۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
ایران میں احتجاجات

حوزہ/ شخص کی آزادی کے لئے ہر ملک کے الگ الگ قوانین ہیں۔جمہوری ممالک میں شخص کو جتنی آزادی حاصل ہے ایران میں بھی اس قدر آزادی حاصل ہے مگر اس کا غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لیا جائے ۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی | گذشتہ کچھ دنوں سے ایران کے داخلی حالات کشمکش کا شکار ہیں ۔ایران کے مختلف حصوں میں حجاب کے خلاف احتجاج ہورہاہے ۔لڑکیاں اپنے بال کاٹ کر حجاب اور موجودہ نظام سے آزادی کا مطالبہ کررہی ہیں ۔دوسری طرف حجاب کی حمایت میں بڑی ریلیاں نکالی جارہی ہیں ۔باحجاب خواتین بے حجابی کے خلاف میدان عمل میں ہیں ۔ایرانی حکام اور میڈیا کا کہناہےکہ انقلاب دشمن عناصر احتجاجات کی رہنمائی کررہے ہیں ۔اس میں کرد عسکریت پسند گروپ بھی شامل ہیں اور ایران میں موجود ہ نظام مخالف بھی ۔گذشتہ کچھ سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایران میں معمولی سے معمولی بات پر بھی لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔کبھی مہنگائی کے خلاف ہنگامہ آرائی ہوتی ہے تو کبھی موجودہ نظام کےخلاف نعرہ بازی شروع ہوجاتی ہے ۔ہر ہنگامے اور احتجاج کے پیچھے انقلاب مخالف اور امریکی نواز افراد کا ہاتھ ہوتاہے ،جیساکہ ایرانی میڈیا کے ذریعہ خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں ۔پہلا سوال تویہ ہے کہ آخر ایران میں خارجی طاقتوں کے نمائندے اس قدر توانا کیوں ہیں ؟کیا ایران کی خفیہ ایجنسیاں ایسےافراد پر لگام کسنے میں ناکام ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ایران کے موجودہ نظام سے لوگوں کو کیا خدشات لاحق ہیں ؟جس بنیاد پر اس نظام کی شدومد کے ساتھ مخالفت کی جاتی ہے ۔
پہلے سوال کا جواب اس طرح دیاجاسکتاہے کہ ہر ملک میں خارجی طاقتوں کےایجنٹ اور نمائندے موجود ہوتے ہیں ۔ایران چونکہ استعمار کی آنکھ کا کانٹاہے اس لئے اس پر چوطرفہ یلغار ہے ۔ایک طرف امریکہ اور اسرائیل جیسی طاقتیں اپنے حلیف ممالک کے ذریعہ اس کے داخلی مسائل کو ابھارنےکا کام کرتی ہیں ۔دوسری طرف وہ مسلمان ممالک جو ایران کے فکری اور علاقائی دشمن ہیں ،ایران کی کمزوریوں کی تاک میں رہتے ہیں ۔قاسم سلیمانی کا عراق میں بزدلانہ قتل اور جوہری سائنس داں محسن فخری زادہ کو ایران میں گھس کر موت کے گھاٹ اتاردینا آسان عمل نہیں تھا ۔ان دونوں منصوبوں نے یہ ثابت کردیا تھاکہ استعماری طاقتوں کے لئے سب سے بڑاخطرہ ایران ہے ،اس لئے وہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ ایران کو کمزور کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں ۔موجودہ احتجاجی ریلیوں کو بھی ان کی پوری حمایت حاصل ہے ۔ظاہر ہے یہ حمایت براہ راست انجام نہیں دی جاسکتی بلکہ ایران میں موجود استعماری طاقتوں کے آلۂ کار ان ریلیوں کی رہنمائی کررہے ہیں ،جن پر قابو حاصل کرنا ایران کے لئے بڑا مسئلہ ہے ۔وقتاً فوقتاً ایرانی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ خارجی طاقتوں کے نمائندوں کی گرفتاری کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں ۔بعض کو ملک سے خیانت کے جرم میں سنگین سزائیں دی جاتی ہیں ۔ان سزائوں کے خلاف بھی عالمی طاقتیں اور مغربی میڈیا واویلا کرتا رہتاہے کیونکہ اس طرح اس کے نیٹ ورک کی کمر ٹوٹ رہی ہوتی ہے ۔
دوسرے سوال کا جواب قدرے تفصیل طلب ہے مگر اجمالی پیرائے میں یوں کہاجاسکتاہے کہ ایران کا موجودہ نظام خداکے علاوہ کسی دوسری طاقت کی برتری تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس لئے استعماری و استکباری طاقتیں اس نظام کو تحمل نہیں کرپارہی ہیں ۔ایران کا کہناہے کہ ہم کسی طاقت کے ماتحت نہیں رہ سکتے ۔ہم فقط اور فقط ایک طاقت کو تسلیم کرتےہیں اور وہ ہے اللہ کی طاقت۔ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایران نے مختلف محاذوں پر استعماری طاقتوں کو مسلسل شکست دی ہے ،جو آج تک کسی کے لئے ممکن نہیں ہوسکا تھا ۔شام ،عراق،فلسطین اور یمن اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔دوسری طرف ایران کا جوہری منصوبہ دشمن کے لئے انتہائی خطرناک عمل ہے ۔استعماری و استکباری طاقتیں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کی خواہاں نہیں ہیں ،مگر ان طاقتوں کے حلیف ممالک ایران کےساتھ جوہری معاہدہ کے خواہش مند ہیں ۔کیونکہ چین اور روس جیسی طاقتیں ایران کے ساتھ متحد ہوچکی ہیں ۔نیا عالمی نظام ایران ،روسی اور چین کے ماتحت اپنے پائوں پسار رہاہے ۔اس لئے دنیا کی بڑی طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کو بحال کردیاجائے ۔ایران بھی جوہری معاہدہ میں واپسی کا خواہش مند ہے مگر وہ اپنی شرطوں کے ساتھ اس معاہدہ کی بحالی چاہتاہے ۔ویانا میں ہونے والے جوہری مذاکرات ایران دشمن عناصر کے لئے خوش آیند نہیں ہیں ،اس لئے ایران کو چوطرفہ گھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
آئیے اب مہسا امینی کی موت کا جائزہ لیاجائے ۔مہسا امینی کے سلسلے سے جتنی خبریں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ موصول ہورہی ہیں ،ان کا تعلق مغربی میڈیا سے ہے ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مغربی میڈیا کے ذریعہ موصول خبروں کی تصدیق نہیں کرتے بلکہ’ آمنّا و صدقنا‘کی نظیر بن جاتے ہیں ۔ایرانی میڈیا کی خبروں کو خاطر میں نہیں لاتے کیونکہ اکثر لکھنے والے ایران کے نظریاتی و فکری مخالف ہیں ۔نظریاتی اختلاف الگ بات ہے لیکن حقائق کی تہوں تک پہونچ کر قارئین تک واقعہ کی اصلیت کو پہونچانا صحافتی ذمہ داری ہے ۔خبروں کے مطابق کچھ دنوں پہلے مہسا امینی کو پولیس نے بے حجابی کے جرم میں گرفتار کیا تھا ۔بے حجابی شخص کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سماج کا مسئلہ ہے ۔جب تک بے حجابی یا کوئی بھی آئین مخالف عمل گھر کے اندر انجام دیاجائے اس پر حکومت کو کاروائی کا حق حاصل نہیں ہوتا ۔لیکن جیسے ہی آئین کی مخالفت عمومیت اختیار کرنے لگے اور وہ سماجی تخریب کا مسئلہ قرار پائے ،حکومت کو اس پر آئین کے مطابق کاروائی کرنے کامکمل اختیار حاصل ہوتا ہے ۔مہسا امینی کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔وہ علیٰ الاعلان بے حجابی کی نظیر بنتی جارہی تھی لہذا پولیس نے اسے گرفتارکرلیا ۔حراست کے دوران اچانک اس کی موت واقع ہوگئی جس کے بعد ایران دشمن عناصر نے اس خبر کو بھنانے کی پوری کوشش کی ۔ایرانی حکام اور میڈیا کی رپورٹس کے مطابق مہسا امینی کی موت کسی تشدد کی بنیاد پر نہیں ہوئی بلکہ اچانک دل کا دورہ پڑنے کی بنیاد پر ا س کی موت کی تصدیق کی گئی ہے ۔جس ویڈیو فوٹیج کو مہساامینی کی موت کے حوالے سے پیش کیا جارہاہے اس میں وہ صحت مند نظر آرہی ہے ۔خواتین پولیس اہلکاروں سے بات کرتے ہوئے اچانک وہ زمین پر گرپڑتی ہے اور اس کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔اس سے پہلے یہ بات سامنے آچکی تھی کہ مہسا امینی کو برین ٹیومر ہے ،جس کی بنیاد پر اسکی حالت اکثر تشویش ناک ہوجاتی تھی ۔پوسٹ مارٹم کی رپوٹ کے مطابق اس کے ساتھ کوئی جسمانی تشدد کا واقعہ سرزد نہیں ہوا اور نہ اس کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان موجود تھا ۔اس کے باوجود یہ دعویٰ کرنا کہ اس کے ساتھ پولیس نے متشدد رویہ اختیارکیا،ایک غیر ذمہ دارانہ بیان ہے ۔
حجاب سے متعلق ہر ملک کا اپنا قانون ہے ۔جمہوری نظام میں بھی ہر کسی کو اپنی خواہشات کے مطابق عمل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔اکثر جمہوری ملکوں میں حجاب پر پابندی عائد ہے جبکہ یہ عوام کا اختیاری مسئلہ ہے ۔ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن یہاں بھی حجاب کے خلاف جنگ چھڑی ہوئی ہے ۔اسی طرح برطانیہ ،امریکہ اور فرانس جیسے ممالک میں بھی جمہوری قدریں بحال نہیں ہیں ۔ یعنی ہر جمہوری ملک میں کسی نا کسی حد تک شخص کی آزادی متاثر ہوتی رہتی ہے ۔تو پھر ایران کے خلاف ہی اتنا پروپیگنڈہ کیوں؟جبکہ مہساامینی کی موت اور حجاب کا مسئلہ دوالگ الگ موضوعات ہیں۔گرایران کے جمہوری نظام میں حجاب پہننا آئینی حیثیت رکھتاہے تو گویا اس کی مخالفت آئین کی مخالفت سمجھی جائے گی ۔جس طرح ہر جمہوری ملک اپنے آئین کے تئیں وفاداری اور سنجیدگی کا مطالبہ کرتاہے ایرانی نظام بھی اس کا متقاضی ہے ۔ایک فاضل مصنف تو یہاں تک لکھ گئے کہ ایران میں مردوں کے لئے بھی پردہ کا حکم موجودہے ۔یعنی مرد نصف آستین کی قمیص نہیں پہن سکتا۔اس تبصرہ سے پہلے انہیں ایرانی معاشرہ کے واقف کار اور ایرانی تہذیب و ثقافت کے ماہرین سے معلومات حاصل کرنی چاہیے تھی ۔ایران میں نصف آستین کی قمیص اور ٹی شرٹ پہننا عام بات ہے ۔رہی حجاب کی بات تو جس طرح ہر ملک میں لوگ آئین پسند اور آئین مخالف ہوتے ہیں اسی طرح ایران میں بھی ہیں ۔خواتین مکمل حجاب کی پابند بھی ہیں اور برائے نام حجاب پہننے والی خواتین بھی ہیں ۔لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں دیکھاکہ کم پردے والی خواتین کو پولیس سڑکوں پر تنگ کررہی ہو۔تہران جیسے ماڈرن شہر میں خواتین مکمل حجاب میں نظر نہیں آتیں ،لیکن ان پر کسی طرح کا جرمانہ عائد نہیں کیا جاتا اور نہ پولیس انہیں پریشان کرتی ہے ۔شخص کی آزادی کے لئے ہر ملک کے الگ الگ قوانین ہیں۔جمہوری ممالک میں شخص کو جتنی آزادی حاصل ہے ایران میں بھی اس قدر آزادی حاصل ہے مگر اس کا غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لیا جائے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .