۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
علی ابن مہزیار

حوزہ/ علی ابن مہزیار تیسری صدی ہجری کے بڑے مشہور فقیہ محدث اور عالم تھے اور آئمہ علیہم السلام کے نزدیک بلند مقام  اور جلیل القدر منزلت کے حامل ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی علی ابن مہزیار تیسری صدی ہجری کے بڑے مشہور فقیہ محدث اور عالم تھے اور آئمہ علیہم السلام کے نزدیک بلند مقام اور جلیل القدر منزلت کے حامل ہیں۔ جناب علی بن مہزیار امام علی رضا علیہ السلام، امام محمد تقی علیہ السلام اور اسی طرح امام علی نقی و عسکری علیہما السلام کے خاص شاگردوں اور اصحاب میں سے تھے اور آئمہ(ع) کے اس مایہ ناز صحابی نے اسلامی معارف و دینی مسائل پر 30 یا 33 کتابیں تحریر کیں، اور شیعوں کے ہمیشہ مدد گار رہے ۔انکا طریقہ یہ تھا کہ وه زیادہ تر سوالات ان پانچ آئمہ(ع) سے لکھ کر پوچھتے تھے اور اپنے علاقے کے بارے میں ضروری باتیں آئمہ(ع) تک منتقل کرتے۔ آئمہ(ع) اور علی بن مہزیار کے درمیان بہت سے خطوط رد و بدل ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ایک خط کو ذیل میں پیش کر رہے ہیں جسےامام محمد تقی علیہ السلام نے آپ کے نام تحریر کیا تھا:

علی بن مہزیار نے ایک خط کے ذریعہ جب امام محمد تقی علیہ السلام کو حکومتی کارندوں اور قم کے رہنے والے شیعوں کے درمیان تصادم کی اطلاع دی تو امام محمد تقی علیہ السلام نے اس کے جواب میں لکھا: تم نے جو بھی قم کے بارے میں مجھے اطلاع دی ہے اسے میں نے دیکھ لیا ہے۔ خدا انہیں (شیعوں کو)نجات دے ،اور انکی مشکلات کو حل کرے ، تم نے جو باتیں لکھی ہیں ان سے اس قضیہ کے بارے میں جان کر مجھے خوشی ہوئی ۔ یہ کام آیندہ بھی جاری رکھو ۔امید کرتا ہوں کہ خدا اس کے بدلے میں جنت دے کر تمہیں خوش کرے ، اور تم سے میری رضایت کی بنا پر راضی ہو جائے۔ اس کے حضور عفو و کرم کا خواستار ہوں۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔

اس مکتوب سے پتہ چلتا ہے کہ علی ابن مہزیار صرف اس علاقے میں آپ کے نمائندہ اور وکیل ہی نہ تھے بلکہ آپ کو ایک خصوصی حیثیت بھی حاصل تھی۔ اسی وجہ سے امام علیہ السلام فرماتے ہیں اسی طرح اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے رہو، اسکے علاوہ اور بھی ایسے مکتوب ہیں جنہیں امام علیہ السلام نے علی ابن مہزیار کے مکتوب کے جواب میں لکھ کر ان سے اپنی محبت اور ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

علی ابن مہزیار کی شخصیت اس اعتبار سے بھی ہمارے لئے اہم ہے کہ انکے والد کا تعلق ہماری ہی سر زمین ہندوستان سے تھے اور مذہب کے لحاظ سے پہلے عیسائی تھے۔ کشی نے اپنی رجال کی کتاب میں صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ پہلے وہ عیسائی تھے اور انکا تعلق ہندوستان سے تھا، لیکن خدا نے اپنے کرم و لطف سے انکی ہدایت کی۔

امام حسن العسکری کی شہادت کے بعد علی بن مہزیار کو امام زمانہ (ع) سے ملاقات کی بڑی تمنا تھی۔ چونکہ یہ بات انہیں معلوم تھی کہ امام زمانہ ہرسال حج کے لئے تشریف لاتے ہیں، اس لئے اس نے 19 حج بجالائے، تاکہ امام زمانہ (ع) شرف ملاقات بخشیں۔مگر امام سے ملاقات کی ان کی تمنا پوری نہیں ہوئی۔ تب یہ مایوس ہوئے اور مزید حج انجام دینے کا ارادہ ترک کردیا۔ لیکن انہیں خواب میں بشارت ملی کہ اس سال امام (ع) سے حج کے موقعہ پر ملاقات ہوجائیگی۔ چنانچہ انہوں نے بیسواں حج انجام دیا۔ ایک رات یہ مسجدالحرام میں طواف کررہے تھے کہ ایک شخص نے اسے اپنی طرف بلایا، اور کہا کہ کل رات تیار ہوکر ایک جگہ پہنچ جا، میں تجھے امام زمانہ ع سے ملاقات کیلئے لیجانے پر مامور ہوں۔ چنانچہ یہ ایک ہفتہ امام ع کی خدمت میں رہے اور امام (ع) سے علم وعمل کا فیض حاصل کرتے رہے ۔ اس نے امام (ع) سے پوچھا کہ اتنی دیر تک ملاقات کا شرف نہ دینے کی کیا وجہ تھی، تو امام ع نے فرمایا کہ تم صلہ رحمی کرنے میں کمزور ہو اس لئے شرف ملاقات نہیں مل رہی تھی۔

علی ابن مہزیار کا یہ نمونہ ہمارے لئے قابل غور ہے کہ ہندوستان کا رہنے والا ایک شخص امام جواد علیہ السلام سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ آپ کا مورد اعتماد بن جاتا ہے اور ان شخصیتوں میں قرار پاتا ہے جن کے لئے امام علیہ لسلام دعا کرتے ہیں۔ یہ بات جہاں ہمارے لئے پیروی اور اطاعت کے اصول بیان کرتی ہے وہیں امام علیہ السلام کے طرز امامت کو بھی بیان کرتی ہے کہ کس طرح دور دراز کے علاقے کے لوگوں کو امام علیہ السلام نے اپنے کردار کے بل پر اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔
اگر ہم بھی اپنے کرادار و اخلاق کو ویسا سجا لیں جیسا ہمارے ائمہ طاہرین (ع) کے اخلاق ہیں تو ہم بھی دور دراز کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، اور موجودہ دور میں ملک کی سالمیت ، قومی استحکام کے لئے یہ ضروری ہے۔ آج ہمارے ملک کے ساتھ ہماری قوم ہردور سے زیادہ تعلیمات ائمہ طاہرین علیہم السلام کی محتاج ہے۔ سلام فرماندہ ترانہ میں علی بن مہزیار کا تذکرہ ہے، اس لئے مومنین کو ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا شوق ہورہا ہے۔ اس لئے اوپر دئے گئے پوسٹ میں ان کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .