۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
امام رضا کانفرنس

حوزہ/ امام رضاؑ کے اہم القاب میں ایک لقب عالم آل محمد بھی ہے،آپ نے خراسان میں رہ کر پوری دنیا تک پیغام الہٰی کو پہنچایاگویا یہ علم کا ایک روشن سورج تھا جو خراسان سے تو طلوع ہوا لیکن اس کی کرنیں پوری دنیا تک پہنچ گئیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رضاعلیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے پانچ ملکوں کے علمائے کرام کے ذریعے ایک عظیم الشان انٹرنیشنل کانفرنس مولانا سیداحتشام عباس زیدی کی صدارت میں منعقد ہوئی۔

اپنی صدارتی تقریر میں عظیم ادیب و محقق حوزہ علمیہ قم کے معتبر عالم دین مولانا سید احتشام عباس زیدی نے امام رضاؑ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ماہ ذی القعدہ بیحد محترم ہے اور اس کی اہم وجہ یہ ہیکہ اس ماہ میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت ہوئی ہے،یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام انبیا کامقصد لوگوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا تھا ہمارے نبیٔ کریم کےبعد یہ سلسلہ باب مدینۃ العلم تک پہنچا چونکہ علم راکد نہیں ہے یعنی ٹہرتا نہیں ہے بلکہ نہر کی مانند جاری رہتا ہے اس لئے مشیت نے چاہا کہ علم کی یہ ندی مدینے سے نکل کر طوس تک پہنچے اسی لئے امام رضاؑ کے اہم القاب میں ایک لقب عالم آل محمد بھی ہے،آپ نے خراسان میں رہ کر پوری دنیا تک پیغام الہٰی کو پہنچایاگویا یہ علم کا ایک روشن سورج تھا جو خراسان سے تو طلوع ہوا لیکن اس کی کرنیں پوری دنیا تک پہنچ گئیں۔

نجف اشرف میں مقیم مولانا سید رومان رضوی نے امام رضاعلیہ السلام کی ایک حدیث پیش کی جس میں امام نے فرمایا؛ رحم اللہ عبدا من احیا امرنا۔خدا اُس بندے پررحم نازل کرے جو ہمارے پیغام کو زندہ رکھے راوی نے پوچھا وَ کیف یحیی امرکم۔ آپ کے پیغام کو کیسے زندہ رکھا جاسکتا ہے تو امام نے فرمایا یتعلم علومنا وَ یعلمھاالناس ۔پہلے وہ ہمارے پیغام کو خود سیکھے پھر لوگوں کو تعلیم دے فان الناس لو علموا محاسن کلامنالاتبعونا ۔اگر لوگ ہمارے کلام کی خوبصورتی کو جان لیں تو خود بخود ہمارے پیروکار بن جائیں گے

ٹورنٹو کینیڈا سے عالمی شہرت یافتہ خطیب مولانا سید امام حیدر زیدی نے امام رضاؑکو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ امام رضا علیہ السلام پر جو ظالم بادشاہوں نے مظالم ڈھائے ہیں اُن سے کتابیں بھری پڑی ہیں ان ظالم بادشاہوں سےجب یہ پوچھا گیا کہ تم لوگ اہلبیت اور ان کے شیعوں پر اتنا ظلم کیوں ڈھاتے ہو تو انہوں نے نہایت ہی بےحیائی و ڈھٹائی سے جواب دیا کہ ان پر ظلم ہم اس لئے کرتے ہیں کہ یہ لوگ حق کا دفاع کرتے ہیں اس واقعے سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ مظلوم ، ظالم کے ظلم کا اس لئے شکار ہوتا ہے کہ وہ حق کا مدافع ہوتا ہے۔

شہر بنگلور سے بزرگ عالم جناب مولانا سید محمد ابراہیم نے فرمایا کہ امام رضاؑ ہمارے وہ امام ہیں جنہوں نے باطل سے مختلف بہانوں سے مناظرے کئے اور انھیں شکست فاش دے کر قیامت تک کیلئے ذلیل ورسوا کردیا،امام رضاؑ نے اہلبیت کی شان میں قصیدہ پڑھنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی اس لئے کی کہ اس بہانے سے علوم و فضائل اہلبیت سے دنیا آشنا ہوسکے۔

الہ آباد سے ایک محترم عالم و خطیب مولانا سید کلب عباس امام رضاؑ کی شان میں نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس پُر آشوب زمانے میں ضرورت ہیکہ ہم امام رضاؑ کے اخلاق و پیغام کو عام کریں مثلاً امام رضاؑ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی مومن کو خوش کرے یا اس کی مدد کرے تو روز قیامت خدا اسے خوش کرے گا اور اسکی مدد کرے گا ۔اگر امام رضاؑ کی یہی ایک حدیث لوگوں تک پہنچ جائے تو ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔

مولانا سید حسین علی نواب جو اٹلانٹا امریکہ سے براہ راست خطاب کررہے تھے امام رضاؑ کے فضائل ومناقب کو بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ امام رضاؑ نے اپنے چاہنے والوں کو ہمیشہ یہ پیغام دیا ہے کہ ہمارے شیعہ ہمیشہ روح اور جسم دونوں کو سنوارنے اور مضبوط کرنے کی کوشش کریں ہمارے علما کی تاریخ پر اگر نگاہ غائر سے جائزہ لیا جائےتو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہمارے بزرگ علما و مراجع کی عمر زیادہ اسلئے ہوتی تھی اور ہے کہ وہ روح اور جسم کے درمیان بیلنس بنا کر زندگی گزارتےتھے۔

شہر حیدرآباد سے ایک فعال عالم دین مولانا علی حیدر فرشتہ نے اپنی پُرمغز تقریر کے دوران فرمایا کہ امام رضاؑ کے ارشادات وفرامین پر اگر توجہ دی جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ امام رضاؑ نے اپنےنورانی کلام میں دوباتوں کی طرف زیادہ تاکید کی ہے ۱۔عبد کا معبود سے رشتہ کیسا ہونا چاہئے ۲۔ عبد کا عبد سے رشتہ کیسا ہونا چاہئے۔ امام رضا ع نے شب وروز اپنی پیشانی کو مالک حقیقی کی بارگاہ میں جھکا کر اسکی کبریائی کااعلان کرکے بتایا کہ عبد کو معبود سے کیسے رابطہ قائم کرنا چاہئےاور غلاموں کےساتھ ایک دسترخوان پربیٹھ کر کھاناکھا کربتایا کہ عبد کوعبد کےساتھ کیسے رہنا چاہئے۔

آخری مقرر کی حیثیت سے مولانا سید محمد اسلم رضوی صاحب نے شہر پونا مہاراشٹرا سے امام رضاؑ کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ چوبیس ہزار علماومحققین وصاحبان قلم نے شہر نیشاپور میں جو استقبال امام رضاؑ کا کیا ایسا عظیم الشان استقبال تاریخ بشریت میں ابھی تک کسی کا نہیں ہوا ہے۔میری مراد چوبیس ہزار انسان نہیں ہیں بلکہ چوبیس ہزار علما ومحققین و صاحبان قلم ہیں یہ سارے بزرگ علما اس لئے جمع ہوئےتھے کہ یہ لوگ امام کی زبان سے براہ راست حدیث سننا چاہتےتھےیعنی حدیث رسالت لہجہ امامت میں سننا چاہ رہےتھے اور امام نے حدیث سلسلة الذهب کو معصوم سند کے ساتھ پیش کر کے یہ بتا دیا کہ ہمارے علم کا سرچشمہ عام مسلمانوں جیسا نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ خدا تک منتہی ہوتا ہے ۔

مولانا اسلم رضوی کی تقریر کے بعد کانفرنس کے صدر محترم مولانا سید احتشام عباس زیدی کی دعا پر یہ کامیاب اور نورانی کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی۔

کانفرنس کے ناظم مولانا علی عباس وفانے اپنی بہترین اور دلکش نظامت سے اس کانفرنس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ کانفرنس ایس این این چینل، یو ٹی وی نیٹ ورک حیدرآباد،امام عصرآفیشیل اور حیدر ٹی وی کینیڈا پر براہ راست نشر کی گئی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .