۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
فلسطین

حوزہ / اب جبکہ دنیا کا بیشتر میڈیا یوکرین میں ہونے والی جنگی صورتحال کو وسیع پیمانے پر کور کرتے ہوئے فلسطین کے بارے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، تو ہسپانوی زبان کی ایک خبر رساں ایجنسی نے یوکرین اور فلسطین کا موازنہ کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہسپانوی زبان کی سائٹ laizquierdadiario نے اپنی ایک رپورٹ میں یوکرین اور فلسطین کے حوالے سے میڈیا کے نقطۂ نظر کا موازنہ کیا ہے۔ اس رپورٹ کا ترجمہ درج ذیل ہے:

جب سے یوکرین پر روسی حملہ شروع ہوا ہے، اس حملے کی مختلف داستانیں بھی شروع ہو گئی ہیں اور عالمی کیمروں نے اسی منظر نامے پر فوکس کر رکھا ہے۔ ایک فرضی عفریت دشمن کی تصویر کشی کہ جمہوری قوتوں کو جس کا سامنا ہے۔ انہیں تو ایسے ماحول میں مغرب کی قابلِ قبول حقیقت کی بنا پر ہی عکاسی کرنی ہے۔ پس نتیجے کے طور پر، اس تنازعہ نے اسرائیلی حکومت کو فلسطینی عوام کے خلاف مزید جارحیت، قبضے اور نوآبادیات کو استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

جب سے روس نے یوکرین پر حملہ کیا، فلسطینی عوام کو سرکوب کرنے کے طریقے جیسے نوجوانوں اور بچوں کا اندھا دھند قتل، سڑکوں پر لوگوں پر ظلم و جبر، اسرائیل کی جانب سے لوگوں کے گھروں کی تباہی اور خود لوگوں کی طرف سے گھروں کو جبری طور پر تباہ کرانا، اسرائیلی آباد کاروں اور شہریوں کے حملے اور شب و روز اچانک ہونے والے چھاپوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

اسرائیلی فوجی مارچ کے اوائل سے اب تک مغربی کنارے میں ایک درجن سے زائد فلسطینیوں کو گولی مار کر ہلاک کر چکے ہیں۔

یہ صرف چند حقائق ہیں جن کا فلسطینی عوام نے حالیہ دنوں میں اسرائیلی استعمار اور فوجی قبضے کے نسل پرستانہ نظام کے تحت تجربہ کیا ہے۔ ایک فلسطینی پادری کا اس بارے میں کہنا ہے: ’’اسرائیل اب یہاں ایسا (ظلم) کر رہا ہے، جبکہ دنیا صرف یوکرین کو دیکھ رہی ہے۔‘‘

کسی ملک نے آج تک اسرائیل سے اپنا سفارت خانہ واپس نہیں لیا اور حتی وہ اس کی مذمت کرنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے۔ فلسطینیوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے اب تک اسرائیل کے خلاف کوئی اقتصادی پابندیاں بھی نہیں لگائی گئیں جیسا کہ روس پر عائد کی گئی ہیں۔ اس دوران روس نے ایک جارحانہ کارروائی شروع کر دی ہے جس کے ذمہ دار بھی امریکہ اور یورپی یونین خود ہیں۔

اب جب کہ تقریباً 10 ملین فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں اور وہ پابندی کے باوجود اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں لیکن اسرائیلی حکومت یوکرائنی مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھول رہی ہے۔

انسانی حقوق کے ایک کارکن کے مطابق وہ فلسطینی عوام پر حملے کے معاملے کو مذہبی مسئلہ بنانا چاہتے ہیں اور ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرنا چاہتے ہیں جیسے ہم "القاعدہ" ہوں لیکن یہ ایک "علاقائی تنازعہ" ہے۔ اسرائیل کا یہ استعماری نوآبادیاتی نظام اور بطور ملک و ریاست ان کا قیام فلسطین میں 1948ء سے تشکیل پایا ہے۔

لیکن مزاحمت پھر بھی جاری ہے۔ "الخلیل" نامی علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون جو اب تک 25 بار قید ہو چکی ہے، اس ساری صورتحال کو کچھ یوں بیان کرتی ہے: "یہ ہمارے گھر ہیں، یہ ہماری زمین ہے، ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے"۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .