۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مراسم ویژه حضرت قمر بنی هاشم (علیه السلام) در کربلای معلی

حوزہ / مجتبیٰ علی شجاعی صاحب نے " کربلا حادثہ نہیں احیائے انسانیت اور تحفظ دین ہے" کے عنوان پر ایک تحریر لکھی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجتبیٰ علی شجاعی صاحب نے " کربلا حادثہ نہیں احیائے انسانیت اور تحفظ دین ہے" کے عنوان پر ایک تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

قتل حسینؑ اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

(محمد علی جوہر)

امام عالی مقام حضرت امام حسینؑ کی زندگی انسانی معاشرے کےلئے ہر لحاظ سے نصیحت آموز اورنمونہ عمل ہیں۔ آپ کی زندگی کا انفرادی، سماجی، سیاسی، معاشی اور انتظامی پہلوؤں سے مطالعہ کرناہمارے معاشرے کے لیے بہت سودمند ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اس عظیم الشان شخصیت کی سیرت کاہم نے اکثر انفرادی نقطہ نظر سے جائزہ لیا۔ محدود نظریہ اور کج فکری سے آپ کو پہچانا۔ آپ کی حیات اقدس کے اصل پہلو کو عموماً ہم نےنظر انداز کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی تاریخ میں بھی بہت سارےایسےکج فکر اور ناداں افراد موجود ہیں جو اس عظیم المرتبت شخصیت کی فضلیت،شان وعظمت اور مقام و مرتبہ سے نابلد ہے۔اس پاک ذات کی فضیلت میں پیامبر گرامی اسلام حضرت محمد ﷺسے متعددروایات نقل ہوئی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:"الحسنُ والحسينُ سيدا شباب أهل الجنة" یعنی حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔یہ حدیث تمام مسلمانوں کے یہاں متفق علیہ ہے اور شیعہ و سنی کتب حدیث میں نقل ہوئی ہے۔نیز’’حسینؑ چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہے‘‘۔’’حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں ‘‘ جیسے احادیث بھی تمام مسلمانوں کے یہاں متفق علیہ ہے۔

امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ کی فضیلت، شان وعظمت خود پیغمبر اکرم ؐبیان فرمارہے ہیںاور امت کو مودت اہلبیت ؑ کی تلقین کررہے ہیں لیکن افسوس صد افسوس مسلمانوں کے صفوں میں ایک ٹولہ ایسا بھی ہے جو امت محمدی ؐ کےدعویدار ہیں لیکن محمد ﷺ کے نواسے امام حسین ؑ کے قاتل یزید ملعون کی کھل کر حمایت کررہے ہیں یا پھر یزید لعین کے بارے میں دورائے رکھتے ہیں۔خدادرا بتائیں اس ٹولے کو امت محمدی ؐ کہنے کا کونسا حق ہے۔ دین محمد ی ؐ کو امام عالی مقام ؑ نے کربلا کے تپتے ریگزار میں آبرو بخشا۔ شہدائے کربلا نے بے نظیر قربانیوں سے دین اسلام کو بقا نصیب ہوئی۔

کربلا کا عظیم اور تاریخ ساز واقعہ جو محرم الحرام 61ہجری میں رونما ہوا تاریخ انسانیت کے ایک اہم ترین مذہبی،سیاسی اور سماجی تحولات میں سے ایک ہے کربلا مشن انبیاءؑ کا ایک منفرد واقعہ ہےاس خونین واقعہ کا ایک ایک لمحہ انسانیت کے لئے ایک ایک درسگاہ ہے جس کا صحیح تجزیہ کرنا ضروری ہے۔تاکہ کربلاکی تحریک کو ہر ممکن حد تک بہتر طریقے سےپرکھا جائےاس نہضت کا اصل چہرہ جس کو تاجران خون حسین ؑ نے چند سکوں کے عوض ہائی جیک کیا ہےسامنے آجائے۔ آج کی تاریخ میں کربلا کو خانقاہوں ،درگاہوںاور درباروں سےنکال کر میدان عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔اور کربلا کے نام پر جو رسم ہم صدیوں سے نبھا رہے ہیں یہ رزم بن جائے تاکہ دنیا کی کمان مظلوموں ،محروموں اور مستضعفوں کے ہاتھوں میں آجائے۔ کربلا کا حقیقی مفہوم ’’ھیھات من الذلہ‘‘ ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ آج سے تقریباًچودہ سو سال قبل یزید نے مدینہ میں تعینات اپنے گورنر کو لکھاکہ حسین ابن علیؑ، عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عمر کو بلاؤ اور ان سےمیری بیعت کی دعوت دو۔ اگر وہ بیعت سے انکار کردیں تو ان کا سر قلم کر دو اور ان کے سر میرے لیے کھانے پر بھیج دو۔ اس توہین کے جواب میں نواسہ رسولؐ،فرزند علی ؑ وبتول ؑ، امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑنےجرائت ،جوانمردی اور بہادری سے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا۔’’"مثلی لا یبایع مثلہ" ‘‘یعنی "مجھ(حسینؑ) جیسا تجھ(یزید) جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا"۔اس تاریخی جملے سے تحریک کربلا کا اصل ہدف اور نصب العین واضع ہوگیا۔امام حسین ؑ کے اس چھوٹے مگر خوبصورت جملے نے یزیدابن معاویہ اورتاروز ابد سراٹھانے والی یذیدیت کو للکارا۔اورحق و باطل کے فاصلے کی بے نظیراور لامثال فارمولا پیش کی۔

بدنصیبی یہ ہے کہ ہم نے قیام کربلا کو ایک حادثہ سمجھا ہے۔ ملا نما جاہل افراد اورذاکر نما جاہلوں نے امام حسین ؑ کوصرف اور صرف ایک مظلوم پیش کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نعوز باللہ امام عالی مقام علیہ السلام یزید اور یزیدی افواج کے ڈر سے بھاگ رہا تھا۔اور اس کو اچانک محاصرے میں لے کر شہید کردیا گیا۔امام عالی مقام ؑواقعاً مظلوم تھے۔ یزیدی افواج نے امام عالی مقام اور آپ کے اصحاب و انصار ،اور اہل بیت پر ایسے مظالم ڈھائے جنہیں تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ لیکن تحریک کربلا ایک مصمم ارادہ والی تحریک ہے۔ امام عالی مقام نے مصمم ارادے کے ساتھ اس تحریک کی بنیاد ڈالی۔ اور یہ تحریک میدان کربلا میں پروان چڑھی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی تحریک نہیں تھی بلکہ باطل نظام فاسق و فاجر نظام کے خلاف علی الاعلان تحری تھی۔ جس کا ایک ایک مجاہد جوانمردی ،بہادری، شجاعت، دلیر ی،صبر ورضا ،مزاحمت اور استقامت کی مثال تھی۔ امام حسین نے شعوری طور پر شہادت کا انتخاب کیا۔ نہ صرف مدینہ سے سفر کے آغاز میں اور روضہ رسولﷺ کی الوداعی رات، یا مکہ سے سرزمین عراق تک کے سفر میں، بلکہ برسوں پہلے اسے معلوم تھا اوررسول خدا ﷺکے زمانے میں ہی شہادت سےخبر دار تھے۔

امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ نےعلی الاعلان اپنے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ میرے قیام کا مقصدامر بالمعروف و نہی از منکر ہے۔میرے قیام کا مقصد جد امجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی اصلاح ہے۔میرے قیام کا مقصد اپنے جد کے سنتوں اور قوانین الٰہی کا احیا ہے۔جنہیں یزید ملعون نے پائمال کیا تھا۔

نہضت کربلا کایہ ہدف اس قدر عظیم ہے کہ امام فرماتے ہیںکہ آپ نہیں دیکھتے ہیں کہ حق کو روندھا جارہا ہے اور باطل کو روکا نہیں جا سکتا۔ مدینہ سے مکہ کی طرف روانگی کے وقت سید الشہداء حضرت امام حسین ؑنے جو وصیت لکھی اور اپنے برادر محمد حنفیہ کے حوالے کی اس میں آپ نے پہلے توحید کی آفاقی حقیقت کی طرف اشارہ کیاپھر لکھاکہ میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میرے اس سفر کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے اس سفر کے دوران امت کے مفاسد کی اصلاح کروں۔ اپنے جد امجد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قوانین اور ان کی سنتوں کو زندہ کروں اور اپنے پدر بزرگوار کا راستہ اور ان کا طرز عمل اپناؤں۔

چونکہ عاشورا کے کلچر میں یزید بذات خود ایک بہت بڑی برائی ہے۔ اس الٰہی کلچر میں جب برائی سر نکالتی ہے تو اس برائی کا خاتمہ کرنے کے لئےچھ ماہ کا معصوم بھی اپنے گلے پر تیر کھانے کے لئے نکلتا ہے۔نوجوانوں کو شہادت قند سے شیرین لگتی ہے۔ عاشورائی کلچر کے یہ سرفروش سینہ تان کے نکلتے ہیں اور دین محمدی کی آبیاری کے لئے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔

اپنے آپ کو خلیفۃ المسلمین کہنے والےیزیدملعون دین ناب محمدی ؐ کی اصلی ہیئت کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ان حالات میں امام حسین علیہ السلام کے پاس دو ہی آپشن تھے۔مزاحمت یا بیعت۔مزاحمت کا نتیجہ شہادت یا حکومت الٰہی کا قیام تھا اور بیعت کا نتیجہ اسلام کی رسوائی اور تباہی تھی۔ امام ؑنےمزاحمت کاراستہ انتخاب کیا اور امربالمعروف اور نہی عن المنکرکی علم بلند کی امت کو بنی امیہ کے خطرات سے خبردار کیا۔ امام عالی مقام نے سب کو یزیدپلید اور اس کے کارندوں کے خلاف مزاحمت کی دعوت دی۔لیکن صرف ۷۲کا لشکر ندائے حق کو لبیک کرگئے۔

ایک غیر مسلم دانشورموسیو ماربین کہتے ہیں کہ:’’ "اپنے عزیز ترین لوگوں کی قربانی دے کر، حسین ؑنے دنیا کو قربانی کا سبق سکھایا اور اسلام اور مسلمانوں کا نام تاریخ میں درج اور دنیا میں روشن کیا، اور اگر ایسا واقعہ رونما نہ ہوتا تویقینی طور پرآج اسلام اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں رہتا۔‘‘

عاشورہ کا المناک واقعہ جو حق و باطل،سپاہ ایمان اورسپاہ کفرکے درمیان خونریزمعرکہ تھا، اگرچہ بظاہر اصحاب حق کی شہادت ہوئی،لیکن درحقیقت انہوں نےعظمت و بزرگی اور ایمان و یقین کےایسے مظاہر دکھائے جو تاریخ کے اوراق میںسنہری حروف سے درج ہیں۔ حقیقی معنوں میں آپ نے اپنے اہداف ومقاصد حاصل کر لئے۔کربلا کےان جانثاروں نے لوگوں کو فخر وآزادی کا راستہ دکھایا۔گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبتی ہوئی انسانیت کو نجات کا شمع دکھایا۔بقول محمد علی جوہر ؒ

قتل حسینؑ اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

پس وقت کا تقاضا ہے کہ امت مسلمہ کربلا کے ایک ایک کردار کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔ عزاداری کے ساتھ ساتھ ان کی سیرت کو بھی اپنائیں تاکہ آج جوعالمی طاغوت کے ساتھ جگہ جگہ پر معرکے بپا ہیں ان کو بآسانی سے سر کرلیا جائے۔جب تک کربلا کے جانبازوں کے کردار ،افکار اور نظریات کو ہم اپنے معاشرے میں نافذ نہیں کریں گے تب تک کربلا کے اصل ہدف اور مقصد کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .