۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
ازدواجِ علیؑ و فاطمہؑ اور شادی سے پہلے کے اقدامات

حوزه/شادی، انسانی زندگی کا وہ حسین اور خوبصورت موڑ ہے جہاں انسان ایک الگ تجربے سے گزرتا ہے۔ خوبصورتیوں اور لطافتوں سے بھرا ہوا یہ حسین موڑ جہاں نئے جوڑے کو ایک خوبصورت بندھن میں باندھتا ہے وہیں ان دونوں کے خاندان کے سربراہوں پر بھی کڑی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔

حوزه نیوز ایجنسی/

تحریر: جناب عباس ثاقب صاحب زید عزہ

شادی، انسانی زندگی کا وہ حسین اور خوبصورت موڑ ہے جہاں انسان ایک الگ تجربے سے گزرتا ہے۔ خوبصورتیوں اور لطافتوں سے بھرا ہوا یہ حسین موڑ جہاں نئے جوڑے کو ایک خوبصورت بندھن میں باندھتا ہے وہیں ان دونوں کے خاندان کے سربراہوں پر بھی کڑی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔

جس عنوان سے یہ مضمون لکھا گیا ہے اس پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے لیے کئی صفحات درکار ہیں اور اگر ازدواجِ علیؑ و زہراؑ کے حوالے سے وارد ہونے والی روایات کا جائزہ لیا جائے تو ازدواجی زندگی کے کئی پہلو ابھر کر ہمارے سامنے آتے ہیں، جنہیں ہر زاویے سے پرکھا جا سکتا ہے مگر ”گنجِ الفاظ بھی کم، دامنِ اظہار بھی تنگ“ کے مصداق پہلے ازدواج علیؑ و بتولؑ کی روایات کا خلاصہ پیش کرتے ہیں اس کے بعد ان میں پائے جانے والے ان انتہائی اہم نکات کا اختصار سے جائزہ لیتے ہیں جو شادی سے پہلے دونوں خاندانوں اور دولہا اور دلہن کو مدنظر رکھنا چاہییں۔

خلاصۂ روایات یہ ہے کہ جب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سن بلوغ کو پہنچیں تو مسلمانوں کی اہم شخصیات میں سے ہر کسی کی آرزو تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دامادی کا شرف اسے حاصل ہو۔ تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ جن جن شخصیات نے بھی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی خواستگاری کی، انہیں بارگاہِ رسالت مآبؐ سے ایک ہی جواب ملا: ’’وحی کا انتظار ہے۔‘‘ حتیٰ کہ ایک شخصیت نے تو اپنے زردار ہونے کا رعب بھی جھاڑا: ’’یا رسول اللہ! اگر آپ فاطمہؑ کی خواستگاری کے لیے میری درخواست قبول فرما لیں تو میں حق مہر کے طور پر ایسے ویسے اونٹ اور اتنے وِتنے درہم و دینار دوں گا۔‘‘ جواب میں جناب رسالت مآبؐ کی جبینِ مقدس پر غضب کے آثار نمودار ہوئے۔ سنگریزوں سے مٹھی بھری، جو دست رسالت پر کلمہ پڑھ کر لؤلؤ و مرجان میں بدل گئے اور اس ثروت مند شخصیت کی ثروت مندیوں کا مذاق اڑانے لگے کہ تم جس ہستی کو اپنے مال و دولت سے مرعوب کرنا چاہ رہے ہو، وہ تو اس کی ہاتھ میں کھلونے کی طرح ہے۔

مگر جب علیؑ ابن ابی طالب خواستگاری کے لیے حاضر ہوئے تو چہرۂ نبوت سے خوشی کے آثار چھلکنے لگے، لیکن اس کے باوجود بھی علیؑ کو مثبت جواب نہ دیا بلکہ فیصلہ اپنی بیٹی پر چھوڑ دیا کہ اگر فاطمہ نے قبول کر لیا تو ٹھیک ورنہ اس معاملے میں مَیں بھی معذرت چاہوں گا۔ فاطمہؑ کے پاس تشریف لے گئے تو احوال پُرسی کے بعد فوراً علیؑ کی درخواست پیش نہ کی بلکہ پہلے علیؑ کے فضائل فاطمہؑ کے گوش گزار کیے: ’’فاطمہ! تم علیؑ کی قرابتداری، اس کی فضیلت اور اس کے اسلام سے آشنا ہو، اور میں نے بھی اپنے پروردگار سے دعا کی تھی کہ اے خدایا! فاطمہ کا عقد اپنی مخلوق میں سے بہترین اور محبوب ترین ہستی سے کرنا۔ اب خدا نے میری دعا قبول کی اور علی نے تمہاری خواستگاری کی ہے؟ تمہارا کیا ارادہ ہے؟‘‘ پیکرِ شرم و حیا کے ہونٹوں پر تو حرکت نہ ہوئی مگر چہرے کی بدلتی ہوئی رنگت نے دل کا حال نگاہِ رسالتؐ کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ رسالت مآبؐ خواستگاری کے قبول ہونے کا اشارہ پا کر خوشی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اعلان فرمایا: ’’اللَّهُ أَكْبَرُ سُكُوتُهَا إِقْرَارُهَا۔ فاطمہ کی خاموشی اس کی رضامندی کی خبر دے رہی ہے۔‘‘

باہر تشریف لائے۔ علیؑ سے پوچھا: ’’مالِ دنیا میں سے کس چیز کے مالک ہو؟‘‘ عرض کیا: ’’ایک گھوڑا ہے، ایک گدھا، ایک تلوار اور ایک زرہ۔‘‘ فرمایا: ’’زرہ کو فروخت کرو اور مہر اور اپنی شادی کے اخراجات کا انتظام کرو۔‘‘ یوں زرہ بیچ کر شادی کا اہتمام کیا گیا۔ اور پھر جب نکاح کا وقت آیا تو علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر دعا فرمائی: قُمْ بِسْمِ اللَّهِ وَ قُلْ عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ وَ ما شاءَ اللَّهُ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ۔ کہ اس دعا میں برکت و توکل بر خدا کی تلقین فرمائی۔

اب مذکورہ عبارت میں پائے جانے والےکچھ نکات کو موضوع گفتگو قرار دیتے ہوئے اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ کیا ہم اپنی شادی یا اپنے بچوں کی شادی کرتے وقت ان پہلؤوں پر سوچنے کی زحمت کرتے ہیں یا نہیں؟

۱۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے تمام ثروتمندوں کی درخواست ٹھکرا کر پیغام دیا کہ اپنے بچوں کے عقد کے وقت فقط مال و دولت کو معیاربنانا عقل انسانی کے سراسر خلاف ہے۔ مسلمان خاندانوں کو اپنے بچوں کی شادیاں کرتے وقت ایک دوسرے کی ظاہری دولت اور معاشرتی مقام کی چکاچوند سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔

۲۔ علیؑ ابن ابی طالبؑ نے جیسے ہی خواستگاری کی تو اگرچہ پیغمبرؐ دل سے اس رشتے کو قبول کیے بیٹھے تھے مگر پھر بھی اپنی بیٹی پر اپنا فیصلہ نہ تھوپا بلکہ علیؑ سے کہا کہ فاطمہؑ کی رضامندی کے بعد ہی جواب دوں گا۔ فاطمہؑ سے باقاعدہ پوچھ کر ازدواجی مسائل میں بیٹیوں کے اختیار کا اعلان کیا اور سمجھایا کہ شادی جیسے اہم مسئلے میں بیٹیوں کی رضامندی ضرور حاصل کرو، کہ اگر علیؑ جیسی شخصیت بھی تمہاری بیٹی کا ہاتھ مانگے تب بھی بیٹی کی رضامندی کے بغیر جواب نہ دو۔لیکن ہمارے معاشرے نے بیٹیوں سے پوچھنے کو شرمناک عمل بنا کر پیش کیا ہے جو تعلیماتِ نبویؐ کے بالکل برعکس ہے۔

۳۔ جب فاطمہؑ سے پوچھنے گئے تو ان کے سامنے علیؑ کے دنیاوی مقام و مرتبے کا ذکر کرنے کی بجائے ان کے اخلاقی و معنوی فضائل بیان کیے۔ ان کے اسلام و فضیلت کا تذکرہ کیا۔ یہاں یہ سبق دیا کہ داماد کے اندر اخلاقی و معنوی فضائل اور خوبیوں کو تلاش کرنا چاہیے اور نہ صرف خود ان خوبیوں کو تلاش کریں بلکہ اپنی بیٹیوں کو بھی انہی فضائل کے اپنانے کی ترغیب دیں۔ یعنی جہاں انسان خود الٰہی نگاہ رکھتا ہو وہاں اپنی اولاد کے اندر بھی الٰہی فکر پیدا کرے۔ اپنی بیٹیوں کی ترجیحات کی بھی تربیت کرے۔

۴۔ فاطمہؑ نے الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی بجائے شرم و حیا سے سر جھکا لیا اور چہرے پر سرخی پھیل گئی۔ گویا اچھی بیٹیاں ایسے لمحات میں اپنے جذبوں کو زبان پر نہیں لاتیں اور خاندان کے بڑوں کے سامنے اپنے احساسات کا اظہار حیا آمیز کنایوں سے کرتی ہیں۔

۵۔ پیغمبر اکرمؐ نے فاطمہؑ کی چہرے سے ان کے جذبات کو سمجھ لیا۔ یہاں والدین کو سکھایا کہ اپنے بچوں کے جذبات کو سمجھنے کے لیے اپنی نظروں میں گہرائی پیدا کریں، کیونکہ بعض معاملات میں اولاد کو اپنا ما فی الضمیر صریح لفظوں میں بیان کرنے سے شرم و حیا مانع ہوتی ہے۔

۶۔ فاطمہؑ کا جواب پانے کے بعد حق مہر اور شادی کے کچھ اخراجات کو علیؑ کے کندھوں پر ڈالا۔گویا سمجھا دیا کہ شادی کے تمام اخراجات لڑکی کے خاندان پر واجب نہیں ہیں بلکہ داماد کو بھی چاہیے کہ اپنی آمدنی سے ان اخراجات کو پورا کرے۔

۷۔ نکاح کے وقت خدا کے نام سے نکاح کا آغاز کیا اور خدا پر توکل کرنے کی نصیحت کی۔ شادی کے بعد انسان کی زندگی مختلف ذمہ داریوں کے بوجھ تلے آ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں خدا سے مدد طلب کرنا اور اس پر توکل کرنا ہی ان ذمہ داریوں سے کماحقہٗ عہدہ برآ ہونے میں معاون و مددگار ہو سکتا ہے۔ ایک اچھے مسلمان کو چاہیے کہ شادی کے بعد پیش آنے والے مسائل اور مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے اور خدا پر توکل کرتے ہوئے اس سے مدد طلب کرے، تا کہ ازدواجی زندگی میں خیر و برکت کا نزول ہو اور انسان ایک مثالی زندگی گزار سکے۔

حاشیہ:

اس عبارت میں دو کتابوں؛ مناقب آل أبي طالب عليهم السلام (لابن شهرآشوب)، ج‏3، ص: 345 اور زندگانى حضرت زهرا عليها السلام (ترجمه جلد 43 بحار الأنوار) ترجمه روحانى، ص: 415 سے لی گئی روایات کو خلاصہ کیا گیا ہے۔ ازدواج حضرت علیؑ و حضرت زہراؑ کی روایات کتب تاریخ و سیر میں مفصل موجود ہیں۔ اہل ذوق رجوع کر سکتے ہیں۔ یہاں دامنِ مضمون کی تنگی کے پیش نظر خلاصے پر اکتفا کیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .