۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
علامہ حافظ ریاض حسین نجفی

حوزہ/ جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ والدین کی کسی بات پر ناگواری کا اظہار تک نہیں کرنا چاہیے،جیسے والدین بچپن میں بچے کی کسی بات پر ناگواری ، بے صبری نہیں دکھاتے تھے۔اسی طرح ان کے بڑھاپے میں اولاد کو بھی ان کی کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ اسلامی تعلیمات میں عقیدہ توحید کی بنیادی اہمیت ہے یعنی فقط خدا اور بس خدا کی اطاعت کا حکم ہے، ہرکام میں خالق کائنات کی رضامندی کا خیال لازم ہے۔ تمام توجہات کا مرکز فقط اللہ تعالی ہونا چاہیے۔ لہٰذا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعثت کے بعد پہلا پیغام ہی یہی دیا کہ لا الہ الا اللہ کہو تو فلاح پا جاؤ گے۔یعنی دل کی گہرائیوں سے لا الہ الا اللہ کا مطلب پوری زندگی پر حکم خدا کا نافذ کرنا ہے ۔ اللہ کی اطاعت کے بعد والدین کی اطاعت ،حسن سلوک، خدمت، اور فرمانبرداری کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے کہ والدین کو اف تک نہ کہو ۔یہ وہ کم ترین لفظ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کی کسی بات پر ناگواری کا اظہار تک نہیں کرنا چاہیے،جیسے والدین بچپن میں بچے کی کسی بات پر ناگواری ، بے صبری نہیں دکھاتے تھے۔اسی طرح ان کے بڑھاپے میں اولاد کو بھی ان کی کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔

جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطبہ جمعہ میں حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ سورہ حجرات میں رسول خدا کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے،یہی حکم والدین کے حق میں بھی دیا گیا ہے کہ ان کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ رکھو، انہیں تیز نگاہوں سے نہ دیکھو بلکہ و شفقت سے دیکھو اور بوقت ضرورت ان کی طہارت و صفائی بغیر کسی ناگواری کے کرو، جیسے تمہارے بچپن میں وہ تمہاری صفائی اور طہارت بغیر کسی ناگواری کے کرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ والدین کی اطاعت عبادت ہے ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نوجوان کو جنگ پر جانے کی اجازت نہ دی اور والدین کی خدمت کا حکم دیا۔

حافظ ریاض نجفی نے کہا والدین اگر کافر ہوں تب بھی ان کی خدمت کا حکم ہے ، البتہ جہاں خدا کی نافرمانی لازم آتی ہو ،ان امور میں والدین کی اطاعت نہ کی جائے ۔حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اولاد سے محبت کا عملی نمونہ بھی پیش کیا جس کی مثال خاتون جنت سیدہ فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔ سیدہ کائنات ؑ نے فدک چھینے جانے کے بعد دربار خلافت میں جو خطبہ دیا ،اس کی ابتدا بھی خاتون جنت نے توحید اور رسالت کی عظمت کے بیان پر کی، بعد میں اپنے حق کے لیے دلائل دئیے۔ توحید کے بارے میں حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا نے اسی انداز میں خطبہ دیا جو حضرت علی علیہ السلام کی فصاحت و بلاغت کا خاصہ تھا ۔

انہوں نے عقیدہ توحید کے بنیادی نکات جو بیان فرمائے ، ان کا یہ حصہ لائق مطالعہ اور غور و فکر کے قابل ہے ۔ اس کے بعد اپنے والد کی رسالت کی گواہی دی اور شان رسالت کے بنیادی مطالب بیان فرمائے۔ان کے خطبہ میں خطابت علی علیہ السلام کاہر جملہ بے مثال ہے کہ اللہ اس وقت عالم تھا ،جب کوئی معلوم نہ تھا ۔ اللہ اس وقت راز ق تھا جب کوئی مرزوق نہ تھا، اللہ اس وقت خالق تھا جب کوئی مخلوق نہ تھی ۔

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اہل بیتؑ کے نورپیدا کیے اور بہت دیر بعد ان کے جسم خلق کئے اور دنیا میں بھیجے جیسے قرآن مجید کو بھی سب سے آخر میں بھیجا، انہیں دونوں یعنی قرآن و اہل بیت ؑسے تمسک اور اطاعت راہ نجات کا باعث ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .