۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
حجۃ الاسلام آقای شیخ مہدی مہدوی پور

حوزہ/ نمائندہ مقام معظم رہبری در ہند نے اپنی تقریر میں کہا کہ سید العلماایک صاحب نظر مجتہد تھے جو نہ صرف تفسیر و حدیث بلکہ فقہ ،علم کلام ،فلسفہ اور علم اجتماعیات میں یدطولیٰ رکھتے تھے ۔احکام دین میں استدلال کے ساتھ انہوں نے استنباط کیا ۔وہ عارف زمانہ تھے اور وقت کے تقاضوں کو بخوبی سمجھتے تھے ۔نجف اشرف اور قم کے علماء اور طلباء ان کے علمی مرتبہ کے معترف رہے ہیں۔ان کی جیسی عظیم شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،علی گڑھ/ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات کی جانب سے میڈیکل کالج آڈیٹوریم میں عالم اسلام کے عظیم مفکر،محقق اور صاحب اسلوب مصنف سید العلماء علامہ سید علی نقی نقوی المعروف بہ’’ نقّن صاحب‘‘ کی حیات اور خدمات پر ایک عظیم الشان بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد عمل میں آیا ،جس میں قومی و بین الاقوامی شخصیات نے شرکت کی ۔

سیمینار میں افتتاحی تقریر کرتے ہوئے مولانا آزاد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر عین الحسن نے کہاکہ ۱۹۰۵ء میں سیدالعلماء کی ولادت ہوئی جو مسلمانوں کا انحطاطی دور ہے ۔اس وقت دنیا سیاسی ونظریاتی کشمکش سے گذر رہی تھی ۔ترکی ،ایران ،افغانستان اور ہندوستان سمیت دنیا مختلف مسائل میں الجھی ہوئی تھی ۔مغربی سامراج پائوں پسار رہا تھا ۔ایسے پرآشوب دور میں سیدالعلماء نے اپنی علمی و فکری خدمات سے مسلمانوں کو نئی راہ دکھلائی ۔جدیدیت اور ویسٹرنائزیشن کی یلغار سے بچاتے ہوئے متعدد دینی و فکری مسائل پر مجتہدانہ رائے رکھی اور مسائل کا حل پیش کیا ۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہاکہ سیدالعلما مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت کے پیامبر تھے ۔انہوں نے مسلمانوں کو فکری اور سماجی کشمکش سے نکالنے کے لئے جدوجہد کی ۔ان کی تین سو سے زائد تصنیفات اور ایک ہزار سے زیادہ مقالات اس دعوےٰ پر بیّن دلیل ہیں ۔

اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہاکہ سیدالعلماایک عظیم مفکر اور دانشور تھے جس کا مشاہدہ ہم نے یونیورسٹی میں زمانۂ طالب علمی میں کیا ہے۔انہوں نے کسی یونیورسٹی سے رسمی تعلیم یعنی پی ایچ ڈی وغیرہ حاصل نہیں کی تھی اس کے باوجود عالمی سطح پر انہوں نے اپنے فکروفن کا لوہا منوایا ۔انہوں نے کہاکہ شعبۂ دینیات میں ان کے بے شمار خدمات ہیں ،اس لئے ان پر ایسے پروگراموں کا انعقاد ہونا چاہیے ،اس سلسلے میں یونیورسٹی ہر ممکن تعاون کے لئے تیار ہے ۔

افتتاحی اجلاس میں نمائندہ مقام معظم رہبری در ہند حجۃ الاسلام آقای شیخ مہدی مہدوی پور نے اپنی تقریرمیں کہاکہ سید العلماایک صاحب نظر مجتہد تھے جو نہ صرف تفسیر و حدیث بلکہ فقہ ،علم کلام ،فلسفہ اور علم اجتماعیات میں یدطولیٰ رکھتے تھے ۔احکام دین میں استدلال کے ساتھ انہوں نے استنباط کیا ۔وہ عارف زمانہ تھے اور وقت کے تقاضوں کو بخوبی سمجھتے تھے ۔نجف اشرف اور قم کے علماء اور طلباء ان کے علمی مرتبہ کے معترف رہے ہیں۔ان کی جیسی عظیم شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے ۔

مہمان اعزازی ڈاکٹر علی ربانی (کلچر ل کونسلر ،سفارت خانہ ایران دہلی) نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سید العلماعظیم دانشور تھے جنہوں نے جدیدیت ،سامراجیت اور مغربی تہذیب کی یلغار کا فکری مقابلہ کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات اور فکروفلسفہ کا بھرپور دفاع کیا ۔سیدالعلماء مختلف علوم و فنون پر دسترس رکھتے تھے اور دانشورانہ عقلیت کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی تشریع پر قادر تھے ۔


مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سیدکلب جواد نقوی نے اپنی تقریر میں کہاکہ سید العلماء کی شخصیت نابغۂ روزگار تھی ۔ان کے علمی و فکری خدمات کو ہرگز بھلایا نہیں جاسکتا ۔انہوں نے مختلف علمی و فکری میدانوں میں مسلمانوں کی رہنمائی کی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کیا ۔آج سیدالعلما کی حیات اور خدمات کا اعتراف کیا جارہاہے اور ایران و عراق میں ان کی کتابیں محققین کے لئے سرمایہ افتخار ہیں ۔مولانانے کہاکہ سیدالعلماء پر مختلف پروگراموں کی ضرورت ہے تاکہ ان کے فکروفن کی افادیت منور ہوسکے ۔

پروفیسر طیب رضا نقوی(صدر شعبۂ دینیات اور کنوینر) نے خطبہ ٔاستقبالیہ پیش کیا اور سیمینار کی اہمیت و افادیت پر گفتگو کی ۔سیمینار میں کے افتتاحی اجلاس میں ڈاکٹر محمود الظفر (زکاۃ فائونڈیشن دہلی) مولانا سید صفی حیدر (سکریٹری ادارہ تنظیم المکاتب )حکیم سید ظل الرحمان ،پروفیسر شاہد مہدی،شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین سید علی زیدی ،اور دیگر معززین نے اظہار خیال کیا ۔نظامت کے فرائض شارق عقیل نے انجام دیے ۔اس موقع پر تفسیر مجمع البیان کے ترجمے اور سیدالعلما کے اے ایم یو سے تعلق پر مبنی کتاب کا رسم اجرا بھی عمل میں آیا ۔

معروف عالم دین ڈاکٹر علی محمد نقوی اور شعبہ شیعہ دینیات کے پروفیسر مولانا طیب رضا نے تمام مہمانوں اور شرکاء کا خیر مقدم کیا ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .