجید حافظ کل قرآن مجید سید عباس محمد رضوی نے اور دئےگئے مصرع طرح پر سید رضا عباس فہمی نے اشعار کو پیش کیا۔ خطابت کے فرایض کو انجام دئے حجۃ الاسلام و السملمین مولانا ظہور مہدی مولائی نے۔

قرآن و عترت فاونڈیشن علمی مرکز قم،ایران میں "قرآن و امام حسینؑ " پروگرام کا ۱۴واں دور

آپ نے فرمایا!یاد رکھنے کی بات ہے حسین کی چاہت کا نام خدا ہے لہذا جتنی بڑی چاہت ہے اتنی بڑی حسین کی عظمت ہے حسین نے کائنات میں بڑھکر سب سے زیادہ اللہ کوچاہا ہے اور جوکچھ حسینؑ کے پاس تھا اس چاہت میں اسے قربان کیاہےکی نگاہ میں وطن عزیز ہوتا ہے حسینؑ نے اسے قربان کیا ،مال انسان کے لئے عزیز ہوتا ہے اسے قربان کیا، ایسا نہیں تھاکہ مولا حسینؑ کے پاس کچھ بھی نہیں تھا بلکہ مدینہ میں باغات تھے زمینے تھیں جب آپ نے عمر سعد سے مکالمہ کیا ہے تو اس نے کہا میری جاگیر کا کیاہوگا توآپ نے فرمایا! میرا باغ جو مدینہ میں ہے اس سے چشمہ جاری ہوتا ہے وہ تیرے نام کردوں گا،اسکا مطلب حسینؑ نے فقط مدینہ نہیں چھوڑا تھا بلکہ مدینہ میں اپناگھر بھی چھوڑا جسمیں انبیاء کے آثار پائے جاتے تھے،امام حسینؑ نے یہاں تک کے اولاد کو بھی قربان کردیا انسان کا ذہن کام نہ کرے جب اس حسینؑ کی مصیبت کو سوچ لے آپ اپنے ننھے مجاہد حضرت علی اصغرؑ کالا شہ اپنے ہاتھوں پہ لئے ہیں تو خدا سے کہتے ہیں خدایا مصیبت تو بڑی ہے مگر اسلئے میرے لئے آسان ہے کہ تو دیکھ رہاہے، یہ اللہ کی چاہت ہے حسین اللہ اکبر کو چاہتے ہیں اسلئے حسینؑ کی چاہت بھی اکبر ہے اسلی لئے حسین کا مقام اکبر ہے، کربلا میں حسینؑ کے بے احترامی نہیں کی گیئ ہے بلکہ اللہ کی بے احترامی کی گئ، یہ حسینؑ کا لاشہ پائمال نہیں ہو رہا ہے بلکہ اللہ کی عظمت کوپا ئمال کیا جارہا ہے،یہ صحیح ہے کہ اللہ محلا مظلوم واقع نہیں ہوسکتا،لیکن مقاما اور مرتبے کے لحاظ سے تو مظلوم واقع ہوسکتا ہے، جوبھی ظلم ہوا ہے وہ عظمت الہٰی پرظلم ہوا ہے لقب ثاراللہ بہت بڑالقب ہے۔

 مولانا موصوف اس  قدیم پروگرام کی اہمیت کوواضح کرنے کے لئے بہت ساری علمی گفتگو کرتے ہوئے آپ نے قرآن اور امام حسینؑ کی۱۵ شباہت پیش کی، مومنین نے کافی دلچسپی سے آپکے بیان کو سنا اور آپکے حق میں دعائیں کی۔ 

قرآن و عترت فاونڈیشن علمی مرکز قم،ایران میں "قرآن و امام حسینؑ " پروگرام کا ۱۴واں دور

                                                                                      

تبصرہ ارسال

You are replying to: .