۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
حجت الاسلام سید ذاکر حسین جعفری

حوزہ/ عالمی اور اسلامی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کو مسئلہ فلسطین کے صحیح حل کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے اور فلسطین کے مظلوم اور نہتے عرب مسلمانوں کو اسرائیلی مظالم سے نجات دلوانے میں اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے مذہبی و بین الاقوامی امور کے ماہر اور مہر نیوز ایجنسی اردو کے ایڈیٹر حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید ذاکر حسین جعفری نے یوم القدس کی مناسبت سے کہا کہ مسئلہ فلسطین دنیائے اسلام کا اہم اور سرفہرست مسئلہ ہے ۔ مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈالنے کے سلسلے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کافی جد وجہد اور تلاش و کوشش کی۔ مسئلہ فلسطین کو انقلاب اسلامی ایران کی شکل میں ایک ایسا حامی، ناصر اور مددگار مل گیا ، جس کے بعد مسئلہ فلسطین ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگیا اور انقلاب اسلامی ایران کی بدولت بیت المقدس اور مسئلہ فلسطین کے خلاف امریکہ کی تمام گھناؤنی سازشیں ناکام ہوگئیں۔

انہوں نے کہا کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کےنام سے موسوم کرکے مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لئے زندہ کردیا اور مسئلہ فلسطین کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کو ناکام بنادیا۔ عالمی یوم قدس آج مظلوم کی حمایت اور ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کا معیار بن گيا ہے۔ یوم قدس حق اور باطل کی پہچان بن گیا ہے ۔ہم امام خمینی (رہ) کی اس حکیمانہ اورمدبرانہ حکمت عملی کو سلام پیش کرتے ہیں جنھوں نے شیعہ اور سنیوں کو عالمی یوم قدس کے ذریعہ ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا۔

مزید کہا کہ یوم قدس شیعوں اور سنیوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کی شاندارعلامت بن گيا ہے۔ ایرانی عوام اور حکومت کی طرف سے فلسطینی عوام کی حمایت کا سلسلہ جاری ہے۔ جس طرح ایران فلسطینیوں کی مخلصانہ حمایت کررہا ہے اگر اسی طرح عرب اور اسلامی ممالک بھی فلسطینیوں کی مخلصانہ حمایت کرتے تو مسئلہ فلسطین بہت جلد حل ہوجاتا، عرب ممالک کے حکمرانوں میں جذبہ ایمانی، اسلامی اور اخلاقی کا فقدان ہے اور وہ خطے میں امریکی اور اسرائیلی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور فلسطینیوں کی پشت میں خنجر گھونپ رہے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ ایران کے روحانی پیشوا رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے حالیہ خطاب میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں عرب اور اسلامی ممالک کی غفلت اور کوتاہی پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: " فلسطین کے بارے میں اسلامی ممالک نے اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا جبکہ بعض اسلامی اور عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم کرلئے ہیں جس کے بعد فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و ستم میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: " اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ مصر نے 40 سال قبل اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے تھے کیا مصر، اردن اور ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و ستم میں کمی واقع ہوئی ہے ؟ نہیں بلکہ اسرائيلی مظالم میں اضافہ ہی ہوا ہے"۔
اس میں کوئي شک و شبہ نہیں کہ مسئلہ فلسطین دنیائے اسلام کا سب سے پرانا، قدیمی اور اہم مسئلہ ہے اور عالمی سامراجی طاقتیں خاص طور پر امریکہ، یورپ اور اس کے اتحادی ممالک اس مسئلہ کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ آج مسئلہ فلسطین حق و باطل کی پہچان کا معیار بن چکا ہے ۔ امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی ممالک اس مسئلہ کوپس پشت ڈالنے ، فراموش کرانے اور اسے نظر انداز کرنے کی گھناؤنی سازشوں میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ فلسطین اور مسجد الاقصی میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ مسئلہ فلسطین آج بھی زندہ ہے ۔ عرب حکمرانوں کی خیانت ، غداری اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے مسئلہ فلسطین کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔ فلسطینی آج بھی اپنی سرزمین کی آزادی اور بیت المقدس کی آزادی کے سلسلے میں اپنی قربانیاں پیش کررہے ہیں۔ فلسطینی عوام استقامت اور پائداری کے ساتھ اسرائیلی مظالم اور عالمی سامراجی طاقتوں کی گھناؤنی سازشوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے ہیں۔

مولانا ذاکر حسین جعفری نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کا بہترین راہ حل وہی ہے جو رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پیش کیا ہے ۔ یہ راہ حل جامع، جمہوری اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے۔ اس راہ حل کے مطابق فلسطین میں رفرینڈم کرایا جائے کیونکہ ریفرنڈم فلسطینی مسئلہ کا ایک بنیادی ، جمہوری اور اساسی حل ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے اس مؤقف کو اقوام متحدہ میں بھی درج کروا رکھا ہے یہ ایران کا سیاسی مؤقف ہے جو مسئلہ فلسطین کا بہترین راہ حل ہے ۔ فلسطینی مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں " کو اپنی حکومت تشکیل دینے اور اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور دیگر ممالک سے آکر فلسطین میں بسنے والے غیر فلسطینیوں کو اپنے اپنے ممالک میں واپس جانا چاہیے اور فلسطینی مہاجرین کو اپنی فلسطینی سرزمین میں واپس جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ عالمی اور اسلامی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کو مسئلہ فلسطین کے صحیح حل کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے اور فلسطین کے مظلوم اور نہتے عرب مسلمانوں کو اسرائیلی مظالم سے نجات دلوانے میں اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .