۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
News ID: 389503
25 مارچ 2024 - 02:48
تصاویر/ حال و هوای حرم مطهر رضوی در شب میلاد امام حسن مجتبی(ع)

حوزہ/ رحمۃ للعالیمین ؐ کے نواسے امام حسن علیہ السلام کی ہر جنگ میں یہی کوشش رہتی کی مرکز فساد کو نشانہ بنا کر ختم کیا جائے تا کہ مسلمانوں کے خون کو بچایا جا سکے ، جہاں ممکن ہوا ایسا کر کے جنگ کا خاتمہ بھی کیا اور مسلمانوں کے مزید خون کو بہنے سے بچا لیا ۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | حسن علیہ السلام ہمارے دوسرے امام ہیں ۔ آپؑ رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بڑے نواسے ، امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بڑے فرزند تھے۔ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور جناب محسن علیہ السلام کہ جنکو دشمنوں نے شکم مادر میں ہی شہید کر دیا تھا آپؑ کے چھوٹے بھائی تھے اور حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا اور حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا آپ کی بہنیں تھیں ۔

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام 15؍ رمضان المبارک سن 3 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم خدا سے آپؑ کا نام ‘‘حسن ’’ رکھا ۔ ایک گوسفند قربانی کی اور سر کے بال کٹوا کر اس کے ہم وزن چاندی صدقہ دی۔ آپؑ کی کنیت ‘‘ابومحمد’’ اور مشہور القاب ‘‘مجتبیٰ’’، ‘‘سید’’ ، ‘‘زکی’’ ، ‘‘ولی’’ ، ‘‘تقی’’ اور ‘‘سبط’’ ہیں۔

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا رخ انور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بہت مشابہ تھا ، نہ صرف صورت بلکہ سیرت میں بھی آپؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ تھے۔ آپؑ نے اپنی پاکیزہ زندگی کے سات برس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زیر سایہ بسر کئے۔ حضور ؐ آپؑ کو اور آپؑ کے بھائی امام حسین علیہ السلام کو بہت چاہتے تھے۔ لہذا متعدد مقامات پر اپنی محبت کا اظہار بھی کیا، کبھی آغوش میں لے کر پیار کیا تو کبھی عید کے دن ناقہ بنے۔ حضورؐ کی بہت سی حدیثیں آپؑ سے محبت کی غمازی اور عظمت کو واضح کرتی ہیں۔ ظاہر ہے ۔ قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری ۔

ذیل میں حضورؑ کی چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ ‘‘لو كان العقل رجلا لكان الحسن’’ اگر عقل آدمی ہوتی تو وہ حسن ؑ ہوتے۔ (فرائد السمطین، جلد 2، صفحہ 68)

2۔ ‘‘الحسن و الحسين امامان قاما او قعدا’’ حسنؑ و حسینؑ امام ہیں چاہے جنگ کریں یا صلح کریں۔ (بحارالانوار، جلد 43، صفحہ 291)

3۔ ‘‘ان الحسن و الحسين هما ريحانتاى من الدنيا من احبنى فليحبهما’’ حسنؑ و حسینؑ دنیا میں میرے دو خوشبودار پھول ہیں ، جو مجھ سے محبت کرے وہ ان سے بھی محبت کرے۔ (الفصول المہمہ، صفحہ 171)

4۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جب میرا بیٹا حسن زہر دغا سے شہید ہوگا تو اس پر ساتوں آسمانوں کے فرشتے گریہ کریں گے اور ہر شئے اس پر گریہ کرے گی حتیٰ فضا میں پرندے اور سمندر میں مچھلیاں بھی گریہ کریں گی۔ جو بھی اس پر گریہ کرے گا اس کی آنکھیں اس دن اندھی نہ ہوں جس دن ساری آنکھیں اندھی ہو جائیں گی اور جو بھی اس کی مصیبت میں غمگین ہوگا اس کا دل اس دن غمگین نہ ہو گا جس دن سارے دل غمگین ہوں گے اور جو بھی جنت البقیع میں ان کی زیارت کرے گا تو پل صراط پر اس کے قدم ثابت ہوں گے جس دن سب کے قدم متزلزل ہوں گے۔ (منتھی الآمال، جلد 1، صفحہ 322)

5۔ ‘‘إبْنِی وَ ثَمَرهُ فُؤادِی مَنْ آذی هذا فَقَدْ آذانیِ وَ مَن آذانیِ ف‍َقَدْ آذَی اللهُ’’ (امام حسنؑ) میرا بیٹا ، میرا میوہ دل ہے ، جس نے اسے اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے اللہ کو اذیت پہچاہئی ۔ (احقاق الحق، جلد 11، صفحہ 63)

6۔ ‘‘اَللّهُمَّ إنّیِ اُحِبُّ حَسَناً فَاَحِبَّهُ وَ اَحَبَّ اللهُ مَنْ یُحِبهُ’’ خدایا! میں حسنؑ سے محبت کرتا ہوں ۔ پس تو بھی اس سے محبت کر ، اور خدا اس سے محبت کرتا ہے جو اس (امام حسنؑ) سے محبت کرے۔ (کنز العمال، جلد 16، صفحہ 262)

28 ؍ صفر المظفر سن 11 ہجری کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت فرمائی تو آپؑ شدید صدمہ سے دوچار ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کا غم کیا کم تھا کہ دنیا طلب افراد آپ اہل بیت طیبین و طاہرین کی خدمت میں تعزیت پیش کرنے کے بجائے دشمنی پر آمادہ ہو گئے ، امام حسن علیہ السلام نے اپنے والدہ ماجدہ پر ڈھائے جانے والے تمام مظالم کا مشاہدہ کیا بلکہ آپؑ نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر پڑنے والے ان مصائب کو بھی دیکھا جو امام حسین علیہ السلام نے نہیں دیکھا تھا، یہی وجہ تھی کہ جب رحلت رسولؐ کے 75 یا 95 دن بعد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت ہوئی تو آپؑ سب سے زیادہ گریہ فرما رہے تھے ، کسی نے عرض کیا کہ والدہ تو امام حسین علیہ السلام کی بھی تھیں آخر آپؑ کیوں اس قدر بے قرار ہیں تو مولا ؑ نے فرمایا : اپنی والدہ کی جو مظلومیت میں نے دیکھی ہے وہ حسین ؑ نے نہیں دیکھی ہے، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ظالم و جابر نے کس طرح میری والدہ کے ہاتھوں سے کاغذ لیا اور رخسار عصمت کبریٰ پر اپنے نجس ہاتھ سے گستاخی کی۔ امام حسن علیہ السلام نے کوفہ میں تقریباً پانچ برس کے علاوہ پوری زندگی مدینہ منورہ میں بسرکی لیکن روایت کے مطابق اس راستے پر کبھی نہیں گئے جس راستے پر آپؑ کی والدہ مظلومہ و شہیدہ پر ظلم ہوا تھا۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مظلومانہ شہادت کے بعد آپؑ نے اپنے والد ماجد امیرالمومنین علیہ السلام کے زیر سایہ زندگی بسر کی۔ اگرچہ آپ امیرالمومنین علیہ السلام کے فرزند اکبر تھے لیکن آپؑ نے امیرالمومنین کی اطاعت نہ صرف ایک فرمانبردار بیٹے کی حیثیت سے کی بلکہ ایک مطیع محض کی حیثیت سے بھی کی جیسے ایک اطاعت گذار اپنے امام کی اطاعت کو اپنا نصب العین سمجھتا ہے، سایہ کی طرح ہر موقع پر امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ رہے چاہے 25 سالہ خاموشی کی زندگی ہو یا تقریباً 5 سالہ خلافت و حکومت کا زمانہ ہو۔ جناب ابوذرؒ کو جب حاکم نے ربذہ کی جانب جلا وطن کیا اور اعلان کیا کہ کوئی ان سے نہ ملے لیکن آپ ؑ اپنے والد ماجد امیرالمومنین علیہ السلام کے زیر قیادت اپنے بھائی اور چند مخلص چاہنے والوں کے ہمراہ جناب ابوذر کو بیرون مدینہ رخصت کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔

سن 35 ہجری کو جب حکومت کے ظلم و ستم سے عاجز عوام نے علم بغاوت بلند کیا تو امیرالمومنین علیہ السلام کے حکم پر آپؑ نے اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ حاکم کو کھانا پانی پہنچایا اور حاکم کی حفاظت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آخر حاکم کا قتل ہوا اور لوگ حکومت و خلافت کے لئے امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پہلے امیرالمومنین علیہ السلام نے حکومت قبول کرنے سے انکار کیا لیکن جب لوگوں کا اصرار بڑھا تو آپ نے قرآن و سنت رسولؐ پر عمل کی شرط کے ساتھ حکومت کو قبول کیا ۔ جب لوگوں نے مولا علی علیہ السلام کی بیعت کر لی تو آپؑ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عبا ، قبا اور عمامہ زیب تن کیا اور شمشیر رسولؐ لے کر مسجد میں آئے اور منبر پر تشریف لے گئے۔ امام حسن ؑ اور امام حسین علیہما السلام کو حکم دیا کہ خطبہ پڑھیں ، دونوں حضرات نے خطبہ پڑھا جس میں امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل اور انکے برحق جانشین رسولؐ ہونے کو بیان کیا۔ جسےسن کر لوگ وجد میں آگئے ۔امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے دونوں بیٹوں کو خوش ہو کر سینے سے لگا لیا۔

جنگ جمل ہویا جنگ صفین ، یا جنگ نہروان ، ہر معرکہ میں امام حسن علیہ السلام امیرالمومنین علیہ السلام کے حامی و مطیع رہے۔ اگرچہ امیرالمومنین علیہ السلام سبطین رسول الثقلین امامین حسنین علیہماالسلام کی حفاظت کی خاطر انہیں بہت زیادہ جنگ کی اجازت نہیں دیتے تھے لیکن جب بھی اذن امامؑ حاصل ہوتا تو تاریخ گواہ ہے کہ جانشین فاتح خیبر نے تیروں کے میہ میں بھی سفر جہاد کو جاری رکھا ۔

رحمۃ للعالیمین ؐ کے نواسے امام حسن علیہ السلام کی ہر جنگ میں یہی کوشش رہتی کی مرکز فساد کو نشانہ بنا کر ختم کیا جائے تا کہ مسلمانوں کے خون کو بچایا جا سکے ، جہاں ممکن ہوا ایسا کر کے جنگ کا خاتمہ بھی کیا اور مسلمانوں کے مزید خون کو بہنے سے بچا لیا ۔

آخر 19؍ رمضان سن 40 ہجری کو نماز صبح میں اشقیٰ الاولین و الآخرین عبدالرحمٰن بن ملجم مرادی نے امیرالمومنین علیہ السلام کے سر پر ضربت لگائی اور آپؑ شب 21؍ رمضان کو اس دنیا سے کوچ کر گئے۔

شہادت امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد نص نبوی کے مطابق امام حسن علیہ السلام امام ہوئے اور امیرالمومنین علیہ السلام کی وصیت کے مطابق حاکم و خلیفہ ہوئے۔ لوگوں نے آپؑ کی بیعت کی ، آپؑ نے حسب وصیت عبدالرحمٰن بن ملجم مرادی کو واصل جہنم کیا۔ اور اس کے بعد مسجد تشریف لے گئے اور منبر پر جا کر خطبہ دیا۔ آپؑ نے حمد و درود کے بعد فرمایا: ائے لوگو! اس شب میں قرآن نازل ہوا ، حضرت عیسیٰ آسمان پر گئے، حضرت یوشع کو قتل کیا گیا، اسی شب میں میرے والد امیرالمومنین علیہ السلام نے رحلت فرمائی، خدا کی قسم ! اوصیاء میں سے کوئی بھی وصی میرے والد پر جنت جانے میں سبقت نہیں لے سکتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب بھی آپؑ کو کسی جنگ میں بھیجتے تو جبرئیل آپ ؑ کے داہنی جانب سے اور میکائیل بائیں جانب سے جنگ کرتے، میرے والد نے اپنے بعد کے لئے درہم و دینار نہیں چھوڑا ہے، صرف سات سو درہم ہیں جو بیت المال میں آپؑ کے حق میں سے بچ گیا تھا وہی چھوڑا ہے، آپؑ کا ارادہ تھا کہ اس سے اپنے اہل و عیال کے لئے ایک خادم خریدیں۔ (امالی ، شیخ صدوقؒ، صفحہ 192)

دوسری روایت میں ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اس شب میں اس شخص نے اس دنیا سے کوچ کیا ہے کہ نہ پہلے والے عمل میں اس پر سبقت حاصل کر سکتے ہیں اور نہ بعد والے۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رکاب میں جہاد کیا اور اپنی جان جوکھم میں ڈال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کی حفاظت کی۔ حضورؐ جہاد پر جانے سے قبل علم ان کے ہاتھ میں دیتے جبرئیل داہنی جانب سے اور میکائیل بائیں جانب سے ان کے ساتھ ہوتے ، وہ راہ خدا میں جہاد کرتے یہاں تک خدا وند عالم انکو فتح و کامیابی عطا کرتا۔ ۔۔۔ (ارشاد مفیدؒ، جلد 2، صفحہ 4)

امام حسن علیہ السلام نے تقریباً چھ ماہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیرالمومنین علیہ السلام کی روش پر حکومت کی ، آخر دشمنوں کی دشمنی اور منافقوں کی خیانت کے نتیجے میں آپؑ نے حاکم شام سے اپنے شرائط پر صلح کی ، حکومت حاکم شام کے حوالے کر کے آپؑ اپنے اہل بیت کے ہمراہ مدینہ واپس آگئے۔ مدینہ میں لوگوں کو قرآن سنت کی ہدایت فرماتے، صلح نامہ کے مطابق حکومتی اور سیاسی مسائل میں دخالت سے پرہیز کرتےتھے۔

صلح کے ذریعہ امام حسن علیہ السلام سے حکومت تو لے لی گئی لیکن پھر بھی حکومت نے آپؑ کو ہمیشہ اپنے لئے خطرہ سمجھا لہذا آپؑ کی شہادت کی سازشیں ہوتی رہیں ۔ آخر لالچ دے کر آپؑ کی زوجہ جعدہ کے ذریعہ آپؑ کو زہر دغا سے 28؍ صفر سن 50 ہجری کو شہید کرا دیا گیا۔ شہادت کے بعد آپؑ کے جنازے پر تیر برسائے گئے ، امام حسین علیہ السلام نے حسب وصیت جنت البقیع میں آپؑ کو دفن کیا۔ جہاں بعد میں روضہ و بارگاہ بنا لیکن افسوس صد افسوس سو سال سے آپؑ کا روضہ منہدم اور مزار ویران ہے جو عالم اسلام کی غیرت پر سوالیہ نشان ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .