۲۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۰ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 18, 2024
امام جعفر صادق علیہ السلام

حوزہ/ اس لئے اس مذہب کو امام جعفر صادق علیہ السلام سے منسوب کیا گیا اور اس کے عقیدوں کو مضبوط کرنے کے علاوہ اس مذہب کی احادیث کو دیگر ائمہ علیہم السلام سے نقل کرنے کی نسبت بھی امام صادق کی طرف دی جاتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | شیعوں کے تمام آئمہ علیہم السلام نے اسلام و خلق خدا کی خدمتیں کی ہیں اور اس راہ میں بڑی زحمات برداشت کی ہیں، وہ زحمتیں الگ الگ انداز میں تھیں، جیسے قیام، صلح، سکوت سیاسی اور ثقافتی فعالیتیں۔

کیوں ہمارے مذہب کو "مذہب جعفری " کہا جاتا ہے، کیا ہمارے دوسرے آئمہ علیہم السلام نے اسلام کی خدمتیں نہیں کیں! ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ مذہب جعفری کہے جانے کا مطلب یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام کا دور بنی امیہ کی حکومت کا آخری اور بنی عباس کی حکومت کا ابتدائی دور تھا، ان دونوں حکومتوں کے آپسی اختلافات کےسبب اپ کو دینی سیاسی اور فرہنگی فعالیت کا بہترین موقع فراہم ہوا جس کو آپ نے غنیمت سمجھ کر مذہب شیعہ کو مزید وسعت دی۔

امام درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر کے تشيع کے معارف و عقائد اور اسلام کی نشر و اشاعت میں لگ گئے۔

بہت زیادہ روایات کو بیان کیا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ شیعیت کو نئی زندگی دے دی اور اس میں نئی جان ڈال دی، اور شیعوں کے معارف اور احکام کو ہر زمانے سے زیادہ عام کیا، اور شیعت کو خاص نظم و ترتیب دی۔

اس لئے اس مذہب کو امام جعفر صادق علیہ السلام سے منسوب کیا گیا اور اس کے عقیدوں کو مضبوط کرنے کے علاوہ اس مذہب کی احادیث کو دیگر ائمہ علیہم السلام سے نقل کرنے کی نسبت بھی امام صادق کی طرف دی جاتی ہے۔

اپ کے جلسہ درس میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے تھے ان میں سے بعض جیسے: ابوحنفيه، مالك بن انس، جابر بن حيان اور زرارة بن اعين، جن کا شمار بزرگان اهل سنت و شيعه میں ہوتا ہے.(۱)

مرحوم جعفرشهیدی لکھتے ہیں:

" جو بھی احادیث فقہ میں تلاش اور کوشش کرے گا اس کو یہی ملے گا کہ فقہی اور کلامی مختلف مسائل میں تمام روایات اور احادیث امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مذهب شيعه را مذهب جعفرى کہا جاتا ہے۔

دوسرے قرن کے آخری دو دہائی میں لوگ آزادانہ طور پر امام صادق علیہ السلام سے ملحق ہوئے، اور اپنے فقهى و غير فقهى مشكلات کا حل اپ سے دریافت کیا، یعنی جتنی روایات و احادیث امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی کسی اور سے نہیں۔

ان میں سے کسی اور کے اتنے شاگرد نہیں ہوئے جتنے امام صادق علیہ السلام کے شاگرد ہوئے، اسی طرح اتنی روایات کسی اور سے نقل نہیں ہوئی جتنی امام صادق سے۔

احادیث کی کتابوں میں آپ کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار سے زائد بتائی گئی ہیں۔

آپ کی امامت کی نشانیاں نادانوں کو حیران و پریشان اور مخالفین کو گونگا بنا دیتی ہیں۔" (۲).

حوالہ جات:

۱.محمدجواد مشكور ، تاريخ شيعه و فرقه‏هاي اسلام تا قرن چهارم، بی نام، ص ۱۰۶ - ۱۰۵؛مهدی پیشوایی، سیره پیشوایان، قم، موسسه امام صادق (ع)،۱۳۷۹ش ،چاب یازدهم، ص۳۵۹

۲. جعفر شهيدى، زندگانى امام صادق، ص۶۱؛

رسول جعفریان، حیات فکری وسیاسی امامان شیعه، قم ، انتشارات انصاریان، ۱۳۸۴ش ، چاپ هشتم، ص ۳۴۵.

تبصرہ ارسال

You are replying to: .