۳۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۲ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 20, 2024
شہید مطہری(رہ)

حوزہ/ جب ہم بچے ہوتے تھے تو مجھے صحیح طرح سے یاد ہے کہ جب ہم سات یا آٹھ سال کے تھے تو ماہ رجب کی آمد کا مکمل انتظار کیا کرتے تھے۔ کہتے تھے: ماہ رجب میں ایک ہفتہ رہ گیا، اب 3 دن رہ گئے، آج کی رات احتمالا شب ِ اول ماہ رجب ہو گی وغیرہ ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ان مبارک مہینوں میں سے ایک کہ جس کے متعلق بہت زیادہ تأکید کی گئی ہے، ماہ رجب المرجب ہے۔  

رجب کے مہینے کے بارے میں شہید مطہری سے دو یادگار واقعات:

’’ جب ہم بچے ہوتے تھے تو مجھے صحیح طرح سے یاد ہے کہ جب ہم سات یا آٹھ سال کے تھے تو ماہ رجب کی آمد کا مکمل انتظار کیا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ مثلا اب ماہ رجب کی آمد میں ایک ہفتہ رہ گیا، اب ۳ دن رہ گئے، آج کی رات احتمالا شب ِ اول ماہ رجب ہو گی وغیرہ‘‘۔

ہمارے والد گرامی مرحوم  اور والدہ مرحومہ ماہ رجب کے اول اور آخری دن اور ایام بیض کے علاوہ بھی ہر جمعرات اور جمعہ کو روزہ سے ہوتے تھے بلکہ ہمارے والد گرامی تو بعض سالوں میں رجب اور شعبان دونوں مہینوں میں مسلسل روزے سے ہوا کرتے تھے اور اپنے روزوں کو ماہ مبارک رمضان کے ساتھ متصل کیا کرتے تھے چونکہ یہ مہینہ بخشش اور توبہ کا مہینہ ہے۔

شہید مطہری ؒ ایک دوسری جگہ پر فرماتے ہیں:

سال ۱۳۲۱ شمسی (1943 عیسوی) میں ہم لوگ اصفہان گئے ہوئے تھے، اصفہان میں ایک مدرسہ بنام ’’تیماورد‘‘ میں تھے کہ اچانک مرحوم حاج مرزا آقای علی شیرازی کی آواز سنی جو اپنی روحانی حالت میں اس جملہ کو بار بار دہرا  رہے تھے:’’جب کہا جائے گا ’’این الرجبیون‘‘ (یعنی رجب میں اعمال نیکو بجا لانے والے کہاں ہیں؟) اور ہم پروردگار کی خدمت میں شرمسار ہوں گے، ماہ رجب میں کچھ بھی ہمارے پاس نہ ہو گا اور رجبیون میں سے بھی ہمارا شمار نہ ہو گا تو اس وقت کیا کریں گے؟‘‘۔

غرض  یہ کہ یہ مہینہ بخشش، عبادت اور روزوں کا مہینہ ہے اور افسوس کی بات ہے کہ ہم اس بہترین سنت کو مکمل طور پر بھولتے جا رہے ہیں۔ رجب کا مہینہ آتا ہے تو ہمارے بڑے بزرگ بھی متوجہ نہیں ہوتے تو کہاں یہ کہ بچوں کو اس مہینے کی برکت کی طرف توجہ ہو۔

اب تو اگر ہم اپنے بچوں کو کہیں کہ وہ قمری مہینوں کے ناموں کو محرم سے لے کر ذی الحجہ تک سنائیں تو وہ ان مہینوں کے ناموں تک کو بھی شمار نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا ہی رہا تو کچھ عرصہ میں تو یہ بالکل ہی بھول جائے گا کہ ایسے مہینے بھی وجود رکھتے تھے لیکن پھر بھی یاد رہے کہ ہماری شرعی تکلیف پھر بھی ہماری گردن پر باقی ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .