۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
مولانا منظور علی نقوی آمروہوی

حوزہ/ صحیفہ سجادیہ کا ہر گھر میں ہونا ضروری ہے خصوصاً نوجوانوں کو اس کے ترجمہ کو ضرور پڑھنا چاہیے اس پیغام کو حاصل کریں جو امام سجاد علیہ السلام کی دعاؤں کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا منظور علی نقوی نے صحیفہ سجادیہ کی اہمیت اور اس کی افادیت کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا:صحیفہ سجادیہ کا ہر گھر میں ہونا ضروری ہے خصوصاً نوجوانوں کو اس کے ترجمہ کو ضرور پڑھنا چاہیے اس پیغام کو حاصل کریں جو امام سجاد علیہ السلام کی دعاؤں کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، کیونکہ اس کتاب (صحیفہ سجادیہ) میں اخلاقی درس بھی ہیں سیاسی درس بھی ہیں اور معارف الہی کو بیان کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا: شیعیان اہل بیت علیهم السلام پر فرض بنتا ہے کہ صحیفہ سجادیہ کا مطالعہ کریں تاکہ امام سجاد علیہ السلام کی زندگی سے زیادہ واقف ہو سکیں، کیونکہ افسوس ہوتا نہیں معلوم کتنے ایسے عاشقان اہل بیت علیهم السلام ہیں جنہوں نے صحیفہ سجادیہ کو دیکھا تک نہیں پڑھنا الگ بات ہے۔

انہوں نے مزید کہا: امام سجاد علیہ السلام اور جناب زینب سلام اللہ علیہا یہ دو شخصیات ایسی ہیں جن کا کردار بہت اہم رہا ہے کربلا کے بعد یعنی یہ کربلا جو ہم تک پہنچی ہے یہ فقط انہی دو شخصیات کے توسط سے ہم تک پہنچی. اگر ہم امام سجاد علیہ السلام کی زندگی کی طرف نگاہ دوڑائیں تو ہم دیکھیں گے کہ امام سجاد علیہ السلام کی زندگی جو کی 33 سے 34 سال کی زندگی اور اس میں 6 حکمرانوں کا آنا اور ان میں جو سب زیادہ خبیث تھا جس کا نام عبدالملک مروان اور اس سے زیادہ اس کا وزیر خبیث تھا جس کا نام حجاج تھا، یہ انتا خبیث تھا کہ جس کے لیے عمر بن عبدالعزیز کہتا ہے کہ یہ اتنا خبیث ہے کہ اگر دنیا کے تمام خبیثوں کو ترازو کے ایک حصے پر رکھا جائے اور حجاج کو دوسرے حصے پر رکھا جائے تو یہ خباثت میں ان سب پر غلبہ حاصل کر لے گا. اب سوچنے کا مقام کہ ان خبیثوں کا سامنا امام سجاد علیہ السلام کے ساتھ تھا یہ امام کے قول و فعل پر نگاہ رکھا کرتے تھے امام کیا کہہ رہے ہیں کیا کر رہے ہیں کہاں جا رہے ہیں ہیں اس سخت ترین دور سے امام وقت گزار رہے تھے، امام کا منبر پر جانا ممنوع تھا۔

مولانا نے کہا:حوزه علمیه قم کے استاد محمد رضا حسینی جلالی نے ایک کتاب لکھی جس کا نام رکھا جھاد امام سجاد علیہ السلام جب ان سے سوال ہوا کہ آپ نے کیوں اس کتاب کا نام جھاد امام سجاد رکھا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ جو منسوب ہے امام سے امام راکعین امام ساجدین یہ سب رسما ہے حقیقت میں امام سجاد کی زندگی جھاد پر تھی کوئی لمحہ امام سجاد علیہ السلام کا جھاد سے خالی نہیں تھا، بہت ہی سخت دور تھا کربلا کے بعد تاریخ میں موجود ہے امام علیہ السلام دعا کے ذریعے معارف الہی کو بیان کرتے تھے اسی کہ ذریعے اخلاقی درس دیا کرتے تھے اس کا اندازہ ہمیں صحیفہ سجادیہ کا مطالعہ کر کے ہوگا کہ امام‌ نے کیا کیا اس دعا کہ ذیل میں ہم تک پہنچایا روایت میں موجود ہے کہ امام کے چاہنے والے امام کے گرد بیٹھتے تھے اور امام دعا کے ذریعے معارف الہی کو بیان فرماتے تھے کیونکہ امام کے لیے خطاب کرنا ممنوع تھا۔

شیخ طوسی نقل کرتے ہیں کہ امام سجاد علیہ السلام کے 170 شاگرد تھے جو امام کے پیغامات کو قبیلوں قبیلوں تک پہنچایا، جس میں معروف نام ابوحمزه اور ابو خالد کا ہے.. خداوند متعال کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ خدا ہمیں صحیفہ سجادیہ کو پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .