۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
فاضل لنکرانی

حوزہ / آیت اللہ فاضل لنکرانی نے کہا: یہ سادہ لوحی ہے کہ کوئی کہے کہ "ہمارا اسرائیل اور دشمنانِ اسلام سے کیا کام، ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے یا درس و بحث میں مشغول رہنا چاہیے"۔ انہوں نے کہا: یہ طرز تفکر درست نہیں ہے۔ اس فکر کے ہوتے ہوئے ہم کیسے یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ اسلام دینِ کامل اور جامع ہے؟۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ محمد جواد فاضل لنکرانی نے مرکز فقہی ائمہ اطہار (ع) کے نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی اہمیت بیان کی۔

انہوں نے کہا: ہم تک ائمہ معصومین علیہم السلام کی جو روایات پہنچی ہیں ان میں ہے کہ علم، عمل کے ہمراہ ہونا چاہیے کیونکہ اگر انسان اپنے علم پر عمل نہ کرے گا تو وہ خود بھی ہلاک ہو گا اور دوسروں کو بھی ہلاک کرے گا۔

مرکز فقہی ائمہ اطہار (ع) کے سربراہ نے کہا: ایک روایت میں ہے کہ علم، عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اگر انسان کو علم کی اہمیت ادراک ہو تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس پر عمل بھی کرے گا۔

انہوں نے کہا: علم اور عمل کے درمیان ایک رابطہ موجود ہے اور علم، عمل کو دعوت دیتا ہے۔

آیت اللہ فاضل لنکرانی نے کہا: جب انسان علم حاصل کرتا ہے اور اس کے بعد اس پر عمل کرتا ہے تو وہ علم عالَمِ برزخ اور قیامت میں اس کے ہمراہ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا: روایات میں آیا ہے کہ ممکن ہے کوئی دنیا میں عالم مشہور ہو لیکن اس کے مرنے کے بعد علم اس سے جدا ہو جائے اور وہ عالم برزخ اور قیامت میں اس جاہل محشور ہو چونکہ وہ علم اس کے کسی کام کا نہیں ہے کیونکہ اس نے اس پر عمل نہیں کیا۔ پس معلوم ہونا چاہیے کہ اگر علم کے ہمراہ عمل نہ ہو تو وہ علم انسان سے جدا ہو جائے گا۔

جامعہ مدرسین (حوزہ علمیہ کے اساتذہ کی انجمن) کے رکن نے کہا: ایک بار امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے دینی طلباء اور علماء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا "اہل جہنم بے عمل عالم کی بدبو سے اذیت میں ہوں گے"۔

انہوں نے کہا: بدونِ عمل کے علم سے خدا کی پناہ مانگنی چاہئے۔ اہل جہنم میں سے سب سے بدتر وہ عالم ہوگا کہ جس نے اپنے علم پر عمل نہیں کیا ہوگا۔

آیت اللہ فاضل لنکرانی نے کہا: تمام علمی سرگرمیوں کا مقصد عمل اور خدا کی بندگی ہے۔

انہوں نے کہا: ہم جو اس علمی مرکز میں اکٹھے ہوئے ہیں وہ اس لئے نہیں ہے کہ ہمارا نام ہوگا اور لوگ ہمیں عالم اور مجتہد کہہ کر پکاریں گے بلکہ ہمارے یہاں جمع ہونے کا مقصد یہ ہے کہ ہم عمل کے میدان میں وارد ہوں گے اور خداوند متعال کی بندگی کریں دیں گے۔

دینی علوم کے اس استاد نے ان افراد پر جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا اسرائیل اور دشمنان اسلام سے کیا کام، تنقید کرتے ہوئے کہا: یہ بہت سادہ لوحی ہے کہ ہم کہیں "ہمارا اسرائیل اور دشمنانِ اسلام سے کیا کام ہے؟"۔ اگر یہ درست ہے تو ہم کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اسلام دین کامل اور جامع ہے۔

آیت اللہ لنکرانی نے کہا: آج بشریات کی مشکل یہ ہے کہ وہ فقہ اہل بیت علیہم السلام سے دور ہے اور حوزہ علمیہ کو بھی پہلے سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے کیونکہ یہ انقلاب حوزہ کی پیداوار ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے ان منابع اور دینی متون سے انقلاب کو نکال کر لایا اور اسے عملی طور پر کامیاب کیا۔ ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس انقلاب کا دفاع کریں۔

آیت اللہ فاضل لنکرانی نے آخر میں کہا: اب کوئی ایسا مبتلا بہ مسئلہ نہیں ہے کہ جس کا جواب حوزہ علمیہ کے پاس نہ ہو اور یہ حوزہ علمیہ کا افتخار ہے۔ البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حوزہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .