۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
حافظ مولانا فرمان علی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | حافظ ومفسر قرآن علامہ سید فرمان علی سنہ 1270ہجری میں سرزمین چندن پٹی ضلع دربھنگہ صوبہ بہار پر پیدا ہوۓ۔ آپ کے والد سید لعل محمد نہایت دیندار انسان تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن میں حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ کا رخ کیا ، موصوف مدرسہ کے ابتدائی طلاب میں سےتھے۔

آپ نے سنہ 1313 ھ میں ممتاز الافاضل اور مختلف اسناد دریافت کیں آپ کے اساتذہ میں آیت اللہ نجم الحسن امروہوی کا نام سر فہرست ہے مولانا بہت ذہین تھے آپ کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مظفرپور میں "مدرسہ جامع العلوم چھنڈ واڑہ "کے مدرس اعلیٰ مولوی رحمۃ اللہ جو آپ کے پڑوسی تھے ، دونوں میں بے تکلفی تھی ایک بار مولانا رحمۃ اللہ نے مذاق میں کہا کہ شیعوں میں حافظ نہیں ہوتے آپ نے اسی دن سے قرآن مجیدحفظ کرنا شروع کیا اور پانچ مہینے کے مختصر عرصہ میں پورا قرآ ٰن حفظ کر لیا،اس کارنامے کو دیکھنے کے لئے دور دور سے قاری اور حافظ جمع ہوۓ اور سب نے آپ کی خداداد یاد داشت کا لوہا مان لیا ،آپ کے حفظ کی خاصیت یہ تھی کہ جسطرح آپ سورہ " الحمد سے" سورہ ناس تک " سنا سکتے تھے اسی طرح سورہ ناس سے سورہ الحمد تک پڑھتے تھے انکے حفظ کا معیار اتنا بلند تھا کہ تمام حفاظ اور علماء آپ کی قدر دانی کرتے تھے،قدردانی کی وجہ یہ تھی کہ آپ حفظ قرآن کے علاوہ قرات ،فہم معانی اور تفسیر پر مکمل دسترس رکھتے تھے ،آپ ایک عرصہ تک قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر میں مشغول رہے آپ کی سعی وکوشش کے نتیجے میں قرآن مجید کا ایک سلیس ترجمہ لوگوں تک پہنچا قرآن مجید کے حواشی میں آپ نے اہل بیتؑ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی تشریح شروع سے آخر تک اہلسنت کی معتبر کتابوں سے کی ہے آج بر صغیر کے مومنین کے گھر وں میں آپ کا ہی ترجمہ ملتا ہے۔

آپ نے نواب الطاف حسین کی گذارش پر مدرسہ سلیمانیہ پٹنہ کی مدیریت قبول کی، مدرسہ نے آپ کی سرپرستی میں ترقی کے منازل طے کئے ،جب مدرسہ کا چوتھا سالانہ جلسہ ہوا جسمیں کمشنر بھی مہمان خصوصی تھے، اس میں صاحب بہادر نے آپ کی بیحد تعریف کی اور کہا کہ میں نے ایسی عمدہ تعلیم گاہ پہلی دفعہ دیکھی ہے جو بغیر سرکاری امداد کے چل رہی ہے۔

آپ کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے جن میں: علامہ عدیل اختر زیدی ،مولانا پروفیسر اعجاز حسین رضوی اورمولانا غلام مصطفیٰ گوپالپوری کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں ۔

حافظ فرمان علی جہاں فقہ و اصول اور دیگر علوم میں مہارت رکھتے تھے وہیں علم طب میں بھی مہارت رکھتے تھے ، آپ وعظ ،مناظرہ وغیرہ میں بھی اپنی مثال آپ تھے ، آپ کا بیان استدلالی ہوتا تھا کہ مد مقابل کے پاس سکوت اختیار کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہتا۔

مولانا حافظ فرمان علی صاحب نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔غریب پروری۔انکساری اور اقرباء نوازی کے ساتھ ساتھ زحمت کش افراد کو بہت پسند فرماتے ، آپ اپنا کام خود ہی انجام دیتے ،غریب رشتہ داروں اور طالبعلموں کے ساتھ زمین پر بیٹھ جاتے اور انکے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگتے،جسوقت مظفر پور اور دربھنگہ کے درمیان ٹرین نہیں تھی مولانا ستر کیلو میٹر کا سفر سائیکل سے کرتے اور طبابت کے فرائض انجام دیتے ، اہل ثروت سے مومنین اور اہل بستی کی سفارش کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے تھےآپ نے لوگوں سے روابط ہونے کے باوجود خود داری اور عزت نفس کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا جسکا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار آپ کی اکلوتی بیٹی کی بیماری کی خبر آئی آپ نے دربھنگہ جانے کے لئے چھٹی کی درخواست دی جسے مدرسہ کے سکریٹری نے منظور نہیں کیا آپ نے درخواست کی پشت پر استعفیٰ لکھ کر بھیج دیا اور گھر چلے آئے یہ خبر مذہبی حلقوں میں پھیلی تو پورے عظیم آباد میں ہلچل مچ گئی لوگ ان کو راضی کرنے کےلئے چندن پٹی تک آۓ لیکن آپ نے جانے سے انکار کر دیا ۔

آپ نے طبابت اور تدریس کی مصروفیات کے با وجود بہت سے آثار چھوڑے ہیں جن میں درسی نصاب کے لئے احکام کی 4 جلدیں تحریر فرمائیں جو ابھی تک بار بار شائع ہو رہی ہیں ، اہل حدیث کی نامور شخصیت مولوی ثناء اللہ امرتسری( ایڈیٹر اہل حدیث "امرتسر") سے آیہ ولایت کی تفسیر پر آپ سے تحریری مناظرہ ہوتا رہا جو مجلہ اہل حدیث اور اصلاح میں چھپتا رہا ادارہ اصلاح نے ان مضامین کا مجموعہ "الولی " نام سے شایع کیا ،اسکے علاوہ کتاب النحو ، اور کتاب الصرف ، مطبوعہ کتابوں کے علاوہ "فدک " اور سوانح عمری جناب فاطمہ زہرا (س)وغیرہ جیسی بہت ساری تصانیف غیر مطبوعہ ہیں-

آخر کار یہ علم و ہدایت کا آفتاب4 رجب 1334 ھ میں غروب ہو گیا ،پورے ملک میں غم منایا گیا اور قبرستان کمپنی باغ کربلا "مظفرپور" میں سپرد خاک کر دیا گیامدرسہ ناظمیہ( لکھنؤ) کی جانب سے مجلس اور فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا گیا جسمیں مومنین کرام ، علماۓ اعلام اور طلاب ذوی الاحترام نے کثیر تعداد میں شرکت فرمائی ،مجلس کو آپ کے ہمدرس مولانا سید سبط حسن نقوی نے خطاب کیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج4، ص 133 دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2020ء

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .