۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
ڈاکٹر علی اکبر ولایتی

حوزہ/ حالیہ چند برسوں کے دوران، ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ علاقے میں امریکہ کی تخریبی پالیسیاں نقش بر آب ہو رہی ہيں، یہ وہ پالیسیاں ہيں جن کی علاقے کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑی ہے حالانکہ علاقائي عوام کی مزاحمت کی وجہ سے یہ پالیسیاں بری طرح ناکام رہی ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بین الاقوامی امور میں رہبر انقلاب اسلامی کے مشیر ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے امریکہ و مغرب کی تسلط پسندی کے مقابلے میں ایران، روس اور چین تین اہم خود مختار طاقتوں کے تعاون کے حوالے سے اہم گفتگو کی ہے؛ جسے ہم سوال و جواب کے شکل میں پیش کر رہے ہیں۔

سوال: رہبر انقلاب اسلامی نے روسی صدر سے ملاقات میں واشگاف الفاظ میں کہا کہ مغربی ایشیا میں امریکہ اور مغرب کی پالیسیاں کمزور ہو رہی ہیں۔ امریکہ اور مغرب کی کمزوری کی علامتیں اور علاقے خاص طور پر شام، عراق، لبنان اور فلسطین میں ان کی طاقت کے زوال کی وجوہات کیا ہیں؟

جواب : حالیہ چند برسوں کے دوران، ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ علاقے میں امریکہ کی تخریبی پالیسیاں نقش بر آب ہو رہی ہيں، یہ وہ پالیسیاں ہيں جن کی علاقے کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑی ہے حالانکہ علاقائي عوام کی مزاحمت کی وجہ سے یہ پالیسیاں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ اب ہم اس قسم کی پالیسیوں کے چند نمونوں پر نظر ڈالتے ہيں :

1 ۔ طالبان اور القاعدہ کے خاتمے کے بہانے سے بیس برسوں تک افغانستان میں رہنے کے بعد امریکہ کی وہاں سے واپسی اور طالبان کا اقتدار۔

2۔ عراق سے امریکیوں کو باہر نکالنے کا منصوبہ جس پر عراق کے مجاہد عوام کی پارلمینٹ میں نمائندے پوری سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔ امریکہ، صدام کے خلاف فوجی کارروائی کے بعد خود ہی عراق میں صدام کے جرائم کو جاری رکھنے والا بن گيا اور اب اس کا ارادہ اس ملک پر ہمیشہ قبضہ قائم رکھنے کا ہے لیکن ان شاء اللہ عراقی مجاہد عوام کی جد و جہد سے امریکہ کا یہ منصوبہ خاک میں مل جائے گا۔

3۔ غزہ اور یمن میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ناکامی اور مجبوری؛ امریکہ کی مدد سے سر سے پیر تک مسلح اسرائيل بھی دنیا میں سب سے گھنی آبادی والے علاقے پر 51 روز تک حملے کرنے کے بعد بھی کچھ نہيں کر پایا اور غزہ کے عوام کی جد و جہد و استقامت کی وجہ سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گيا۔ اس کے علاوہ کچھ دنوں کے بعد مقبوضہ علاقوں میں بھی مظاہرے شروع ہو جاتے ہيں، دوسری طرف یمن کی جنگ میں سعودی، اسرائیلی اور امریکی اتحاد اس ملک میں خونریزی اور حملے کے ایک عشرے کے بعد بھی اب تک کامیابی کو ترس رہا ہے ۔ جب ہمارے علاقے میں امریکہ کے اتحادی اس طرح کے مسائل کا ہاتھ پیر مار رہے ہيں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ امریکی پالیسیوں کی ناکامی ہے۔

4۔ سب سے اہم تو شام کی مثال ہے جہاں مغرب اور علاقے کے کچھ نادان ملک بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے پوری طاقت سے میدان میں اترے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ شام کو لیبیا جیسا ایک ملک بنا کر استقامتی محاذ کے ایک اہم ملک کو ناکارہ بنا دیں اور اس طرح سے استقامتی محاذ پر کاری ضرب لگائيں لیکن استقامتی محاذ اور شام کے عوام اور وہاں کی حکومت کی جد و جہد و قربانیوں نیز مدافعان حرم فورس کی جانبازي نے ان کی خوش فہمی کو بھیانک خواب میں بدل دیا اور اب وہ اس دلدل سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہيں۔

سوال: رہبر انقلاب اسلامی نے روسی صدر سے ملاقات میں امریکہ کو شام کے مشرقی فرات علاقے سے نکالنے پر بھی زور دیا۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

جواب: جب مشرقی فرات کی بات ہوتی ہے تو یہ در اصل، شام کی سرزمین کے ایک بے حد اہم علاقے کی بات ہے۔ کیونکہ شام کا یہ علاقہ، اس ملک کے وسیع اور اہم علاقوں میں سے ایک ہے کیونکہ اس علاقے میں شام کی اہم زراعت ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شام کی 80 فیصد زراعتی پیداوار اسی علاقے میں ہوتی ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اسی علاقوں میں آئل فیلڈ بھی ہيں جہاں سے روزانہ 3 لاکھ بیرل تیل نکالا اور برآمد کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں امریکی بڑی خباثت کے ساتھ اس علاقے میں جمے ہوئے ہيں اور انہوں نے نہ صرف یہ کہ شام کے اس اسٹریٹجک علاقے تک شامی حکومت کی رسائی کو محدود کر دیا ہے بلکہ روزانہ دیدہ دلیری کے ساتھ شام کا تیل چرا رہے ہيں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے انہیں حقائق کے پیش نظر اس علاقے سے امریکہ کو بھگانے پر زور دیا ہے اور اسی لئے آپ نے فرمایا ہے کہ مشرقی فرات کو آزاد کیا جانا چاہیے تاکہ شام کے مفادات کو اس طرح سے نقصان نہ پہنچے۔ ویسے یہ بھی جان لیں کہ کسی بھی ملک میں دشمن

کی موجودگی چاہے جس شکل میں ہو، قابل مذمت ہے اور ہم یہ ضرور دیکھیں گے کہ شام کی حکومت اور قوم کی جد و جہد سے ان شاء اللہ امریکی، ان علاقوں سے بھی بھاگنے پر مجبور ہوں گے ۔

سوال: رہبر انقلاب اسلامی نے یوکرین کے سلسلے میں واضح الفاظ میں یہ کہا ہے کہ اگر روسی، پہلے قدم آگے نہ بڑھاتے تو دوسرا فریق آگے بڑھ کر جنگ شروع کر دیتا اور اس سلسلے میں انہوں نے نیٹو کی تسلط پسندی کا ذکر کیا ہے۔ بنیادی طور پر اور آج کے بین الاقوامی حالات اور تبدیلیوں کے پیش نظر، رہبر انقلاب کی اس رائے کی وجوہات اور دلائل کیا ہو سکتے ہیں؟ نیٹو اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے کس منصوبے پر کام کر رہا ہے ؟

جواب : اس سلسلے میں کسی بھی گفتگو سے قبل، یوکرین تنازعہ کے بنیادی مسئلے کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد نیٹو اور روس میں جو معاہدے ہوئے تھے ان میں یہ بھی ہے کہ سوویت یونین سے الگ ہونے والے ملک، نیٹو کا حصہ نہيں بنیں گے اور سوویت یونین اور نیٹو کے درمیان فاصلہ قائم رہے گا لیکن نیٹو نے اس معاہدے کا خیال نہیں رکھا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بحیرہ بالٹک کی فضاؤں میں روسی اور نیٹو کی فضائيہ کے درمیان تصادم کی خبريں آئے دن کا معمول بن گئيں۔ اس کے علاوہ یوکرین کے داخلی امور میں امریکہ اور یورپ کی مداخلتوں کی وجہ سے متعدد بغاوتیں ہوئيں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ اس ملک میں ایک مغرب پرست حکومت نہيں قائم ہو گئي۔ اسی کے ساتھ امریکہ اور یورپی یونین کی حمایت سے، یوکرین نے نیٹو میں رکنیت کی درخواست بھی کر دی جو روس اور نیٹو کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ ظاہر سی بات ہے روس نے بارہا کہا تھا کہ اس کی ریڈ لائن نیٹو کو اپنے پڑوس سے دور رکھنا ہے۔ یہ وہی تشویش ہے جو اب امریکہ کو کیریبین ملکوں کے سلسلے میں اپنے لئے لاحق ہے۔ یقینا روس سے پہلے ہی نیٹو جنگ کے لئے تیار تھی۔ حالات اور شواہد سے یہی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ نیٹو کریمیا پر حملے کی تیاری کر چکی تھی اور روس نے تاخیر کی ہوتی تو وہ کریمیا کو روس سے الگ کرکے پہلا قدم اٹھا لیتی اور پھر نیٹو میں یوکرین کو رکنیت عطا کرکے، مشرقی یورپ میں روس کو کمزور کرنے کے منصوبے کو پورا کر لیتی۔ کسی بھی جنگ کے لئے تیاری کرنا ہوتی ہے اور نیٹو، روس سے قبل ہی جنگ کے لئے آمادہ تھی۔ لیکن پہلا قدم روس نے اٹھا لیا جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ نیٹو اور امریکہ روس کے خلاف قدم نہيں اٹھا پائے بلکہ انرجی کی سپلائی، یورپ اور امریکہ کا بہت بڑا درد سر بن گئی۔

سوال: ترکی کے صدر کی رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات میں بھی، رہبر انقلاب نے زور دیا تھا کہ شمالی شام پر فوجی حملہ، علاقے کے نقصان میں ہے اور اس سے شام کی حکومت کی جانب سے جس سیاسی قدم کی توقع ہے وہ بھی نہیں اٹھایا جائے گا تو اس بات کی آپ تفصیل سے وضاحت کر سکتے ہيں؟

جواب: شام کے ساتھ ترکی کے حالیہ تنازعہ کا موضوع، فری سیرین آرمی کی شکل میں موجود دہشت گردوں کو انقرہ کی جانب سے مسلح کیا جانا تھا لیکن چونکہ ترکی کی توقعات پوری نہيں ہوئيں اس لئے شام کے سلسلے میں ترکی کی پالیسیاں ناکام ہو گئيں۔ دوسری طرف، شمالی شام میں مسلح کردوں کی موجودگي ترکی کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے کیونکہ ترکی کردوں سے ترکی کی دشمنی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے اس نے شمالی شام میں دو عملی راستوں کا تعین کیا تھا اور اس کا ذکر واضح طور پر ترکی کے میڈیا میں بھی کیا گیا تھا۔ پہلا راستہ یہ تھا کہ وہ شام کی سرحد میں 30 کیلو میٹر اندر تک گھس جائے اور سرحد کے پاس کردوں سے خالی ایک علاقہ بنا دے۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ 20 لاکھ سے زائد کردوں کو سرحد سے ہٹا کر پناہ گزيں کیمپوں میں بھیج دیا جائے تاکہ ان کی طرف سے ترکی کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا خدشہ کم ہو جائے۔

پہلے راستے کے سلسلے میں شام کی ارضی سالمیت کا مسئلہ در پیش ہے تو ظاہر سی بات ہے شام کی فوج اس کے خلاف ڈٹ جائے گی جس سے نہ صرف یہ کہ علاقے میں جنگ کی آگ بجھے گی نہيں بلکہ اس سے جنگ کے شعلے مزيد بھڑکیں

گے۔ دوسرے راستے کے سلسلے میں بھی انسانی حقوق، زبردستی اخراج اور قومی تصفیہ کا مسئلہ آئے گا جس کی علاقے خاص طور پر قفقاز کی تاریخ میں باضابطہ مذمت کے ثبوت موجود ہيں۔

ان حالات میں اس مشترکہ مسئلے یعنی شمالی شام میں دہشت گردوں کی موجودگی کے معاملے کو حل کرنے کا سب سے اچھا راستہ، شام کے اقتدار اعلی کے احترام کے ساتھ علاقائي ملکوں کے درمیان مذاکرات ہيں اور اس راہ میں دہشت گردوں کے درمیان کسی طرح کا فرق نہيں سمجھنا چاہیے تاکہ پورا علاقہ بد امنی پھیلانے والے عناصر سے پوری طرح صاف ہو جائے۔

ایران اور روس کو جس طرح سے ایک دوسرے کے تعاون کی بڑھتی ضرورت ہے اس کے پیش نظر آپ ان دونوں ملکوں کے درمیان وسط مدتی اور طویل مدتی تعاون کے مستقبل کو کیسا دیکھتے ہيں ؟

جواب : جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے ارادے ظاہر کئے ہيں اور روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے بھی اس پر زور دیا ہے، ایران اور روس کے تعلقات کو اسٹریٹجک تعلقات کے عروج تک پہنچایا جا سکتا ہے اور دونوں ملکوں نے باہمی تعلقات کو اس منزل تک پہنچانے کا مشن رکھا ہے۔ خیال رہے کہ مختلف ملکوں کے درمیان تعلقات کا بنیادی اصول، مشترکہ مفادات کی وضاحت ہے اور ایران و روس کے درمیان وسیع سطح پر مشترکہ مفادات کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ دونوں ملک سائنس و ٹکنالوجی کے مالک ہيں بلکہ دونوں کے پاس اچھے قدرتی ذخائر ہيں اور ان سب کے ساتھ ہی دونوں ہی ملک، مغرب کی جانب سے ظالمانہ پابندیوں کا شکار ہيں اور یہ چیزیں مشترکہ تعاون کی راہ ہموار کرتی ہیں اور امید ہے کہ مشرق پر توجہ کی پالیسی کے تحت سفارتی ادارے اس سلسلے میں سعی پیہم سے اس مشن کو کامیاب بنائيں گے۔

ولادمیر پوتن کے حالیہ دورہ ایران میں بھی مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدوں پر دستخط کی وجہ سے بھی یہ مقصد کافی حد تک پورا ہو گیا ہے۔ اپنی بات زیادہ واضح کرنے کے لئے میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ ایران کے جنوبی علاقوں میں گیس کے وسیع ذخائر ہيں جن سے اب تک ملکی وسائل کے ذریعے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔ لیکن روس تیل اور گیس کے شعبے ميں گاز پروم نام کی ایک پرانی اور ٹیکنالوجی کی مالک کمپنی ہے۔ روس کی اس کمپنی سے تعاون ان ذخائر سے گیس کے حصول کی ایران کی توانائي میں اضافہ کر سکتا ہے اور یہ کام 'جے سی پی او اے' سے امریکہ کے نکلنے اور مغربی کمپنیوں کی وعدہ خلافیوں کی وجہ سے اب تک رکا ہوا ہے ۔

کچھ تجزیہ نگار امریکی صدر جو بائيڈن کے علاقائي دورے اور خاص طور پر سعودی عرب کے دورے کے نتائج کے پیش نظر اور اس دورے کا پوتن کے دورہ ایران سے موازنہ کرکے، امریکہ کے پرانے اتحادیوں کے درمیان بھی امریکہ پر اعتماد ختم ہو جانے کی باتیں کر رہے ہيں۔ اس سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

جواب: کئي عشروں سے ہمارا علاقہ، امریکہ کی غلط پالیسیوں کا اکھاڑا بنا رہا ہے اور امریکہ کے اتحادی ملکوں نے ان پالیسیوں کی قیمت ادا کی ہے۔ دریں اثنا ان ملکوں کو اتنی قیمت ادا کرنے کے بدلے نہ صرف یہ کہ کچھ ہاتھ نہيں لگا ہے بلکہ امریکی صدور کے غرور اور گاڈ فادر ہونے کے خیال سے ان ملکوں کے قومی وقار پر بھی داغ لگا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئي کہ امریکی صدر یہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب ہماری مدد کے بغیر چند گھنٹے بھی باقی نہيں رہ سکتا۔ ٹرمپ سعودی عرب کو دودھ دینے والی گائے تک کہہ دیتے ہيں اور یہ حکومتیں ہمیشہ امریکی مطالبات کو اپنی قوم کی جیب سے پورا کرنے پر مجبور رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھی امریکہ نے یوکرین کی جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے انرجی کے مسئلے کے حل کے لئے تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کے لئے تیل کی پیداوار بڑھانے کا حکم دیا ہے اور سعودی عرب کے پاس اس حکم کی تعمیل کے علاوہ کوئي چارہ نہيں ہے۔

اس کا حالیہ آستانہ اجلاس سے موازنہ کریں جہاں علاقے کے تین خود مختار ملک اپنے قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، باہمی تعلقات میں فروغ اور علاقائي مسائل کے حل کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہيں اور ان شاء اللہ یہ تعاون نتیجہ خیز بھی ثابت ہوگا۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ خوش قسمتی سے دھیرے دھیرے علاقائي ملک خاص طور پر خلیج فارس کے ساحلی ممالک بھی امریکہ کے ساتھ تعاون کے تخریب کاریوں کو محسوس کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات قائم کرنے کی آمادگی رکھتے ہيں اور یہ چیز ، علاقائی ملکوں کے تعلقات میں فیصلہ کن ہوگی کیونکہ ہم نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ علاقائي مسائل کا حل، غیر ملکیوں کی مداخلت کے بغیر اور علاقائی ممالک کے آپسی تعاون سے ہی ممکن ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .