۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
عسکری امام خان

حوزہ/ ایسا نہیں ہے کہ معاویہ کے دور میں امام حسین علیہ السلام نے مکمل سکوت اختیار کر رکھا تھا، نہیں بلکہ اپنی 11 سالہ مدت امامت میں آپ نے معاویہ سے بکثرت اختلاف و اعتراض کیا ہے، جیسا کہ آپ نے معاویہ کو جو نامے تحریر کئے ہیں ہم اس میں مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

تحریر: حجۃ الاسلام مولانا عسکری امام خان

حوزہ نیوز ایجنسی | سب سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ ایسا نہیں ہے کہ معاویہ کے دور میں امام حسین علیہ السلام نے مکمل سکوت اختیار کر رکھا تھا، نہیں بلکہ اپنی 11 سالہ مدت امامت میں آپ نے معاویہ سے بکثرت اختلاف و اعتراض کیا ہے، جیسا کہ آپ نے معاویہ کو جو نامے تحریر کئے ہیں ہم اس میں مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ کس طرح امام نے معاویہ کو اس کی جنایتوں پر اسے پھٹکارا ہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: "واني لا اعلم لها فتنه اعظم من امارتك عليها" اے معاویہ میری نظر میں امت مسلمہ کے لیے تیری حکومت سے بڑا فتنہ کچھ نہیں ہے۔

یا ایک دوسرے مقام پر آپ نے معاویہ کے خلاف جہاد کو برترین عمل قرار دیتے ہوئے فرمایا: "والله ما اعرف افضل من جهادك" اے معاویہ خدا کی قسم تجھ سے جہاد کرنا میرے نزدیک برترین عمل ہے۔ اور پھر فرماتے ہیں: "فان افعل فانه قربة الى ربي وان لم افعل فاستغفر الله لذنبي" پس اگر میں ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ میرے لئے قرب الٰہی کا باعث ہوگا اور اگر نہ کر سکا تو اپنے خدا سے طلب مغفرت کروں گا۔

(الامامة والسياسة، جلد1 صفحہ280)

البتہ امام کے قیام نہ کرنے کے چند اسباب ہیں۔

(1) جیسا کہ خود امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کو تحریر کردہ ایک خط میں خود کو معاویہ اور اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے بیچ ہوئی صبح کا پابند بتایا ہے، آپ فرماتے ہیں: "معاذ الله ان انقض عهدا عهده اليك اخي الحسن" اور اس عہد کو نقض کرنے سے میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ جو عہد میرے بھائی حسن نے تجھ سے کیا تھا۔ (موسوعةكلمات الأمام الحسين ، صفحہ 239)

لیکن سوال یہ ہے کہ معاویہ صلح کی شرطوں کا ملتزم نہ رہا تو امام حسین علیہ السلام اس کے پابند کیوں ہیں؟

اس کا جواب مختلف طریقوں سے دیا جا سکتا ہے:

(الف) معاویہ بہت ہوشیار تھا اس نے صریحاً کہیں پر صلح نامے کے نقض کا اعلان نہیں کیا ہے بلکہ وہ کہتا ہے ہم نے امام حسن سے بعض چیزوں کا وعدہ کیا ہے لہذا ممکن ہے جس چیز کا وہ پابند نہیں ہے وہ صلح نامے سے خارج ہو، یا کم از کم وہ یہ دعوی کر سکتا ہے کہ میں نے صلح کے معاہدے نقض نہیں کیے ہیں۔

(ب) یہ کی معاویہ اور امام حسین علیہ السلام کی سیاست میں بڑا بنیادی فرق ہے, معاویہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر طرح کے فریب اور گھناؤنے امور کا مرتکب ہو سکتا ہے, جیسا کی مولائے کائنات سے جنگ کے دوران آپ نے مشاہدہ کیا کہ کبھی عثمان کے کرتے کا بہانہ لے کر عثمان کی خونخواہی کیلئے آیا،کبھی طلحہ و زبیر کو ورغلایا، کبھی قرآن نیزوں پر بلند کیا غیرہ و غیرہ۔ لیکن امام حسین علیہ السلام ہرگز اپنی ظاہری کامیابی کے لیے ایسی راہیں اختیار نہیں کرسکتے تھے، جیسا کہ مولائے کائنات نے فرمایا تھا: "ولن اطلب النصر بالجور"ہر گز میں ظلم کے ذریعے کامیابی حاصل کرنا نہیں چاہتا۔

لہذا امام اپنے بھائی کے کیے ہوئے وعدوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے چاہے معاویہ پابند نہ بھی کرے۔

(ج) اس زمانے کے حالات کو نظر میں رکھیں معاویہ برسراقتدار ہے، اس کی حکومت ہے، اور پوری مملکت اسلامی اس کے زیر اختیار ہے، شام سے لے کر عراق، حجاز، یمن سب اسی کے زیر تسلط ہے، اس کے افراد تمام و کمال اس کی تبلیغ اور اس کے دفاع میں مشغول ہیں۔

وہ شخص جو مولائے کائنات کے زمانے میں اپنے لوگوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگیا کہ عثمان کے خون کا انتقام لینے والا صرف وہ ہے اور اپنی کوتاہیوں کو چھپانے میں کامیاب ہوگیا تو ایسا شخص آج جب کہ کوئی قدرت اس کے مقابلے میں نہیں ہے بڑی آسانی سے امام حسین علیہ السلام کو ناقض عہد قرار دے سکتا ہے اور لوگوں کو امام کے خلاف کھڑا کر سکتا ہے۔

(2) معاویہ کی شخصیت اس زمانے کے لوگوں کے لئے خاص کر اہل شام کے لیے بڑی معتبر تھی جس کی وجہ سے امام کے لیے قیام قدرے مشکل امر تھا،اس لیے کہ کہ لوگ معاویہ کو صحابی رسول، کاتب وحی اور زوجہ رسول کے بھائی کی حیثیت سے پہچانتے تھے۔اسی طرح حکومت کا تجربہ اور سن کی بزرگی وہ امر ہے کہ جس کی طرف خود معاویہ نے امام علیہ السلام کو اپنے ایک خط میں متوجہ کیا ہے". ۔ ۔ ولكن قد علمت اني اطول منك ولاية و اقدم منك لهذه الامة تجربة واكبر منك سنا"(مقاتل الطالبين، صفحہ40)

(3) ظاھر سازی۔ اگرچہ معاویہ نے بنی ہاشم اور خاص کر آل علی علیہ السلام کو ہر طریقے سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی یہاں تک کی امام حسن علیہ السلام کو زہر سے شہید بھی کرا دیا، لیکن ظاہر میں لوگوں کے سامنے خود کو اس خاندان کا محسن بنا کر پیش کر رکھا تھا اور خاص کر امام حسین علیہ السلام کے لیے خود کو اس طرح نمایاں کیے تھا کہ جیسے وہ ان کا بڑا احترام کرنے والا ہے، لہذا اظہار کیلئے امام حسن اور امام حسین علیہ السلام اور عبداللہ ابن جعفر کے لیے ماہانہ و سالانہ بہت سارے ھدایا بھیجتا تھا، یہاں تک کہ مرتے وقت اپنے بیٹے یزید سے امام علیہ السلام کے لئے وصیت کی اور امام کے قیام کی پیشن گوئی کرتے ہوئے یزید سے کہا کہ انہیں قتل نہ کرنا۔

(الاخبار الطوال، صفحہ 227. تجارب الامم، جلد2، صفحہ 39)

امام حسن علیہ السلام سے صلح کے نتیجے میں واضح ہے کہ معاویہ اپنی حکومت کو ظاہری طور پر شرعی حیثیت دینے میں کامیاب ہوگیا تھا اور لوگوں میں خود کو خلیفہ برحق کے عنوان سے پیش کرچکا تھا، اب وہ نہیں چاہتا تھا کی امام کے خون میں اپنا ہاتھ آلودہ کر کے اسلامی سماج کا منفور چہرہ بن جائے۔

(4) معاویہ کی ظاہری اسلامی حکومت کے خلاف قیام اس وقت کے حالات کے تحت بے نتیجہ تھا اس لئے کہ مملکت اسلامی میں اس وقت اکثر مقامات پر معاویہ نے اپنی ظاھر سازی سے خود کو ایسا بنا کر پیش کر رکھا تھا کہ اس کے خلاف اٹھنے والوں کو لوگ باغی کا نام دینے کے لئے آمادہ تھے،اور سوائے خونریزی کے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوتا۔ جب کی حکومت یزید کے خلاف قیام کے زمانے میں حالات بالکل اس کے برعکس تھے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .