۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
علامہ امین شہیدی

حوزہ/ امت واحدہ پاکستان کے سربراہ: اسلام نے عورت کے زمانہ جاہلیت کے تصور کو بدل کر اسے منفرد مقام عطا کیا۔ قرآن مجید نے ہمیں بتایا کہ انسان کی برتری کا معیار جنس نہیں بلکہ تقوی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے لاہور کے قومی مرکز میں ”شہید اور شہادت“ کے موضوع پر یونیورسٹی طالبات سے خطاب کیا جس میں انہوں نے شہیدہ پرور کی حیثیت سے معاشرہ کی تشکیل میں عورت کے کردار پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ دین کی راہ میں مرد کی نسبت ایک خاتون زیادہ پامردی اور استقامت سے اپنا کردار ادا کر سکتی ہے کیونکہ اللہ نے اس کی گود کو انبیاء و آئمہ علیہم السلام، اولیاء اور صالحین و صدیقین کی تربیت گاہ قرار دیا ہے، یہاں تک کہ ایک شہید کو شہید بنانے والی شخصیت بھی عورت ہے۔ ایک ماں جذبہ شوقِ شہادت کو دودھ کے ذریعہ اپنے بچہ میں منتقل کرتی ہے۔ جہاں تک موضوع ”شہید اور شہادت“ کا تعلق ہے تو یہ ان لوگوں کی یاد ہے جنہوں نے اپنے خون سے لکھا ہے کہ شہداء اللہ کی وحدانیت و حقانیت کے گواہ ہیں۔

علامہ امین شہیدی نے شہادت کے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ شہید ظاہری طور پر اپنا لہو بہاتا ہے لیکن معنوی طور پر وہ مقامِ بلند اور شعور کی اعلی منزل تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ عام طور پر ایک انسان کی تربیت و تزکیہ کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں ایسے پاکیزہ اور تربیت یافتہ لوگوں کا پایا جانا ممکن نہیں جو عملی طور پر اہل بیت اطہار علیہم السلام یا اولیاء اللہ جیسی زندگی گزار سکیں۔ لیکن اس تصور کو با آسانی رد کر کے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ خواہ مرد ہو یا عورت، دونوں میں سے جو بھی دین کی راہ میں نکلے، اللہ اس کی راہ کو کشادہ کر دیتا ہے۔ ان کی پاکیزگی انہیں اس مقام تک پہنچا سکتی ہے جسے مقامِ ولایت، شہداء و صدیقین کہتے ہیں۔ یہ راہ کسی خاص طبقہ سے مخصوص نہیں ہے، ہر بشر کے لئے یہ راستہ کھلا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام نے عورت کے زمانہ جاہلیت کے تصور کو بدل کر اسے منفرد مقام عطا کیا۔ قرآن مجید نے ہمیں بتایا کہ انسان کی برتری کا معیار جنس نہیں بلکہ تقوی ہے۔ اسی لئے جب اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شکل میں بیٹی عطا کی تو حضرت زہراؑ نے ثابت کیا کہ وہ تمام خلائق سے افضل ہیں۔ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام ماڈرن جاہلیت کی شکل میں رائج ہے جس کا آغاز مغرب میں تین چار سو سال قبل عورت کی آزادی، برابری اور خودمختاری کے نعروں سے ہوا۔ اگرچہ یہ نعرے بڑے خوب صورت ہیں لیکن ان کی آڑ میں عورت کی انسانیت کو نظر انداز کیا گیا اور مرد کی نسبت اس کے زیادہ کام کرنے کی توانائی کو پیسہ کمانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا یہاں تک کہ عورت کو مارکیٹ میں بطور جنس متعارف کرایا گیا۔ اس کے برعکس اسلام نے عورت کو وقار و عظمت عطا کی اور اسے برابری کی بنیاد پر کمال تک پہنچنے کا راستہ دکھایا۔ یوں خواتین کے عظیم ترین کردار سامنے آئے جنہوں نے ماں، بہن، بیٹی اور زوجہ کی حیثیت سے عام معاشرہ کو افضل ترین معاشرہ میں بدل دیا۔

علامہ امین شہیدی نے شہداء کی ماؤں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ عورت جب تربیت کے مرحلہ سے گزرتی ہے تو اس مقام تک پہنچ جاتی ہے کہ اگر خود شہید نہ بھی ہو لیکن شہید پرور کی حیثیت سے دین کی راہ میں جان لٹانے والے افراد پر مشتمل معاشرہ کو تشکیل دیتی ہے۔ کربلا کے ۷۲ کرداروں کی شہادت ہمیں بتاتی ہے کہ کربلا محض گریہ کرنے کا واقعہ نہیں بلکہ شہادت کا دروازہ ہے۔ ایک پاکیزہ ماں اپنے بچہ کی پاکیزہ ماحول میں پرورش کر کے اس کی روح کو پرواز کرنے کی طاقت فراہم کرتی ہے۔ یہ طاقت انسان کو مضطرب کیے رکھتی ہے اور وہ شہید ہونے کے لئے بےتاب رہتا ہے۔ کربلا کے شہداء کا مقام کتنا بلند ہوگا کہ جو امام حسین علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا جیسی عظیم ہستیوں کے زیر سایہ رہے۔ کربلا جانے والے قافلہ میں دو طرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ جنہوں نے مدینہ سے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ سفر کا آغاز کیا اور دوسرے وہ جو دورانِ سفر آپؑ کے قافلہ میں شامل ہوئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سفر میں ان خواتین نے بھی اپنے مردوں کے ساتھ آپؑ کو لبیک کہا جن کا آپ کے ساتھ کوئی رشتہ نہ تھا لیکن انہوں نے اپنے بیٹے اور شوہر کی شہادتیں پیش کیں۔ کربلا کی خواتین کی بہادری، استقامت اور ان کا یزیدیت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنا کرنا، یہ وہ اہم ترین پہلو ہیں جن کو مدِنظر رکھتے ہوئے بچیوں اور خواتین کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .