۲۰ آبان ۱۴۰۳ |۸ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 10, 2024
آیت اللہ حافظ ریاض حسین نجفی

حوزہ/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر نے خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ مجید نے بارہا تدبر و تفکر کی دعوت دی ہے۔ اللہ نے اپنے منوانے کے لئے بھی جبر کی بجائے غور و فکر کی دعوت دی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ قرآن مجید نے بارہا تدبر و تفکر کی دعوت دی ہے۔ اللہ نے اپنے منوانے کے لئے بھی جبر کی بجائے غور و فکر کی دعوت دی ہے۔اہلِ ایمان میں تین صفات ضرور ہونی چاہیئں۔ مانگنے کی بجائے دینے والا ہو، متقی و پرہیزگا ر ہو،کسی کی اچھائی کا اعتراف کرے۔کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے۔ کوشش کرے اللہ کے دیے مال میں سے اُس کی راہ میں خرچ کرے۔کنجوسی نہایت مذموم صفت ہے کہ کسی کو کچھ نہ دے حتیٰ کہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے میں بھی کنجوسی سے کام لے۔ایسے لوگوں کا مال مرنے کے بعد یا تو ان کے لئے بے فائدہ ہو گا یا اگر اولاد نے غلط استعمال کیا تو ان کی بھی گرفت ہو گی۔دوسری صفت میں تقویٰ ہر مصیبت سے بچاﺅ کا موجب ہے۔انسان جب مصیبتوں میں گھر جاتا ہے تو سوائے اللہ کے اسے کوئی بچانے والا نہیں ہوتا۔مرض سے شفا بیرون ملک علاج سے نہیں بلکہ اللہ کو یاد کرنے سے ملتی ہے۔

جامع علی مسجد جامعہ المنتظر ماڈل ٹاﺅن میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قرآن مجید کہتا ہے کہ اللہ مشکلات سے نکالنے کے ایسے راستے پیدا کرتا ہے جو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔تیسری صفت پر عمل مشکل ہوتا ہے کی آدمی اپنے مخالف کی اچھائی کا بھی اعتراف کرے،یہ زرا مشکل کام ہے۔بعض اوقات تو معاملہ اس سے بھی آگے چلا جاتا ہے جیسے گذشتہ دنوں ہماری اسمبلی میں ہوا۔ حزب اقتدار و اختلاف ایک دوسرے کی اچھائیوں کا اعتراف تو درکنار،الزام تراشی اور اخلاقیات کے منافی وہ رویّے اپنائے گئے جس سے قومی وقار مجروح ہوا۔مخالفت برائے مخالفت اچھی روش نہیں۔اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ اربابِ حکومت، حزبِ اختلاف کی جائز تنقید اور اچھے مشوروں کو خوش دلی سے قبول کریں اور حزبِ اختلاف، حکومت کے اچھے کاموں کا اعتراف کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ قرآن کے مطابق انسان کی خلقت بھی تکلیف میں ہوئی اور زندگی میں بھی تکالیف اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تکالیف اور سختیاں زندگی کا حصہ ہیں۔مال ، دولت اور اقتدار بھی زندگی میں پیش آنے والی تلخیوں سے نجات نہیں دے سکتے۔انسان دکھ، سکھ پر مشتمل چند روزہ زندگی میں اچھی صفات اپنائے تو اسی میں دنیا و آخرت کی نجات ہے۔

حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ زمین و آسمان کی خِلقت، بارش، زراعت، باغات، نباتات وغیرہ جیسے آثار و مظاہر سے خالق کے وجود کی طرف متوجہ کیا ہے جس کی انسانی عقل بے ساختہ گواہی دیتی ہے۔حضرت امام جعفر صادقؑ سے ابو شاکر دیصانی نے اللہ کے وجود کی دلیل پوچھی تو امام نے انڈے سے توحید ثابت کی۔ فرمایا اس میں ایک سونے کا دریا ہے،ایک چاندی کا، دونوں آپس میں ملتے بھی نہیں۔ ان کا خالق کون ہے؟ دو دریاﺅں کو دیکھا جائے،ایک کا پانی میٹھا اور دوسرے کا نمکین لیکن آپس میں ملے بغیر ساتھ ساتھ بہہ رہے ہیں۔ان کا خالق بھی اللہ اور اس نظام کو چلانے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے۔

انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ کے دوام اور باقی ہر چیز کی فنا سے متعلق آیاتِ مبارکہ تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کے بھیجنے پر احسان نہیں جتلایا لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا اہلِ ایمان پر احسان جتلایااور ان کی تعلیمات و تزکیہ کا ذکر کیا۔جس طرح حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام انبیائؑ سے افضل ہیں ، اسی طرح ان کی امت کو بھی تمام امتوں سے افضل و بہتر ہونا چاہئے۔قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہم نے انسان کو راستہ دکھا دیا اب اس کی مرضی اچھائی کا راستہ اپنا کر شُکر گُزار بنے یا اسے ترک کر کے ناشُکرا بنے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .