۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
News ID: 383350
12 اگست 2022 - 21:33
مولانا علی ارشاد مبارکپوری

حوزہ/ مبارکپور اعظم گڑھ یوپی کے ایک یونہار اور ہے مثال شخصیت حجت الاسلام والمسلمین الحاج مولانا علی ارشاد صاحب قبلہ نجفی اعلی اللہ مقامہ

حوزہ نیوز ایجنسیمبارکپور اعظم گڑھ کا یہ درخشندہ ستارہ ۱۱ ذیقعدہ ۱۳۴۵ھجری مطابق مارچ ۱۹۲۶عیسوی کو افق مبارکپور پہ طلوع ہوا۔آپکے والد ماجد عالیجناب الحاج مولانا حکیم علی حماد صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ اور والدہ ماجدہ صغری مرحومہ جو جناب امان اللہ مرحوم ساکن املو کی بیٹی تھیں۔

آپنے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے عظیم المرتبت والد سے پھر مدرسہ احیاء العلوم مبارکپورمیں پھر ایک سال مدرسہ باب العلم میں حاصل کی اسکے بعد مدرسہ ناصریہ جونپور تشریف لے گئے جہاں ۱۹۴۲ء میں "مولوی" اور ۱۹۴۳ء میں "عالم" کی سند لیکر جامعہ جوادیہ بنارس چلے گئے وہاں سے ۱۹۴۸ء میں "فخرالافاضل" کرکے ۱۹۴۹ء میں "فاضل طب الہ آباد بورڈ" کا امتحان پاس کیا اور جامعہ جوادیہ میں تعلیم کے دوران ھی لکھنو یونیورسٹی سے ۱۹۴۶ء میں "دبیر کا مل کا امتحان دیکر سند حاصل کی۔

ہندوستان کی تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۹ شعبان ۱۳۶۸ ھ مطابق جون ۱۹۴۹ء بغرض تعلیم اجتہاد آپ نجف اشرف عراق تشریف لے گئے اور وہاں سے اجازات اجتہاد حاصل کرکے ۲۳رمضان المبارک ۱۳۷۳ھ مطابق ۱۹۵۴ء وطن عزیز واپس لوٹے۔۱۹۵۴ء سے ۱۹۸۷ء تک آپنے ہندوستان کے مختلف مقامات اور متعدد مدارس و جامعات میں تبلیغ و تدریس کے فرائض انجام دیۓ۔۲ بار مدرسہ باب العلم مبارکپور کے پرنسپل اور تا عمر شیعہ جامع مسجد مبارکپور کے امام جمعہ اور متولی رہے۔۱۹۸۶ء میں حکومت ایران کی دعوت پر ایران تشریف لے گئے، آپنے شہرہ آفاق علماء کی متعدد کتابوں کے ترجمے کئے، آپ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے مگر لوگوں نے آپکو پہچانا نہیں

"قدر گوھر شاہ داند یا بداند جوھری"

آپ حق گوئی میں کمال رکھتے تھے اور حق بولنے میں کسی کا خیال نہیں رکھتے تھے اسی لیے بعض لوگ آپکی حق گوئی کی بنا پر آپ سے ناراض رہتے تھے۔ مگر آپ نے لوگوں کی رضا کے لیے خدا کی ناراضگی مول نہیں لی۔ آپکی زندگی میں دنیاوی سکون میسر نہ تھا مگر کبھی کسی سے تقدیر کا شکوہ نہیں کیا۔ صبرو شکر کی کٹھن منزلوں کو طے کرتے ہوئے آپنے ۱۳محرم ۱۴۰۸ھ مطابق ۸ ستمبر ۱۹۸۷ء سہ پہر ۲ بجے داعی اجل کو لبیک کہا اور ھمیں ھمیشہ کے لیے اپنے عظیم سایہ سے محروم کر دیا

انا للہ و انا الیہ راجعون

ھزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ھو تا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

آ پ نے چار فرزند چھوڑ ے

جنمیں ایک مولانا فيروز عباس صاحب قبله

دوسرے حقير سراپا تقصير احسان عباس

تیسرے مولانا عرفان عباس صاحب سلمه

چوتھے مولانا محمد عباس سلمہ

اور چاروں اسوقت خدمت دین میں مصروف ہیں

اللہ ھماری خدمات کو قبول کرے اور توفیقات میں اضافہ فرمائے .

آپکے عظیم المرتبت اساتذہ میں سر فہرست ہندوستان میں

آیۃ اللہ فی العالمین الحاج مولانا سید ظفر الحسن الرضوی صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ

(سابق پرنسپل جامعۂ جوادیہ بنارس)

حضرت حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج مولانا سید وصی محمد صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ

(سابق پرنسپل جامعۂ وثیقہ عربی کالج فیض آباد)

اور عراق میں مرجع جہان تشیع حضرت آیۃ اللہ العظمٰی السید محسن الحکیم اعلی اللہ مقامہ

مرجع جہان تشیع حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ السید ابو القاسم الموسوی الخوئ اعلی اللہ مقامہ

وغیرھم کا شمار ہوتا ہے

اور آپ کے شاگردوں کی اک طویل فہرست ہے جنمیں مشہور زمانہ شخصیتیں یہ ہیں

حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب الحاج مولانا محمود الحسن خانصاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ

(سابق پرنسپل جامعۂ ناصریہ جونپور)

حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب الحاج مولانا سید عابد حسین صاحب قبلہ کراروی اعلی اللہ مقامہ

(بانئ حوزہ علمیہ امام خمینی رہ وٹوا احمدآباد گجرات)

حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا تقی الحیدری صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ

(سابق پرنسپل جامعۂ وثیقہ عربی کالج فیض آباد)

وغیرھم

شجرہ مبارکہ علماء خانوادہ واحدی:-

مولانا فیروز عباس،احسان عباس, مولانا عرفان عباس, مولانا محمد عباس

ابن مولانا علی ارشاد النجفی اعلی اللہ مقامہ

ابن مولانا علی حماد (حکیم) اعلی اللہ مقامہ

ابن مولانا علی سجاد(حکیم) اعلی اللہ مقامہ

ابن مولانا میانصاحب یار علی اعلی اللہ مقامہ

ابن مولانا میانصاحب عبد الواحد اعلی اللہ مقامہ

ابن مولانا میانصاحب جان محمد اعلی اللہ مقامہ

ابن شیخ خوانوادہ و رئیس قوم میانصاحب دوست محمد اعلی اللہ مقامہ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .