۳۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۲ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 20, 2024
غزہ

حوزہ/ شاید ادب کا تقاضہ یہ ہے کہ پہلے تمہیں مبارکباد دوں، کہ تم نے بستر کی موت پہ میدان کی موت کو ترجیح دی، خدا نے تمہیں قبول کیا، نہ صرف یہ کہ تم اس دنیا میں زندگی گزارنے کے عذاب سے نجات پا گئے ہو بلکہ ان غموں کی شیریں حقیقت کو بھی محسوس کرنے لگے ہو جو اس دنیا میں قابلِ برداشت نہیں ہیں۔

تحریر: حر غفاری

حوزہ نیوز ایجنسی|

عزیز دوست! میں ایک طویل عرصے سے تمہیں خط لکھنا چاہ رہا تھا، لیکن کیا کروں، نہ میرے تخیل کی پرواز ایسی بلند تھی کہ تم تک آواز پہنچا سکتا نہ کوئی اور وسیلہ تھا کہ جس کے ذریعے کاغذ پہ لگی یہ سیاہی تمہارا روشن چہرہ دیکھ سکے۔ آج جب اچانک تمہاری شہادت کی خبر ملی تو گویا تمام رکاوٹیں برطرف ہو گئی ہیں اور اب تو یوں لگ رہا ہے کہ میں لکھ رہا ہوں اور تم اپنے زخمی چہرے اور ادھڑے بدن کے ساتھ میرے ساتھ والے صوفے پہ بیٹھے سن رہے ہو اور مجھے لکھتا دیکھ رہے ہو۔ تم بھی ہنستے ہوں گے کہ زندگی میں تمہاری خبر گیری کو کچھ نہیں کر سکا اور اب تمہارے لیے آنسو بہانے بیٹھ گیا ہوں۔ ہنسنا بھی چاہیے، کہ ہم سب ایک مضحکہ خیزاور بھیانک چیخ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ کبھی کبھار تو ان بچوں کی میتیں اور گوشت کے ٹکڑے دیکھ کر روتے روتےمجھے خود ہنسی آجاتی ہے۔ گویا ہم سب صرف ایک بین کی دردناک آواز بن کر رہ گئے ہیں۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے تمہارے بھیجے ہوئے ایک ایک خط کو بہت حوصلے سے پڑھا، تخیل کی آنکھ سے ہر منظر کو دیکھنے کی کوشش کی ہے اور روح کے سہارے ہر منظر کا حصہ بننے کی کوشش کی ہے لیکن آج تم سے معافی چاہوں گا، میں نے اب تک آنسو نہیں بہائے، ضبط کا دامن نہیں چھوڑا، بے صبری نہیں دکھائی لیکن آج مجھے اجازت دو کہ میں کھل کے رو سکوں، چلا سکوں، آج اس منظر کا حصہ نہیں بننا چاہتا، میرے بس میں نہیں ہے کہ خاموش رہوں، کیسے ممکن ہے یہ سب مناظر دیکھ کر خاموش رہوں؟

شاید ادب کا تقاضہ یہ ہے کہ پہلے تمہیں مبارکباد دوں، کہ تم نے بستر کی موت پہ میدان کی موت کو ترجیح دی، خدا نے تمہیں قبول کیا، نہ صرف یہ کہ تم اس دنیا میں زندگی گزارنے کے عذاب سے نجات پا گئے ہو بلکہ ان غموں کی شیریں حقیقت کو بھی محسوس کرنے لگے ہو جو اس دنیا میں قابلِ برداشت نہیں ہیں۔ جانتے ہو، پہلا خیال جو مجھے آیا وہ یہ تھا کہ کاش تم جلدی چلے جاتے، کاش تم جانے سے پہلے یہ زخم نہ جھیلتے، کاش تم اپنے نومولود کا خون اپنے کپڑوں پہ نہ سہتے، کاش تمہیں اپنی محبوب بیوی کی لاش سے اپنی ساس کو جھنجوڑ کے نہ اٹھانا پڑتا، کاش تمہیں اپنے باپ کی لاش کے ٹکڑے جمع کر کے نہ دفنانا پڑتے۔ لیکن میں خوش ہوں کہ تم ان سب مراحل سے گزر جانے کے بعد آخری بار جب اپنے مقتل کی طرف بڑھ رہے تھے تو تمہارے پیچھے رونے والا کوئی نہیں تھا، تمہارے نقش پا کو آنسوؤں سے دھونے والا کوئی نہیں تھا، تمہارا گھر جو گھر والوں کے دفنائے جانے کے بعد مکان ہی رہ گیا تھا، وہ بھی ڈھے گیا۔ پس تم اپنا سب کچھ خدا کے نام پہ قربان کر چکے تھے۔

میں چاہتا ہوں کہ آج کچھ درد دل کہوں، وہ سب باتیں جو میں زندگی میں کہتے شرماتا رہا۔ آج تمہاری تصویریں میری نظر میں گھوم رہی ہیں، تمہاری شادی کی تصویر، بلکہ اس سے بھی پہلے،جب تم اپنی منگیتر سے پہلی بار ملے تھے، غزہ کے محصور سمندر کےکنارے، جہاں سانس بھی گھٹ گھٹ کے آتا ہے وہاں تم دونوں نے لامتناہی خواب بن دیے،ایک گھرانا تشکیل دینے کا خواب، گھر بنانے کا خواب، شاید تم بھول رہے تھے کہ اس دنیامیں فلسطینیوں کے لیے ایسا سوچنا ناقابل معافی جرم ہے۔ اور یہی ہوا کہ اس رتیلے ساحل پہ بنے خواب سمندر کی تیز لہریں بہا لے گئیں۔ یہ سمندر بھی عجیب ہے، غم کا سمندر ہے، جس پہ ویران کرنے والی ہوائیں چلتی ہیں، تنہائی کے آسمان تلے یہ واحد کھلی جگہ ہے جہاں تمہارے اس مظلوم قبیلے کے زندہ رہنے والے سانس لے سکتے ہیں۔ یہ سمندر اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تم سب پہ تنگ ہے، اس کا پانی بارود کی بو لیے ہوئے اور اس کی لہریں جہازوں کی گھن گرج لیے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے آج سے چند سال پہلے جب اسی ساحل پہ کھیلتے چند بچوں پہ بم گرایا گیا تھا تو تم نے مجھے کتنی عجیب رقت سے خط لکھا تھا شاید تم سوچ رہے تھے کہ یہ سمندر قاتل ہے ، لیکن تمہیں نے مجھے بتایا تھا کہ سمندر ہی سے بہت سے راستے کھلتے ہیں، یہاں تک کہ دشمن پہ حملہ کرنے کے راستے بھی اسی سمندر سے نکلے ہیں۔ یقین جانو میں جب تمہاری کٹی پھٹی لاش کو ذہن میں تصور کرتا ہوں تو زمین وآسمان سب قاتل نظر آتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم تمہارے گھر میں اب یہ دیکھنے کو کوئی زندہ بھی ہے یا سب پرواز کر گئے۔ یہ آسمان شاید بم برسنے اور جہازوں کے اڑنے کے لائق رہ گیا ہے، یہ سمندر ماہی گیروں کا مقتل اور یہ زمین ایک بہت بڑے قبرستان کے سوا کچھ نہیں رہی۔ میں جب سوچتا ہوں کہ تم نے کتنے دن بے گھری اور مسلسل جنگ کے عالم میں گزارے ہیں تو سکون محسوس کرتا ہوں کہ تم آرام کر رہے ہو، شاید دس دن پہلے تم آخری مرتب دشمن کے نجس قدموں کو اس پاکیزہ زمین سے دور رکھنے کے لیے سرحد کی طرف بڑھے تھے، اس وقت سے اب تک شاید تم بیٹھ نہ سکے ہو، شاید تمہیں کھانے کو کچھ نہ ملا ہو، شاید تم اپنے بیوی بچوں کو یاد کر کے آنسو بھی نہ بہا سکے ہو۔ لہٰذا میں خوش ہو ں کہ اب تم آرام کر سکو گے۔

اس قصے کی سب سے عجیب بات یہ ہے کہ ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں میں جذبات کی کئی کہکشاؤں سے گزر جاتا ہوں۔ ایک طرف تمہاری طرف سے لیا جانے والا عدیم النظیر انتقام حوصلہ بڑھاتا ہے، دوسری طرف دشمن کی بربریت پہ تاسف کی پست ترین کھائی میں جا گرتا ہوں۔ ایک طرف آزادی کی امید ملتی ہے اور دوسری طرف دنیا والوں کی بے حسی پہ دانت کچکچانے کو جی چاہتا ہے۔ ایک طرف درد سے بلکتے بچے، خون آلود کھلونے، کراہتے زخمی اور ہزاروں ٹوٹے مکانات اور دوسری طرف دشمن کی شکست کا غیر متزلزل یقین جس کے لیے کوئی مادی تعبیر موجود نہیں ہے۔ بالآخر میں کیا کروں۔ میرے لیے اس جنگ میں اتنا کچھ ہے کہ میں چاہنے کے باوجود بیان کرنے سے قاصر ہوں۔

میں چاہتا ہوں چیخ چیخ کر فریاد کروں، میری آواز میرے اطراف اور تمہارے اطراف بسنے والے مردہ متحرک جسموں کو جھنجوڑ کے رکھ دے، میں وقت کے پہیے کو واپس گھمانا چاہتا ہوں۔ ابھی چند روز پہلے جب تم اپنی محبوب بیوی کے ساتھ اسی سمندر کے کنارے ریت پہ بیٹھے ننھے بچوں کی طرح اٹھکیلیا ں کر رہے تھے، کسے معلوم تھا کہ تم دونوں جلد اسی زمین کے الگ الگ حصوں میں پیوست ہو جاؤ گے۔ کسے معلوم تھا کہ تمہارا نومولود بچہ ہسپتال کے اس وارڈ کے ملبے میں دب جائے گا جہاں اس کے ہم سن کھلکھلا رہے ہیں، کوئی دو سال کا، کوئی ایک سال، کوئی چند ماہ کا نومولود اور کوئی نامولود ، جوابھی اس دنیا میں آ کے رو بھی نہیں سکا۔ میں زمانے کو محض اتنا پیچھے لے جانا چاہتا ہوں، جہاں ان معصوموں کا خون نہ دیکھنا پڑے، ان بچوں کے قتل پہ اپنے اطراف موجود لوگوں کی بےحسی نہ دیکھنی پڑے۔ میں رونا چاہتا ہوں، اتنی شدت سے کہ میرے آنسو ایک طوفان برپا کر سکیں، میں فریاد کرنا چاہتا ہوں۔

میں جان گیا ہوں، تم میرے پاس بیٹھے میری نادانی اور جذباتیت پہ مسکرا رہے ہو، تم جانتے ہو کہ یہ سب واپس پلٹنے کے لیے نہیں ہوا، نہ تم واپس پلٹنا چاہتے ہو نہ یہ چاہو گے کہ کوئی وقت کے پہیے کو پیچھے کی طر ف پلٹا دے، تم جس نے اس قدر قربانی دے کر وقت کو آگے کی طرف گھما دیا ہے، تم اس انتظار میں ہو کہ کسی طور وقت کا یہ پہیہ تیزی سے آگے گھوم سکے، جہاں ظالم کی نابودی اور آزادی کا سورج طلوع ہو سکے۔

میں جانتا ہوں وقت کو پیچھے کی طرف پلٹانا میرے بس میں نہیں، میرے ہی کیا، کسی کے بھی بس میں نہیں لیکن آگے کی طرف بڑھتے ہوئے وقت میں اپنا حصہ ڈالنا، ہر ایک پہ واجب ہو گیا ہے شاید ، میں جانتا ہوں کہ میرا آنسو بہانا کافی نہیں ہو گا جب تک میں اس عالمی آزادی کے لیے اپنا حصہ نہ ڈال لوں۔

تم سے شرمسار حر غفاری

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .