۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
وسیم مرتد

حوزہ/ اگر وسیم مرتد ہندو بننے کے بعد بھی اسلام، اس کے پیغمبر اور اس کی مقدس کتاب کے بارے میں بد زبانی کرتے رہیں گے تو مسلمان بھی ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندستان کے معروف صحافی اور قومی خبروں کے چیف آڈیٹر نے اپنے ایک مضمون میں کہا کہ یوپی شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم آخر کار باقاعدہ ہندو ہوگئے ہیں۔ اتر پردیش کے ڈاسنا میں دیوی مندر میں انہوں نے مہنت یتی نرسنگھا گری کے ذریعے ہندو مذہب قبول کیا۔ اس موقع پر دیوی مندر میں مذہبی پروگرام بھی ہوئے۔ وسیم نے اپنا ہندو نام ہربیر تیاگی رکھا ہے۔ وسیم چند روز پہلے یہ اعلان کرچکے تھے کہ مرنے کے بعد انہیں دفنایا نا جائے بلکہ ہندو رسم و رواج کے مطابق انہیں نذر آتش کیا جائے۔ باقاعدہ طور پر تو وسیم نے ہندو بننے کا اعلان اب کیا ہے لیکن اسلام کے دائرے سے تو وہ بہت پہلے ہی خارج ہو چکے تھے۔ 26 آیتوں کو قرآن سے ہٹانے کا مطالبہ ہو یا خود قرآن مرتب کرکے شائع کرنے کا معاملہ ہو، وہ عملی طور سے اسلام کے دائرے سے نکل چکے تھے۔26 آیتوں کو قرآن سے ہٹانے کا مطالبہ ہو یا خود قرآن مرتب کرکے شائع کرنے کا معاملہ ہو، وہ عملی طور سے اسلام کے دائرے سے نکل چکے تھے۔ پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں توہین آمیز کتاب شائع کرکے انہوں نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ مسلمان نہیں رہ گئے ہیں۔

ہندو بننے کی راہ پر چلنے کا ثبوت وہ یہ اعلان کرکے بھی دے چکے تھے کہ ان کی لاش کو جلایا جائے۔ اسلام کے خلاف مسلسل بکواس کرنے کے بعد وسیم کے پاس کوئی دوسرا مذہب اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ بچا ہی نہیں تھا۔ جس قسم کی حرکتیں انہوں نے گزشتہ پانچ برسوں میں کی ہیں، ان کی وجہ سے انہیں یہ بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ مرنے کے بعد نہ انہیں کفن نصیب ہوگا نہ نماز جنازہ ہوگی اور نہ دو گز زمین دفن ہونے کے لئے ملے گی۔ اس لئے ان کے پاس ہندو بننے کے سوا کوئی اور راستہ بچا ہی نہیں تھا۔ وسیم کے باقاعدہ ہندو ہو جانے کے بعد یہ سوال ذہن میں آسکتا ہے کہ کیا اب مسلمانوں کو ان کے خلاف احتجاج بند کر دینا چاہئے۔ اس کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ ہندو بننے کے بعد وسیم اسلام، قرآن اور رسول اکرم کے بارے میں کس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ کیونکہ ہندستان جیسے جمہوری، سیکولر اور آزاد ملک میں کسی مذہب کے ماننے والے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسرے مذہب کی مقدس کتاب اور شخصیات کی توہین کرے۔

اگر وسیم ہندو بننے کے بعد بھی اسلام، اس کے پیغمبر اور اس کی مقدس کتاب کے بارے میں بد زبانی کرتے رہیں گے تو مسلمان بھی ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہیں گے۔ وسیم کے لئے اب بہتر یہی ہے کہ جس اسلام، جس قرآن اور جس رسول کو وہ نا پسند کرتے تھے وہ اس کو ترک کرچکے ہیں اور ایک دوسرا مذہب اختیار کر چکے ہیں تو اب وہ اسلام، قرآن اور رسول اللہ کے سلسلے میں بکواس کرنا بند کر دیں۔ وہ اگر ایک اچھا اور سچا مسلمان نہیں بن سکا تو کوئی بات نہیں لیکن دنیا کو ایک اچھا ہندو تو بن کر دکھا دیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .